اہم مسئلہ

شام کو میں کراچی کے دھوکے باز بادلوں کو تکتا ہوا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا اور میرے پردۂ ذہن میں بچپن کی یادیں امڈ رہیں تھی۔ وہ بچپن جس میں ہر چیز میرے لیے کھیل تھی۔ دنیا سے بے خوف اپنی الگ دنیا میں کھویا رہتا تھا۔ اگر کسی کھیل کا کوئی نام نہ ہوتا تو اس کے کرداروں کے نام پر کھیل کا نام رکھ دیا جاتا جیسے جب کبھی استاد بننے کا دل کرتا تو “ ٹیچر ٹیچر” کھیل کا نام ہوتا کبھی طبیب بننے کا دل چاہتا تو “ڈاکٹر ڈاکٹر “ کھیلتا تھا۔ یہ کھیل آج بھی کھیلا جاتا ہے اور اب معاشرے کا ہر ایک فرد اس کھیل کا حصہ ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ اس کھیل کا نام ٹیچر ٹیچر یا ڈاکٹر ڈاکٹر سے تبدیل کر کے “کافر کافر” رکھ دیا گیا ہے۔
یہ کھیل اب خاصا مقبول ہو چکا ہے اور اس کھیل کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کھیل کے کوئی قوائد و ضوابط نہیں۔ جس کا جب بھی جہاں بھی جی چاہتا ہے وہ دوسرے کو کافر کے لقب سے نواز دیتا ہے۔ اس کا تعلق کسی فرقے یا مسلک سے نہیں بلکہ اس کا تعلق بوسیدہ ذہن اور سوچ سے ہے۔ اب یہ سوچ معاشرے کی بیشتر چیزوں پر اثرانداز ہونے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مذہبی انتہاپسندی کی آگ میں اب سیاست بھی آچُکے ہے۔

اب مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کسی مخصوص مسلک کی بنیاد پر وجود میں آنے والی جماعتیں بھی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ میری ان گنہگار آنکھوں نے چند مسجدوں کو بھی اس غبار میں آلودہ ہوتے دیکھا ہے۔ ان کی وجہ سے جو منفی نقصانات سامنے سامنے آرہے ہیں ان میں سے ایک مختلف مسلکوں کی مختلف سوسائٹیز کا بنانا ہے۔ زرا دیر کو اپنے اردگرد پر نظر دوڑائیں آپ کو معلوم ہوگا کہ آغا خانیوں نے اپنی الگ سوسائٹی بنا رکھی ہے تو شیعہ حضرات بھی اپنی الگ سوسائٹی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ باقی دیگر افراد بھی اپنی الگ سوسائٹی میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس طرح تقسیم ہونا نہ ہمارے لیے فائدہ مند ہیں نہ اس ملک کے حق میں بہتر ہے۔ جب اس اہم مسئلے پر لوگوں سے بحث کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ تمہیں دین کا علم ہے نہ تم مذہبی مسائل کو سمجھتے ہو۔ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ اس پیکرگِل کو جس نے زندگی کی فقط اٹھارہ بہاریں دیکھیں ہوں اس کو علم کے سمندر کے قطرے کا بھی معلوم نہیں مگر اس کے باوجود میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام محبت ، پیار اور اخلاق کا درس دیتا ہے اور خود رب العلمین کہتا ہے کہ آپس میں تقسیم نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی تھامے رکھو۔ مگر نفرت کی دلدل میں پھنسے لوگ اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
آپ کے نزدیک شاید یہ مسئلہ چھوٹا ہو مگر میری نظر میں یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جو اس ملک کا سکون چھیننے کیلئے دستک دے رہا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم کے اختلاف کریں کیونکہ اس میں برکت ہے مگر اس کو دشمنی کا روپ نہ دیں بلکہ آپس میں محبت و خلوص کے ساتھ مل جل کر رہیں۔
 

Muhammad Sualeh
About the Author: Muhammad Sualeh Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.