عقیقہ کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں۔شرعی اصطلاح میں نومولود
بچہ/بچی کی جانب سے اسکی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتاہے۔ اُسے
عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ کرنا سنت ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ
کرام رضوان اﷲ تعالی اجمعین سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
اس کے چند اہم فوائد یہ ہیں:
زندگی کی ابتدائی سانسوں میں نومولد بچہ / بچی کے نام سے خون بہا کر اﷲ
تعالی سے اُس کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔یہ اسلامی ویکسی نیشن ہے، جس کے
ذریعے اﷲ تعالی کے حکم سے بعض پریشانیوں، آفتوں، بیماریوں سے راحت مل جاتی
ہے۔ہمیں دنیاوی ویکسی نیشن کے ساتھ اس ویکسی نیشن کا بھی اہتمام کرنا
چاہیے۔بچہ / بچی کی پیدائش پر جو اﷲ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے، خوشی کا
اظہار ہو جاتا ہے۔بچہ / بچی کا عقیقہ کرنے پر کل قیامت کے دن باپ بچہ / بچی
کی شفاعت کا مستحق بن جائے گا، جیسا کہ حدیث نمبر ۲ میں ہے۔عقیقہ کی دعوت
سے رشتہ دار، دوست احباب اور دیگر متعلقین کے درمیان تعلق بڑھتا ہے جس سے
ان کے درمیان محبت و الفت پیدا ہوتی ہے
عقیقہ کے متعلق چند احادیث:
۱-رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بچہ/بچی کے لئے عقیقہ ہے، اس
کی جانب سے تم خون بہاو اور اُس سے گندگی یعنی سر کے بال کو دور کرو( بخاری)۔
۲-رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر بچہ/بچی اپنا عقیقہ ہونے
تک گروی ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے، اس دن اس کا نام
رکھا جائے اور سر منڈوایا جائے۔(ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد)
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان: کل غلام مرتھن بعقیقۃ کی شرح علماء
نے بیان کی ہے کہ کل قیامت کے دن بچہ/بچی کو باپ کے لئے شفاعت کرنے سے روک
دیا جائے گا، اگر باپ نے استطاعت کے باوجود بچہ/بچی کا عقیقہ نہیں کیا۔ اس
حدیث سے معلوم ہواکہ حتی الامکان بچہ/بچی کا عقیقہ کرنا چاہیے۔
۳-رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لڑکے کی جانب سے دو بکریاں
اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ہے
(ترمذی، مسند احمد)
۴-رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور
لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ہے۔ عقیقہ کے جانور مذکر ہوں یا موئنث، اس سے
کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی بکرا یا بکری جوچاہیں ذبح کردیں۔
(ترمذی، مسند احمد)
۵-رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓکا
عقیقہ ساتویں دن کیا، اسی دن ان کا نام رکھا، اور حکم دیا کہ ان کے سروں کے
بال مونڈھ دیئے جائیں۔( ابو داود)
ان مذکورہ اور دیگر احادیث کی روشنی میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ بچہ/بچی
کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا، بال منڈوانا، نام رکھنا اور ختنہ
کروانا سنت ہے۔ لہذا باپ کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنے نومولود بچہ/بچی کا
عقیقہ کر سکتا ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس سنت
کو ضرور زندہ کرے تاکہ عنداﷲ اجر عظیم کا مستحق بنے، نومولود بچہ/بچی کو اﷲ
کے حکم سے بعض آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل سکے، نیز کل قیامت کے دن بچہ/بچی
کی شفاعت کا مستحق بن سکے۔
کیا ساتویں دن عقیقہ کرنا شرط ہے؟
عقیقہ کرنے کے لئے ساتویں دن کا اختیار کرنا مستحب ہے۔ ساتویں دن کو اختیار
کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ زمانہ کے ساتویں دن بچہ/بچی پر گزر جاتے ہیں۔
لیکن اگر ساتویں دن ممکن نا ہو تو ساتویں دن کی رعایت کرتے ہوئے چودھویں یا
اکسویں دن کرنا چاہیے، جیساکہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا فرمان احادیث کی
کتابوں میں موجود ہے۔ اگر کوئی شخص ساتویں دن کی بجائے آٹھویں یا دسویں دن
یا اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کرے تو یقینا عقیقہ کی سنت ادا ہو جائے گی، اس
کے فوائد ان شاء اﷲ حاصل ہو جائیں گے، اگرچہ عقیقہ کا مستحب وقت چھوٹ گیا۔
کیا بچہ/بچی کے عقیقہ میں کوئی فرق ہے؟
بچہ/بچی دونوں کا عقیقہ کرنا سنت ہے، البتہ احادیث کی روشنی میں صرف ایک
فرق ہے، وہ یہ ہے کہ بچہ کے عقیقہ کے لئے دو اور بچی کے عقیقہ کے لئے ایک
بکرا/بکری ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس بچہ کے عقیقہ کے لئے دو بکرے
زبح کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو وہ ایک بکرا سے بھی عقیقہ کر سکتا ہے،
جیساکہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ کی روایت ابو داود میں موجود ہے۔
بچہ/بچی کے عقیقہ میں فرق کیوں رکھا گیا؟
اسلام نے عورتوں کو معاشرہ میں ایک ایسا اہم اور باوقار مقام دیاہے، جو کسی
بھی سماوی یا خود ساختہ مذہب میں نہیں ملتا، لیکن پھر بھی قرآن کی آیا ت
اور احادیث شریفہ کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ
اﷲ تعالی نے اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے مردوں کو عورتوں پر کسی درجہ
میں فوقیت دی ہے، جیساکہ دنیا کے وجود سے لیکر آج تک ہر قوم میں اور ہر جگہ
دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلا حمل و ولادت کی تمام تر تکلیفیں اور مصیبتیں صرف
عورت ہی جھیلتی ہے۔ لہذا شریعت اسلامیہ نے بچہ کے عقیقہ کے لئے دو اور بچی
کے عقیقہ کے لئے ایک خون بہانے کا جو حکم دیا ہے، اس کی حقیقت خالق کائنات
ہی بہتر جانتا ہے۔
عقیقہ میں بکرا/بکری کے علاوہ دیگر جانور مثلا اونٹ گائے وغیرہ کو ذبح کیا
جا سکتا ہے؟
اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے، مگر تحقیقی بات یہ ہے کہ حدیث نمبر ۱ اور
۲ کی روشنی میں بکرا/بکری کے علاوہ اونٹ گائے کو بھی عقیقہ میں ذبح کر سکتے
ہیں، کیونکہ اس حدیث میں عقیقہ میں خون بہانے کے لئے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے بکرا/بکری کی کوئی شرط نہیں رکھی، لہذا اونٹ گائے کی قربانی دے کر
بھی عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔نیز عقیقہ کے جانور کی عمر وغیرہ کے لئے تمام
علماء نے عید الاضحی کی قربانی کے جانور کے شرائط تسلیم کئے ہیں۔
کیا اونٹ گائے وغیرہ کے حصہ میں عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟
اگر کوئی شخص اپنے ۲ لڑکوں اور ۲ لڑکیوں کا عقیقہ ایک گائے کی قربانی میں
کرنا چاہے، یعنی قربانی کی طرح حصوں میں عقیقہ کرنا چاہیے، تو اس کے جواز
سے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ ہمارے علماء نے قربانی پر قیاس کر کے اس کی
اجازت دی ہے، البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس طریقہ پر عقیقہ نہ کیا جائے
بلکہ ہر بچی/بچہ کی طرف سے کم از کم ایک خون بہا یاجائے۔
کیا عقیقہ کے گوشت کی ھڈیاں توڑ کر کھا سکتے ہیں؟
بعض احادیث اور تابعین کے اقوال کی روشنی میں بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ
عقیقہ کے گوشت کے احترام کے لئے جانور کی ہڈیاں جوڑوں ہی سے کاٹ کر الگ
کرنی چاہیں۔ لیکن شریعت اسلامیہ نے اس موضوع سے متعلق کوئی ایسا اصول و
ضابطہ نہیں بنایا ہے کہ جس کے خلاف عمل نہیں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ
احادیث اور تابعین کے اقوال بہتر و افضل عمل کو ذکر کرنے کے متعلق ہیں۔
لہٰذا اگر آپ ہڈیاں توڑ کر بھی گوشت بنا کر کھانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں
ہے۔ یاد رکھیں کہ ہندوستان اور پاکستان میں عموما گوشت چھوٹا چھوٹا کر کے
یعنی ہڈیاں توڑ کر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
|