نبوی تعلیمات سے بے خبر عاشقانِ رسول کے نام

نبوی تعلیمات سے بے خبر عاشقانِ رسول کے نام

تحریر ۔۔۔۔ ابو افنان

میں آسیہ مسیح کی ہرگز ہرگز طرف داری نہیں کرتا اورنہ ہی چیف جسٹس کے کئے ہوئے فیصلے کی تائید کرتا ہوں
بلکہ میں بھی دیگر کئی لوگوں کی طرح قانون کی باریکیوں سے قطع نظر جب چیف جسٹس
کی طرف سے کلمہ شہادت کے کئے ہوئے غلط ترجمے، جسٹس کھوسہ کی آسیہ کے معنی "گناہ گار"سے کرنے
کی انوکھی منطق اور پھر شدید عالمی دباؤ کو دیکھتا ہوں تو مزید تحفظات کا شکار ہو جاتا ہوں
ججز نے اگر واقعی حق تک رسائی کی بھرپور کوشش کی ہے تواللہ ان کو اجر دے گا اور اگر کسی مصلحت یا عالمی دباؤ سے متاثر ہو کر فیصلہ دیا ہے تو اللہ تعالی کے سامنے سچے دل سے توبہ کریں ورنہ اللہ کی عدالت کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ وہ ڈھیل دیتی ہے پر ڈیل کسی سے نہیں کرتی۔
آسیہ مسیح کیس میں مبینہ توہین کی وجہ یہ بیان کی
گئی ہے کے فالسے کے کھیت میں دیگر مسلم خواتین کے ساتھ
جھگڑ نے پر جب آسیہ مسیح نے ان خواتین کو پانی
پیش کیا تو انہوں نے یہ کِہکر پانی پینے یا لینے سے انکار کیا کہ
کہ تم ایک عیسائی خاتون ہو اور ہم مسلمان، اسلئے ہم آپ کے ہاتھ سے پانی نہیں لے سکتیں ۔ جس کے بعد آسیہ مسیح نے طیش
میں آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی توہین کی

یہ ہے وہ چھپی جہالت جس سے میں پردہ اٹھانا چاہتا ہوں

کیا کسی غیرمسلم کے ہاتھ سے پانی پینا جائز نہیں ہے؟

بالکل جائز ہے۔ غیر مسلموں کے ہاتھ کا پانی پیا بھی جاسکتا ہے اور اُن کو پلایا بھی جاسکتا ہے ، اُن کے ساتھ کھایا بھی جاسکتا ہے اور
اُن کوکھلایا بھی جاسکتا ہے ، اُن کے گھر مہمان بھی بنا جا سکتا ہے اور اُن کو مہمان بنایا بھی جاسکتا ہے ، خاص کر
اہلِ کتاب (یہود ونصاری) کے متعلق تو اسلام اور بھی نرم ہے۔
اُن کا ذبیحہ حلال اور اُن کی عورتوں سے نکاح جائز ہے۔
غیرمسلموں کے ہدیہ کو قبول بھی کیا جاسکتا ہے اورخود اُن کو گفٹ دیا بھی جا سکتا ہے ، زکوة کےعلاوہ اُن کے ساتھ مالی تعاون بھی کیا جاسکتا ہے۔
تعزیت اور بیمار پُرسی بھی کی جا سکتی ہے
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح بخاری میں مشرکین کے تحائف قبول کرنے کے عنوان سے باب قائم کرتے ہیں اور پھر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یہودی عورت کی طرف سے زہر آلود بکری پیش کرنے کا پورا قصہ ذکر کرتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشرک بھائی کو مکہ میں ایک سوٹ بطورگفٹ دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی غلام کی عیادت کرتے ہوئے اس کو اسلام کی دعوت دی اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔
اب آپ غور فرمائیے کہ
کیا اس گستاخی کا ظاہری سبب ہماری ان مسلم خواتین بہنوں کی نبوی تعلیمات سے جہالت نہیں بنی؟ اور کیا ان خواتین کو جہالت کے اندھیرے میں رکھنے والے والدین یاشوہر قصوروار نہیں ہوئے؟ دلّے دلّے کی رٹ لگانے اور من گھڑت قصے بیان کرنے والے خطیبوں اور واعظوں نے کبھی اس پر بھی بات کی ہے کہ غیرمسلم کے ساتھ کیسے برتاؤ کیا جاتا ہے
کیا اس کیس کی وجہ سے اسلام کے سخت مزاجی کے تصور کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں نہیں گیا؟
کھیت میں کام کرنے والی ایک گمنام عورت کے مسئلے
کو انٹرنیشنل ایشو کا درجہ ہم نے نہیں دیا؟ جس کی وجہ سے پادریوں کو بھی منہ کھولنا پڑ گیا اور پھر غالباً انٹرنیشنل دباؤ کی وجہ سے ہمارے چیف جسٹس کا قلم بہک گیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے
ایک عطاءاللہ شاہ بخاری تھے
کسی بھنگی کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں اس کے انکار پرخود اس کے ہاتھ دھلا کر دسترخوان پر ساتھ بٹھاتے ہیں، اس کے منہ میں لقمہ دیتے ہیں اور جب اس کا حجاب اور خوف کچھ دور ہو جا تا ہے تو شاہ صاحب ایک آلو لیکر اس کے منہ میں ڈال دیتے ہیں جب اس نے آدها آلو کاٹ لیا تو باقی آدها شاه صاحب خود کھا لیتے ہیں ،
اورجب وہ بھنگی پانی پی لیتا ہے تو اسکا بچاہوا پانی بھی شاه صاحب خود پی کر اس کو اسلام کا گرویدہ بنالیتے ہیں نتیجتاً وہ بھنگی فیملی سمیت مشرف باسلام ہوجاتاہے ۔
ایک شاہ صاحب کاطرزعمل ہے
جس کی وجہ سے اسلام کا باغی اسلام کا سپاہی بن جاتاہے اورایک آج کےنام نہاد عاشقانِ رسول کا طرزعمل جس کی وجہ سے ایک عیسائی عورت مزید بھٹک کر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کےحق میں اول فول بکنے لگتی ہے۔

یہ جہالت ان خواتین کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ نبوی تعلیمات سے بے خبر نام نہاد عاشاقانِ رسول کو بھی اس جہالت سے وافرحصہ ملا ہے۔ زرخرید ملّاؤں اور واہ واہ کے دلدادہ خطیبوں نے ان کو یہ پٹّی پڑھائی ہے کہ جنت میں جانے اورسچی محبت کے ثبوت کے لئے کسی عمل ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزعمل یا کسی قربانی کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے جھوٹے دعوٰیِ عشق ثابت کرنے کے لئے جلاؤ گھیراؤ یا کم ازکم کسی غریب کی اِک آدھ
موٹر سائیکل یا رکشہ جلا دینا ہی کافی ہے ۔ ایسے میں کیا یہ کہنا درست نہیں کہ ہمیں چیف جسٹس نے نہیں بلکہ ہماری جہالت نے مارا ہے ؟

بلا مبالغہ کم و بیش بیس بار مختلف لوگوں نے مجھ سے یہ سوالات پوچھے ہونگے کہ کیا غیرمسلم کے ساتھ ہاتھ ملانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے کہ نہیں؟ کھانا کھایا جاسکتا ہے کہ نہیں؟ رہائش رکھی جاسکتی ہے کہ نہیں؟ گفٹ دیا اور لیاجاسکتا ہے کہ نہیں؟ ان کےاستعمال کے برتن استعمال کئے جاسکتے ہیں
کہ نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
پوچھنے والوں کا اللہ بھلا کرے ، اُن کی حوصلہ شکنی مقصود نہیں کہ جہالت کی بیماری کاعلاج ہی اہلِ علم سے سوال کرنا ہے۔
لیکن مجموعی طور پر اس قسم کے سوالات سے اس بات کے اوپر روشنی ضرور پڑتی ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ برتاؤ کا کس قسم کا عجیب تصور ہمارے مسلم نوجوانوں کے ذہنوں میں بٹھایا گیا ہے۔
اسلام میں جن چیزوں کا لین دین کسی غیرمسلم کےساتھ جائز نہیں ہے بہت کم اور جن کا جائز ہے بہت زیادہ ہیں۔

مختصر طور پر تین بنیادی نکات پر ان کو تقسیم کیاجا سکتا ہے

موالات:
اس سے مراد قلبی اور دلی محبت ہے ۔ یہ صرف ہم عقیدہ لوگوں (اہلِ اسلام ) کے ساتھ جائز ہے ، کفار و مشرکین سے راز دارانہ تعلق، قلبی محبت اور ان کا ایسا احترام کہ (جس سے کفر کا احترام لازم آئے) جائز نہیں۔

مواسات:
اس کا مطلب ہمدردی ، خیر خواہی اور نفع رسانی ہے۔ ایسے غیرمسلم جو اہلِ اسلام کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں ، چاہے اپنے ملک میں مقیم ہوں یا کسی مسلم ملک میں وہ بہرحال ہماری ہمدردی اور خیر خواہی کے مستحق ہیں۔

اللہ تعالی کاارشادہے:
"اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتے کہ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے یعنی وطن سے نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو ، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں"۔سورہ ممتحنہ آیت نمبر8

مدارات:
اس سے مراد ظاہری خوش اخلاقی ، مہمان نوازی ، بیمار پُرسی
اور ادب و احترام ہے۔ یہ تمام غیرمسلموں کے ساتھ جائز ہے ، خاص طور پر جب مقصد دینی نفع رسانی ، اسلام کی دعوت ، اسلامی اخلاق و برتاؤ اور اقدار کو پیش کرنا ہو۔

نوٹ:
دعوتِ دین کی خاطر کسی غیرمسلم سے تعلق رکھنا اور اس سے خوش اخلاقی سے پیش آنا انتہائی مستحسن امر ہے
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنا اسلامی امتیاز بہرصورت بر قرار رکھنا اور عقائد یا دینی مسائل میں کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کرنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ کسی بھی مسلمان کو رواداری کے نام پر ذرہ برابر دین کے معاملے میں رد و بدل اور ترمیم کی اجازت شریعت نہیں دیتی۔

اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ اوردینِ اسلام کی تعلیمات پرعمل کرنےکی توفیق عطاء فرمائیں

Mufti Abdul Wahab
About the Author: Mufti Abdul Wahab Read More Articles by Mufti Abdul Wahab: 42 Articles with 40687 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.