اسکول کا لفظ یونیورسٹی سے بھی زیادہ وسیع معنویت کا حامل
ہے۔لفظ اسکول بیشک انگریزی سے مستعار لیاگیاہے لیکن کثرت استعمال سے اب یہ
اردو قبیل کا ہی لگتاہے۔اسکول ایک ایسی کار گاہ ہے جہاں مردم سازی کا کا م
انجام دیا جا تا ہے اور قلب و ذہن کو نور بخشا جا تا ہے۔اسکول انسان کو
دولت احتساب سے آراستہ کرتے ہوئے انسانیت کی نگرانی و حفاظت پر ما مور کر
تا ہے۔اسکول ایک متحرک اور فعال ادارہ ہو تاہے جہاں زندگی کا نمو اور حرکت
دونوں پا ئے جاتے ہیں اسکولو ں کا جمود قوموں کے زوال کا با عث
بنتاہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے زوال سے لیکر آزادی ہند اور ما
بعد آزادی معدودے چند کہ آج تک ایسے اسکولوں کا مسلم معاشرے میں فقدان ہے
جہاں سے قوم پروری کے نغموں کی صدا بلند ہوئی ہو اور مسلم قوم کی تعمیر کی
بنیادوں کو استوار کیا گیاہو۔مسلم حکومتوں کے زوال کے بعد مسلمانان ہند
فطری طور پر یا پھر ایک منظم سازش کے تحت احسا س کمتر ی کا شکار ہو گئے ۔
ایسے نا مساعد حالات میں ان کو جو نصاب تعلیم فرا ہم کیا گیا وہ ان کو صرف
اور صرف غلام بنا سکتا تھا یہ تو ایک فاتح قوم کا مغلوب قوم سے
برتاؤتھالیکن المیہ تو یہ ہے کہ آج مسلم معاشرے میں ایسے اسکولوں کی بہتات
ہے جو کہ ہر وقت یہ اعلان نشر کرتے نہیں تھکتے کہ وہ قوم کی تعمیر اور اس
کے استحکام میں ہر اول دستہ کا کام انجام دے رہے ہیں لیکن یہ مسلمانوں میں
غیر متزلزل یقین اور حوصلہ پید ا کر نے میں نا کام ہوگئے ہیں جو کہ قوم
مسلم کا خا صہ ہے۔ کسی بھی قوم و ملت کے مستقبل کی پرورش ان کے اپنے مدارس
میں ہو تی ہے اگر وہ مدارس ہی مقتل کا کام انجام دیں تو انھیں کسی دشمن کی
حاجت نہیں رہتی۔ مغرب جو آج جدیدیت کا علم بردار ہے او ر ہر کس و ناکس نے
اس نام نہاد جدیدیت کو اپنے اوپر لاد رکھا ہے اورمغرب کی اندھی تقلید کو
باعث افتخار سمجھا جا رہا ہے درحقیقت یہ غور طلب بات ہے کہ ہمارے مسلم
اسکولوں میں آج جو نظام تعلیم رائج ہے اسے کس نے کب اور کیوں رائج کیا اور
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جو مقاصد اغیار کے نظام تعلیم کے با نی کے تھے
اگر وہی مقاصد ہمارے تعلیمی اداروں کے بھی ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ ا س
نظام کو جاری رکھا جائے اور اس کی جزئی اصلاح ہی کا فی ہے۔ اکثر و بیشتر
ذمہ داران مدارس کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ موجودہ تعلیمی نظام جس کے
وہ مقلد ،خوشہ چیں بلکہ پیرو ہیں مسلم دشمن انگریز حکومت کے ایجنٹ لار ڈ
میکالے کا رائج کر دہ ہے ۔ اس نظام تعلیم کا منشاء و مقصد واضح تھا کہ اس
کے ذریعہ ایسے نوکر پیشہ افراد بلکہ ذہنی غلاموں کی فوج تیار کی جا سکے جو
قومی حمیت کے جذبے سے عاری ہوں۔ آج ہمارے تعلیمی ادارے مغربی نظام تعلیم کو
من و عن قبول کر تے ہوئے اور صرف دینی تعلیم کے ایک محدود و مخصوص مضمون کو
نصاب میں داخل کرتے ہوئے اگر امید کر تے ہیں کہ اس سے ایک آزاد مسلم نسل جو
نوکر ی پیشہ ہونے کے بجائے دنیا کی نیابت کا فریضہ انجام دے گئی تو یہ ایک
خام خیالی نہیں تو اور کیاہے۔ مدارس میں بچوں کو اس لئے بھیجا جا تا ہے کہ
وہ تعلیم و تر بیت سے آراستہ و پیراستہ ہو کر جہاں بانی کا کام انجام دیں
گے اور خلق خدا کی خدمت ان کا نصب العین ہوگا۔ دالدین کے یہ مقاصد ہو نہ ہو
اہل مدارس قوم سازی تو درکنار تعلیمی مقاصد بھی وضع کر نے میں نا کام ہو
گئے ہیں۔ آج مسلم تعلیمی اداروں کا ایک وسیع جا ل وجود میں آچکا ہے لیکن
قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ تمام ادارے شخصی اور ذاتی منفعت کے مقصد کے تحت
وجود میں آئے ہیں ان کا قوم کی تعمیر و ملی وقار کی بحالی سے کوئی تعلق
نہیں ہے ۔ اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کے بیشتر والیان و مالکان مدارس جن
کا تعلیم و تعلم سے دور کا بھی رشتہ نہیں ہے وہ بھی تعلیم اداروں کے قیام
کے ذریعے قوم و ملت کی مٹی پلید کرنے میں مشغول ہیں۔ آج کل تعلیمی اداوروں
کے قیام میں غیر سنجیدہ اصحاب کو مصروف دیکھتے ہوئے ایک مشہور زمانہ واقع
کا تذکرہ ضروری محسوس ہو تاہے کہ کس طرح تاجرین تعلیمات نے علم کی تعمیر ی
طاقت کو محض حصول دولت کا ذریعہ بنالیا ہے۔ امکنہ اور آبکاری کے ٹھیکیدار
دو دوستوں نے اپنے تعمیر ی اور آبکاری کی ٹھیکداری میں ہونے والے نقصانات
کی پابجائی کے لئے تعلیمی تجارت اپنانے کا فیصلہ کیا ۔ دونوں نے مختلف
شہروں میں اسکول قائم کئے تعمیری ٹھکیدار کا اسکول چل پڑا لیکن آبکاری کے
ٹھیکدار کے مقدر میں یہاں بھی نا کامی لکھی ہوئی تھی ۔ آبکاری کے ٹھیکیدار
نے نا کامی کا تذکرہ اپنے دوست سے کیااو ر تعلیمی تجارت میں اس کی کامیابی
کا راز دریافت کیا۔ کامیاب دوست نے اپنے ناکام دوست کو بتا یا کہ یہ تجارت
تو بالکل ہی آسان ہے ایک اہل صدر مدرس کے تقرر کے ذریعہ کامیابی با آسانی
حا صل کی جا سکتی ہے کیونکہ ما باقی امور کی انجام دہی وہ خود کر لے گا۔ نا
کام دوست نے سوال کیا کہ اچھے صدر مدرس کے انتخاب کا طریقہ کا ر کیا
ہے۔پہلے دوست نے کہا کہ اس نے صدر مدرس کے عہدے کے لیئے اشتہا ر دیا اور
امیدواروں سے بہت ہی کٹھن سوالات کیئے اور اسے ایک اچھا صدر مدرس مل گیا۔نا
کام دوست نے انٹرویو کے با بت پوچھے جا نے والے سوالات کی نوعیت دریافت کی۔
کامیاب دوست نے بتایا کہ اس نے ایک سوال" آپ کے والدین کو ایک لڑکا ہے اور
وہ آپ کا بھائی بھی نہیں ہے توبتاؤ کہ وہ کون ہے"۔دوسرے دوست نے قدرے
اضطراب سے درست جواب کے بارے میں پوچھا۔تعمیر ی ٹھیکدار جو اب اسکول
کرسپانڈنٹ بن چکا تھا کہتا ہے کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ خودد اگروال ہے۔
ناکام کرسپانڈنٹ کو تشفی ہوئی کہ اب وہ ایک قابل صدر مدرس کے انتخاب کے
ذریعہ اپنی تعلیمی تجارت کو چمکاسکتاہے۔ اس نے بلا کسی تاخیر اخبارات میں
صدر مدر س کی جا ئیداد کے لئے اشتہار دے ڈالا۔کئی لوگ انٹرویو کے لئے آئے
جن میں لائق بھی تھے فائق بھی تھے اور چند جعلی اسنادات کے حامل بھی تھے
اور چند کے پاس اعلی عہدوں پر فائز ارباب اقتدار کی سفارشات بھی تھیں۔ ان
تمام میں ٹھیکدار نے ایک امیدوار کو پسند کیا جو کہ حکمران جماعت کے وزیر
کاسفارشی بھی تھا ناکام کرسپانڈنٹ نے سوال کیا کہ بتاؤ کہ تمہارے والدین کو
ایک لڑکا ہے اور وہ تمہارا بھائی بھی نہیں ہے تو وہ کون ہے۔امیدوار صدر
مدرس نے کہا کہ صاحب آپ نے نہایت ہی مشکل سوال کر ڈالا آپ تعلیم سے متعلق
سوالات کر یں کہ کس طرح سے شریر طلباء کا سامنا کیا جا سکتاہے اور کس طرح
سے ایک کند ذہن طالب علم کو ذہین اور ہشیار بنایا جا سکتاہے۔ اس طر ح کے
مشکل سوال کا جواب جو آپ نے پوچھا ہے میں نہیں دے سکتا۔پھربھی کیونکہ آپ نے
سوال پوچھ ہی لیا ہے تو مجھے ایک دن کا وقت دیجئے کہ میں آپ کے سوال کا
جواب دے سکوں۔اس دوران امیدوار صدر مدرسی نے کئی فہیم و ذکا اشخاص سے رابطہ
قائم کیا لیکن کسی نے بھی اس کے سوال کا جواب نہیں دیا بالاخر اس نے اپنے
ہم پیشہ دوست سے پوچھا کہ دوبے بتاؤ کہ تمہارے والدین کو ایک لڑکا ہے اور
وہ تمہارا بھائی بھی نہیں تو وہ کون ہے۔دوبے نے فورا کہا کہ بے وقوف یہ تو
بہت ہی آسان سوال ہے یہ تو میں خود ہوں۔ امیدوار صدر مدرسی بہت خوش ہو اور
دوسرے دن اپنے باس کے پا س پہنچا اور کہا کہ جناب مجھے جواب مل چکاہے کہ وہ
کون ہے۔ٹھکیدار نے پوچھا کہ بتاؤ وہ کون ہے صدر مدرس نے کہا کہ جناب وہ تو
دوبے ہے اسکول کرسپانڈنٹ نے کہا کہ نہیں نہیں وہ دوبے نہیں ہے بلکہ وہ
اگروال ہے۔یہ کہانی فرضی بھی ہو سکتی ہے لیکن آج کل بیشتر مدارس کے بانیان
کا حال بھی اس کہانی سے مختلف نظر نہیں آتاہے لیکن تعلیمی ٹھیکداروں کو
معلوم ہونا چاہیئے کہ تعلیم تجارت نہیں اور وہ اس کو آلودہ نہ کر یں۔ اسی
تناظر میں آکسفورڈ یو نیورسٹی کے ما ہر تعلیم پروفیسر ہاوف میان شدت سے
محسو س کر تے ہیں کہ تعلیم سے وابستہ افرادو اداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ
تعلیمی اقدار سے سر موئے انحراف نہ کر یں ۔ عہد حاضر کے اسکولوں کی فعالیت
ان کے لئے شدید تکلیف کا باعث ہے کہ نا لائق اسکول انتظامیہ اور غیر تعلیم
یافتہ و غیر تجربہ کار اساتذہ کے ہا تھوں طلبا کا نا قابل تلافی نقصان ہو
رہا ہے۔وہ اس بات کے موئید ہے کہ ا سکول انتظامیہ تعلیمی اقدار اور مقاصد
کا لحاظ رکھیں اور ان پر عامل بھی ہوں۔ اور جو یہ نہیں کر سکتے ہیں ان کو
اس مقدس پیشہ سے دور ہی رہنا چاہیئے۔مسلمانوں کی تعمیر و ترقی میں تعلیمی
اداروں کا کردار ایک اہم مسئلہ ہے قوم مسلم کے زوال و پسماندگی کا سبب صحت
مند فکری رجحان کے حامل اسکولوں کا فقدان ہے عصری علوم کی تر ویچ میں مصروف
اسکول و تعلیمی ادارے فکری طور پر مفلوج نظر آتے ہیں ہمارے سیاست داں،
مفکرین اورعلماء تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دے رہے ہیں جس کی وہ متقاضی ہے۔
تعلیم کو جتنی اہمیت اسلام دشمن طاقتوں نے دی ہے اس کا عشرہ عشیر اہمیت بھی
آج ہم دینے سے قاصرہیں۔ارباب علم و دانش یعنی کہ ذمہ داران مدارس کو چاہیئے
کہ مغرب کی اندھی تقلید کو اپنا شعار نہ بنائیں بلکہ عصری علوم و فنون میں
اجتہادی بصیرت پیدا کریں فکری غلامی کی بندیشوں کو توڑ کر اپنے مدارس کا
نصاب اسلامی اصولوں کی روشنی میں متعین کر یں۔عصری جدید علوم کے سسٹم اور
نصاب کو از سر نو ترتیب دیں۔ مدارس کی فضاء کو عین اسلامی ما حول کے مطابق
بنائیں۔ تمام علوم کو مادہ پرستی کی لعنت سے پاک کریں اور ان کو اسلامی
افکار کے مطابق ڈھالیں۔ان اقدامات کے بغیر مسلمانوں کی تعمیر و تشکیل مشکل
ہی نہیں نا ممکن نظر آتی ہے۔ سچ ہے کہ یہ کام نہایت دشواراور صبر طلب ہے
اور مکمل نظام تعلیم کی تبدیلی کے لئے ایک لمبا عر صہ بھی درکار ہوگا۔ہو
سکتاہے کہ اس کام کی تکمیل میں ہماری اپنی زندگی کھپ جائے اور یہ حقیقت ہے
کہ قوم کی تعمیر اور انقلاب کی پرورش کے لئے ہمیشہ وقت لگتاہے۔ تاریخ گواہ
ہے کہ لارڈ میکالے کے ۵۷ ۸ ۱ میں لگائے گئے تعلیمی پودوں کے کڑوے کسیلے پھل
آج تک معاشرے کو بد مزہ و پراگندہ کر رہے ہیں اور اگر پھر بھی ہم آرام طلبی
کی وجہ سے اس متبرک کام کو پس پشت ڈال دیں تو ہم آنے والی نسلوں کے مجرم
کہلائیں گے۔یہ با ت نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ ا ب صرف ایک پیریڈ(گھنٹہ)
مذہبی تعلیم دینے کا نہیں رہا۔آج جو نظام تعلیم ہمارے مسلم اسکولوں اور
کالجوں میں رائج ہے ان کو مکمل بدلنا پڑے گاجس کی وجہ سے ہم قومی خودداری
اور ملی شعور سے محروم ہو گئے ہیں ہمیں اس تعلیمی نظام سے گلوخلاصی کی
ضرورت ہے جس نے ہم کو مغرب کا فکری غلام بنادیا۔آج یہ با ت لکھتے ہوئے
ہچکچاہٹ نہیں ہو تی ہے کہ اسکولوں سے تعلیم و تر بیت مفقود ہوچکی ہے یا
پھریہ مغربی تسلط اور غلط طریقہ کار کی وجہ سے بے اثر ہو چکی ہے۔مسلم مدارس
آج اپنی مقصد یت کو کھو رہے ہیں ان کی تر جیحات بدل گئی ہیں بانیان مدارس
کے لئے تعلیم و تدریس ایک پیشہ بلکہ تجارت بن گئی ہے ما ضی میں مسلم درس
گاہیں صرف کتابی علم کا مر کز نہیں تھیں بلکہ یہ ملی تعمیرکی فیکٹریاں ہوا
کر تی تھیں۔تعلیمی اداروں کے سیاہ و سفید کے ما لک در س گاہوں کا جائزہ لیں
اور اندازہ کر یں کہ یہ درس گاہیں جو ما ضی میں مردم سازی کا کا م انجام
دیتی تھیں وہ مقصد تعلیم و تربیت سے کتنی دورجاچکی ہیں اور تعلیمی تجارتی
منڈیوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔تعلیم کا نظام اسلام کے دور اولیں سے
حکمراں طبقہ اور دولت مند گھرانوں کی ذمہ داری تصور کیا جا تا تھالیکن آج
کے معاشرے میں ایسا لگتاہے کہ دولت مند گھرانوں سے سخاوت کا جنازہ نکل
چکاہے اور وہ قوم کی تعلیم و تربیت میں اپنا تعاون نہیں کے برابر ادا کر
رہے ہیں جسکی بنا پر معاشرہ طبقاتی کشمکش کا شکار ہوکر رہ گیاہے۔متمول اور
دولت مند گھرانوں کو چاہیئے کہ ملت کے وقار کی بحالی کے لئے ابتدائی تعلیم
سے لیکر اعلی تعلیم تک تعلیمی ادارے قائم کر یں اور ان کی کفالت کی ذمہ
داری بھی لیں تبھی وہ اﷲ کے پاس اجر کے مستحق ہو ں گے۔والدین اس بھروسے کے
ساتھ اپنے بچوں کو مدارس کا رخ دکھارہے ہیں کہ وہ فراغت کے بعد دین ود نیا
میں نام کمائیں گے اب یہ اہل مدارس کا کام ہے کہ ان نا تراشیدہ قیمتی
نگینوں کو اپنی کار گاہ مہارت میں چمکاکرانمول بنا ئیں اور اس بات کا خا ص
خیال ر کھیں کہ یہ نگینے اگر ایک بار چٹک گئے تو پھر کوئی طاقت ان کو
جوڑنہیں سکتی۔
|