ایک وقت تھا جب بچوں کی اخلاقی بنیادوں پر پرورش کی جاتی
تھی ۔ بچہ تھوڑا بڑا ہوتااور دنیا میں آنے کے بارے میں والدین سے سوال کرتا
تو اسے جواب دیا جاتا اللہ میاں نے ایک فرشتہ بھیجا تھا جو اس بچے کو کمرے
کے روشندان سے ماں کی گود میں چھوڑ گیا۔ اس جواب سے بچہ بھی مطمئن ہو جاتا
اور اس کی ذہنی نشوونما پر بھی کوئی برا اثر نہ پڑتا۔ پھر جب بچے کے کھیلنے
کودنے کے دن آتے تو شام کو اسے باہر جانے سے منع کرنے کے لئے کہا جاتا کہ
نہیں بیٹا اچھے بچے شام کو باہر نہیں جاتے، اغوا کاراٹھا کر لے جائیں گے۔
یوں وہ روشندان سے پھینکی گئی نسل پھلتی پھولتی گئی اوراس نے دنیا کے ہر
شعبے میں اعلیٰ ترین کارکردگی دکھانے والے بڑے بڑے نام پیدا کئے۔
اس دور کی نسل کو مصلحت میں چھپے چھوٹے چھوٹے جھوٹ سے کوئی فرق نہیں پڑا
بلکہ وہ تمام اخلاقی قدار جو کسی بھی انسان کو مہذب بنانے میں ضروری ہوتی
ہیں ان کی شخصیت کا لازمی جزو بن گئیں۔ اور انہیں جو بات جس عمر میں پتہ
چلنی چاہئیے تھی اسی عمر میں آکر پتا چلی۔ پھر اچانک وقت بدلا اور سائنس نے
اتنی تیزی سے ترقی کرکے انسانی زندگی کے ہر پہلو پر ایسے اثرات مرتب کئے کہ
انسان کی سوچ اور طرز زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اس شتر بے مہار جدیدیت
اور روشن خیالی نے ایک نئے معاشرے کو جنم دیا جہاں بچوں کی بدتمیزیوں کو
کانفیڈینس (اعتماد)کا نام دے کر نظر انداز کیا جانے لگا۔ہمارے معاشرے نے
جدیدیت کی اس نئی لہر کے سامنے یوں ہتھیار ڈال دیئے کہ اپنی نسل کو بنا
سوچے سمجھے اس تہذیب کی گود میں ڈال دیا اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی مادر
پدر آزاد نسل پروان چڑھی جو اخلاقی اعتبار سے اتنی ترقی یافتہ ہو چکی ہے کہ
زندگی کے ہر چھوٹے بڑے فیصلے میں والدین کی رائے تک شامل کرنا گوارا نہیں
کرتی۔ اور ایسی ترقی کے چند ثمرات ہمیں کم عمری میں خود کشی کے رجحان میں
اضافہ اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بےراہ روی کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔
خدا ہمیں اپنے اصل سے جڑے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین |