تحریر:محمد ارسلان (جامعہ کراچی)
مکرمی!
’’پاکستان‘‘کی نامور ’’جامعہ کراچی‘‘دنیا کی بہترین جامعات میں شامل ہوتی
ہے۔ اس وقت 52 شعبہ جات، 17 تحقیقی ادارے اور 97 کے قریب الحاق شدہ کالج
ملک کے بہتر مسقبل کے لیے کوشاں ہیں۔ ہزاروں طلبہ و طالبات جامعہ کا رخ
کرتے ہیں۔ متعدد مسائل کا سامنا ’’معلمین اور طلبا و طالبات‘‘کرتے ہیں۔
انتظامی امور میں کوئی مطابقت نہیں اور منتظمین کے کارکنان کوئی اتفاق نظر
نہیں آتا۔ بطور طالبعلم میں خود جب جامعہ میں داخل ہوتا ہوں تو افسوس ہوتا
ہے کہ ملک کی اتنی بڑی جامعہ میں موجود مسجد اور اہم شعبہ جات میں اکثر
پانی غائب ہوتا ہے۔ا سٹریٹ لائٹس نہ ہونے کے باعث شام 7 بجے کے بعد کئی
معزز بیٹیاں پریشان پائی جاتی ہیں۔
شعبہ جات اور بیرونی گیٹ کا درمیانی فاصلہ تقریباً ایک کلومیٹر ہے ظاہر ہے
متعدد کی کلاسیں 8 بجے یا اس کے بعد مکمل ہوتی ہیں اس لیے شدید اندھیرا
ہونے کی وجہ سے خوف دلوں میں ہوتا ہے۔ گزشتہ مہینوں میں شیخ الجامعہ تک کچھ
شکایات پہنچنے کی وجہ سے سختی کی گئی کہ جو جوڑے یہاں صرف تفریح کے لیے آتے
ہیں ان کو نکالا جائے اس لیے اضافی کمرہ جماعت جلدی بند کی جانے لگیں۔
سیکورٹی اہلکار نے غیر اخلاقی افعال کو روکنے کے لیے صرف چند دن سختی کی۔
یاد رہے ’’جامعہ کراچی‘‘کے حوالے سے کئی غیراخلاقی افعال کی تصاویر سوشل
میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔ ان کے علاوہ کئی مسائل موجود ہیں اس سے متعلق کئی
پروفیسر و ماہرین ’’ذرائع ابلاغ‘‘ کے ذریعے صوبائی و وفاقی حکومت کو آگاہ
کرتے ہیں۔ مگر مثبت نتائج حاصل نہیں ہوئے۔
تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے لیے موجودہ اور سابقہ حکومت نے بڑے دعوے کیے
ہیں۔ جامعات تو آخری مرحلہ ثابت ہوتے ہیں جس بعد نوجوان ملک و معاشرے کی
خدمت کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ اگر یہ کھوکھلے ہوکر گئے تو معاشرہ مزید
کھوکھلا ہوجائے گا۔ میری تمام منتظمین، حکومتی اعلی افسران اور جامعہ
معلمین و طلبہ سے گزارش ہے خدارا خود سے بہتری لانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم
ملک میں تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں تو ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں تبدیلی
لانی ہوگی اور اس کے لیے مجھے اور آپ کو ہی کوشش کرنی ہوگی۔ دوسروں کی طرف
نہ دیکھیں نہ ہی دوسروں پر انحصار کریں۔ |