کسی کے چلے جانے سے کوئی خلاء پیدا نہیں پڑتا۔

میری وفات! سرما کی ایک یخ زدہ ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات ہوئی۔
اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ ڈاکٹر نے دوائیں تبدیل کیں مگر خلافِ معمول خاموش رہا۔ مجھ سے کوئی بات کی نہ میری بیوی سے۔ بس خالی خالی آنکھوں سے ہم دونوں کو دیکھتا رہا۔

دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔ جو بیٹا پاکستان میں تھا، وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔ چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں دونوں یونیسف کے سروے کے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔ لاہور والی بیٹی کو بھی میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔ رہے دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں، انہیں پریشان کرنے کی کوئی تُک نہ تھی! یوں صرف میں اور بیوی ہی گھر پر تھے اور ایک ملازم!جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا جاتا تھا۔

عصر ڈھلنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہورہا ہے۔ میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی، بیوی کو پاس بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں نے وصول کرنا تھیں اور دوسروں کو ادا کرنا تھیں۔ بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا۔ ”یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے۔ ذرا بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں“ مگر اس کے احتجاج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔ پھر سورج غروب ہوگیا۔ تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔ بیوی میرے لیے سُوپ بنانے کچن میں گئی۔ اس کی غیر حاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور غروب ہوگیا۔

مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میں آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں۔ پھر جیسےمیں ہوا میں تیرنے لگا اور چھت کے قریب جاپہنچا۔ بیوی سُوپ لے کر آئی تو میں دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ میں نے بولنے کی کوشش کی یہ عجیب بات تھی کہ میں سب کچھ دیکھ رہا تھامگر بول نہیں سکتا تھا۔

لاہور والی بیٹی رات کے پچھلے پہر پہنچ گئی۔ کراچی سے بھی چھوٹی بیٹی اور میاں صبح کی پہلی فلائیٹ سے پہنچ گئے۔ بیٹے تینوں بیرون ملک تھے وہ جلد سے جلد بھی آتے تو دو دن لگ جانے تھے۔ دوسرے دن عصر کے بعد میری تدفین کردی گئی۔ شاعر، ادیب، صحافی، سول سرونٹ سب کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔ گاؤں سے بھی تقریباً سبھی آگئے تھے۔ ننھیا ل والے گاؤں سے ماموں زاد بھائی بھی تینوں موجود تھے۔

لحد میں میرے اوپر جو سلیں رکھی گئی تھیں مٹی ان سے گزر کر اندر آگئی تھی۔ بائیں پاؤں کا انگوٹھا جو آرتھرائٹس کا شکار تھا، مٹی کے بوجھ سے درد کررہا تھا۔ پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔ اسی کیفیت میں سوال جواب کا سیشن ہوا۔ یہ کیفیت ختم ہوئی۔ محسوس ہورہا تھا کہ چند لمحے ہی گزرے ہیں مگر فرشتوں نے بتایا کہ پانچ برس ہوچکے ہیں۔ پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیشکش کی۔ ”ہم تمھیں کچھ عرصہ کے لیے واپس بھیج رہے ہیں۔ تم وہاں، دنیا میں، کسی کو نظر نہیں آؤ گے، گھوم پھر کر، اپنے پیاروں کو دیکھ لو، پھر اگر تم نے کہا تو تمھیں دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے۔ ورنہ واپس آجانا۔ “

میں نے یہ پیشکش غنیمت سمجھی اور فوراً ہاں کردی۔ یہ الگ بات کہ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔ پھر ایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔ آنکھ کھلی تو میں اپنی گلی میں تھا۔
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اپنے گھر کی جانب چلا۔ راستے میں کرنل صاحب کودیکھا۔ گھر سے باہر کھڑے تھے۔ اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔ خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔ اپنے مکان کے گیٹ پر پہنچ کر میں ٹھٹھک گیا۔ میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔ وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ترین ماڈل کی خریدی تھی۔ اس کا سن روف بھی تھا اور چمڑے کی اوریجنل سیٹیں تھیں دھچکا سا لگا۔ گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟ بچوں کے پاس تو اپنی اپنی گاڑیاں موجود تھیں۔ تو پھر میری بیوی جو اب بیوہ تھی، کیا گاڑی کے بغیر تھی؟

دروازہ کھلا تھا۔ میں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنی لائبریری میں گیا۔ یہ کیا؟ کتابیں تھیں نہ الماریاں! رائٹنگ ٹیبل اس کے ساتھ والی مہنگی کرسی، صوفہ، اعلیٰ مرکزی ملازمت کے دوران جو شیلڈیں اور یادگاریں مجھے ملی تھیں اور الماریوں کے اوپر سجا کر رکھی ہوئی تھیں۔ بے شمار فوٹو البم، کچھ بھی تو وہاں نہ تھا۔ مجھے فارسی کی قیمتی، ایران سے چھپی ہوئی کتابیں یاد آئیں، دادا جان کے چھوڑے ہوئے قیمتی قلمی نسخے، گلستان سعدی کا نادر نسخہ جو سونے کے پانی سے لکھا ہوا تھا اور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ الگ رنگ کی لکھائی دکھاتا تھا، داداجان اور والد صاحب کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں۔ کمرہ یوں لگتا تھا، گودام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا سامنے والی پوری دیوار پر جو تصویر پندرہ ہزار روپے سے لگوائی تھی، جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی۔ فاؤنٹین پینوں کا بڑا ذخیرہ تھا میرے پاس، پارکر، شیفر، کراس وہ بھی دراز میں نہیں تھا۔

میں پژمردہ ہوکر لائبریری سے باہر نکل آیا۔ بالائی منزل کا یہ وسیع و عریض لاؤنج بھائیں بھائیں کررہا تھا۔ یہ کیا؟ اچانک مجھے یاد آیا، میں نے چکوال سے رنگین پایوں والے، سُوت سے بُنے ہوئے، چار پلنگ منگوا کر اس لاؤنج میں رکھے تھے شاعر برادری کو یہ بہت پسند آئے تھے۔ وہ غائب تھے۔

نیچے گراؤنڈ فلور پر آیا، بیوی اکیلی کچن میں کچھ کررہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا۔ پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہوگئی تھی! میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کیسے پوچھوں کہ گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟ ایڑیوں میں بھی درد محسوس ہوتا تھا۔ دوائیں باقاعدگی سے میسر آرہی تھیں یا نہیں؟ میں اس کے لیے باقاعدگی سے پھل لاتا تھا۔ نہ جانے بچے کیا سلوک کررہے ہیں۔ مگر میں تو بول نہ سکتا تھا۔ نہ ہی وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔

اتنے میں فون کی گھنٹی بجی بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔ جو کچھ اس طویل گفتگو سے میں سمجھا، یہ تھا کہ بچے اس مکان کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔ ماں نے مخالفت کی کہ وہ کہاں رہے گی۔ بچے مصر تھے کہ ہمارے پاس رہیں گی! بیوی کو میری نصحیت یاد تھی کہ ڈیرہ اپنا ہی اچھا ہوتا ہے مگر وہ بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔ گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جاچکی تھی۔ بیوی نے خود ہی بیچنے کے لیے کہا تھا کہ اسے ایک چھوٹی آلٹو ہی کافی ہوگی۔

اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا۔ یہ نوجوان اب ادھیڑ عمر لگ رہا تھا۔ میں اس کا لباس دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے میری قیمتی برانڈڈ قمیض جو ہانگ کانگ سے خریدی تھی پہنی ہوئی تھی۔ نیچے وہ پتلون تھی جس کا فیبرک میں نے اٹلی سے لیا تھا!اچھا، تو میرے بیش بہا ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہوچکے تھے!

میں ایک سال، لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر، سب کو دیکھتا رہا۔ ایک ایک بیٹے، بیٹی کے گھر جاکر ان کی باتیں سنیں۔ کبھی کبھار ہی ابا مرحوم کایعنی میرا ذکر آتا۔ وہ بھی سرسری سا۔ ہاں! زینب، میری نواسی، اکثر نانا ابو کا تذکرہ کرتی۔ ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی۔ ”اماں یہ بانس کی میز کرسی نانا ابو لائے تھے جب میں چھوٹی سی تھی۔ اسے پھینکنا نہیں“ ماں نے جواب میں کہا، ” جلدی سے کپڑے بدل کر کھانا کھاؤ، پھر مجھے میری سہیلی کے گھر ڈراپ کرو“۔

میں شاعروں ادیبوں کے اجتماعات اور نشستوں میں گیا۔ کہیں اپنا ذکر نہ سنا۔ وہ جو بات بات پر مجھے جدید غزل کا ٹرینڈ سیٹر کہا کرتے تھے، جیسے بھول ہی تو چکے تھے۔ اب ان کے ملازموں نے میری کتابیں ڈسپلے سے ہٹا دی تھیں۔ ایک چکر میں نے قبرستان کا لگایا۔ میری قبر کا برا حال تھا گھاس اگی تھی۔ کتبہ پرندوں کی بیٹ سے اٹا تھا۔ ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔
ایک سال کے جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ رمق بھر بھی نہیں! بیوی یاد کرلیتی تھی تاہم بچے، پوتے نواسےپوتیاں سب بھول چکی تھیں۔ ادبی حلقوں کے لیے میں اب تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔ جن بڑے بڑے محکموں اور اداروں کا میں سربراہ رہا تھا وہاں ناموں والے پرانے بورڈ تک ہٹ چکے تھےاور نئے بورڈ بھی مسلسل بھرتے جارہے تھے۔ دنیا رواں دواں تھی۔ کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔ گھر میں نہ باہر!

پھر تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آرہی تھیں اور آئے جارہی تھیں، ہوائی جہازوں کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی۔ دنیا کا سارا نظام سمٹ کر موبائل فون کے اندر آچکا تھا۔ میں ان جدید ترین موبائلوں کا استعمال ہی نہ جانتا تھا۔

فرض کیجئے، میں فرشتوں سے التماس کرکے دوبارہ دنیا میں نارمل زندگی گزارنے آ بھی جاتا تو کہیں خؤش آمدید نہ کہا جاتا!بچے پریشان ہوجاتے، ان کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اور پروگرام تھے جن میں اب میری گنجائش کہیں نہ تھی! ہوسکتا ہے بیوی بھی کہہ دے کہ تم نے واپس آکر میرے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔ مکان بک چکا، میں ایک تو کسی بچے کے پاس رہ لیتی، دو کو اب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے! دوست تھوڑے یہ اب باقی بچے تھے۔ وہ بھی اب بیمار اور چل چلاؤ کے مراحل کا سامنا کررہے تھے!میں واپس آتا تو دنیا میں مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا۔ نئے لباس میں پیوند کی طرح۔ جدید بستی میں پرانے مقبرے کی مانند!

میں نے فرشتے سے رابطہ کیا اور اپنی آخری چوائس بتا دی۔ میں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں! فرشتہ مسکرایا۔ اس کا کمنٹ بہت مختصر تھا۔
”ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اس کے بعد جو خلا پیدا ہوگا، کبھی بھرا نہیں جاسکے گا، مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ خلا تو پیدا ہی نہیں ہوتا!“
 

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 335517 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More