طلاق ثلاثہ پہ عقلی دلیل کا عقلمندانہ جائزہ

قرآن وحدیث کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص کو ایک بار میں ایک ہی طلاق دینے کا اختیار ہے ، دوسری طلاق دوسری بار دے سکتا ہے اور تیسری طلاق تیسری بار۔ اﷲ نے اس طرح متعدد اوقات میں طلاق کو مربوط کرکے مردوعورت کے رشتے کی حفاظت کی ہے کیونکہ پہلی یا دوسری طلاق میں پھر سے شوہر کو رجوع کرنے کا حق ہوتا ہیحتی کہ رجوع نہ کرسکے تو نئے نکاح سے پھر دونوں ایک ہوسکتے ہیں۔ اسی لئے عدت کے دوران بیوی کو گھر سے نکالنا منع کیا گیا ہے ، شاید طلاق کے بعد اﷲ کی طرف سے کوئی نئی بات پیدا ہوجائے۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعا منع بھی ہے اور اگر کسی نے ایک ساتھ تین طلاق دیدی توایک ساتھ تین واقع نہیں ہوتیں ، صرف ایک واقع ہوتی ہے۔ عقلا بھی مان لیا جائے تو کم ازکم دو زندگی کی تباہی کا سوال پیدا ہوتا ہے جو اچانک اور ایک جھٹکے میں یہ تباہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے برصغیر میں طلاق ثلاثہ کا موضوع اخبارات کی سرخیاں بنا ہیتب سے غیرمسلموں کو بھی حلالہ اور طلاق ثلاثہ کے بہانے اسلام پہ معترض ہونے کا بڑا وسیلہ ہاتھ لگ گیا ہے ۔ آج وہ وقت آگیا ہے کہ مسلم پرسنل لابورڈ اور مسلم سماج کی اگوائی کرنے والی حنفی تنظیموں کے طلاق ثلاثہ کی مجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے امت مسلمہ کو پیچیدہ مشکلات کا شکاربنا دیا ہے۔ طلاق ثلاثہ پہ اہل حدیث کا موقف قرآن وحدیث کا موقف ہے، عالمی اور مرکزی پیمانیپراس موقف کوتسلیم کرلینے سے نہ صرف میاں بیوی کی زندگیاں تباہی سے بچ رہی ہیں بلکہ امت مسلمہ جس مشکل گھڑی سے گزر رہی ہے اس کا بھی حل نکل جاتا ہے۔
طلاق ثلاثہ کے نتیجے میں حلالہ مروجہ نیکتنی خواتین کو خودکشی کرنے پر مجبور کیا، کتنی خواتین اپنی نظروں میں آپ گرجاگئیں اور زندگی بھر شرمندگی کی عار لئے سرجھکاکے چلتی رہیں ، کتنی معصوم جبراغیروں کی ہوس کا شکار ہوئیں ، درندے صفت انسانوں کو عفت وعزت سے کھلواڑ کرنے کا بہترین موقع ہاتھ آیا،حد تو یہ ہوئی کہ مسلمانوں کی رسوائی کا کفار کے ہاتھ سامان آگیا۔

اب بھی ہوش کا ناخن لینے کی بجائے مرکزی سطح پرطلاق ثلاثہ اور حلالہ پہ اپنے موقف میں تبدیلی کا کوئی رجحان نظر نہیں آتا ہے۔ مولانا بدرالدین اجمل نے طلاق ثلاثہ کے وقوع پہ دلیل یہ دی ہے کہ اگر کوئی بندوق سے کسی کو تین گولی مارے تو کیا گولی نہیں لگے گی؟ آدمی تو مرا پڑا ہے اور آپ کہتے ہیں کچھ ہوا ہی نہیں ۔

ہندو کے سامنے یہ بات تو مزے کی ہے مگر شریعت کے سامنے شریعت کے انکار کے مترادف ہے۔عموما طلاق ثلاثہ پہ احناف کی جانب سے عقلی دلیل کے طور پر یہی بات پیش کی جاتی ہے اور عام لوگ سمجھتے ہیں کہ بات تو پتے کی ہے ۔ آئیے اس عقلی دلیل کا جائز ہ لیتے ہیں اور پتے کی بات کا ذرا اندر تک پتہ لگاتے ہیں ۔

اسلام قرآن وحدیث کی بنیاد پر قائم ہے ، عقل کے معیار پر نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں دین کا دارومدار رائے اور عقل پر ہوتا تو موزوں کے نیچے مسح کرنا اولی ہوتا بنسبت اوپر مسح کرنے کے اور بلاشبہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو موزوں کے اوپر مسح کرتے دیکھا ۔اس لئے شریعت میں اپنی عقل کو کنارے ہی رکھنا چاہئے ۔عقل کی فراوانی ہے تو یہود ونصاری کی طرح دنیاوی معاملات میں اس کو کھپائیں اور دنیا کے سامنے کوئی جدید آلہ، نیا انکشاف اور خصوصا امت مسلمہ کی آسانی کے لئے کچھ نیا کر دکھائیں تاکہ غیروں کو بھی لگے کہ اس میدان میں مسلمان بھی پیچھے نہیں ہیں ۔ اے کاش،،،،
بہرکیف! فرض کرتے ہیں کہ ایک شوہر نے بیوی کو غصیمیں بندوق سے تین گولیاں ماری ۔ ایک دوسرے شوہر نے اپنی بیوی کو زبان سے تین طلاق دی۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دونوں شوہروں کی بیویاں مر گئیں یا ایک شوہر کی بیوی زندہ ہے؟

ظاہر سی بات ہے نرسری کلاس کا بچہ بھی کہے گا کہ جس عورت کو گولی لگی ہے وہی مرے گی اور جس کو طلاق دی گئی ہے وہ نہیں مرے گی ۔ اب بات واضح ہوگئی کہ گولی اور طلاق میں بہت فرق ہے ۔ بھئی ایک گولی بھی بیوی کو مار دو مر جائے گی تو پھر بدالدین اجمل جیسے مولویوں کو یہ ماننا چاہئے کہ ایک طلاق سے بھی بیوی مر جائے گی مگروہ نہیں مانے گا ۔

بنیادی طور پر ذہن میں یہ بات رکھیں کہ دین میں عقل کا دخل نہیں ہے اور یہ بھی مان کر چلیں کہ کتاب وسنت کی روشنی میں ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی مانی جاتی ہے ۔ ان دونوں باتوں کو ذہن نشین کرتے ہوئے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہوں کہ گولی کا بھی اثر ہوتاہیاور طلاق ثلاثہ کا بھی اثر ہوتاہے۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ طلاق کا اثر کیسا ہوتا ہے؟ کتنا گہرا ہوتاہے؟ اس اثر سے کیا کچھ ممکن ہے ؟ پہلے مقصد طلاق پہ ایک بات پیش کردیتاہوں ۔

فرض کریں حکومت نے ہمیں بندوق دی ہے اس بات کا پابند کرکے ہمیں کسی کیجسم پہ گولی نہیں چلانی ہے، مجبوری میں پیر پر چلاسکتے ہیں تاکہ کم سے کم وہ زندہ رہے ۔ اب کوئی انسان مجرم کے پیر پر تین گولی چلائے یا تین ہزار اس کی زندگی محفوظ ہے ۔ اثر تو ایک گولی بھی دکھائے گی اور تین اور تین ہزار بھی مگر جو مقصد تھا پورا ہوا۔ اﷲ کے فرمان طلاق دو مرتبہ ہے اس سے بھی یہی مقصد ہے کہ تم الگ الگ وقت میں طلاق دو اور رجعت کی حالت میں بیوی کو اپنے گھر میں ہی رکھو اور انتظار کرو ممکن ہے کہ اﷲ کی طرف سے کوئی کرشمہ ہوجائے اور میاں بیوی پھر سے ایک ہوجائیں ۔ یہ ہے زندگی کا تحفظ ۔

اب اس گولی کے اثر کو دین کے احکام کے پس منظر میں دیکھتے ہیں کیونکہ ہمارا دین دلیل وبرہان پر قائم ہے ، اگر عقل کو آزاد کردیا جائے اور دین میں عقل کو معیار بنالیا جائے تو لوگ بہت ساری دینی باتوں کا انکار کربیٹھیں گے ، بہت ساری باتوں کو فرسودہ مانیں گے اور بہت ساری باتیں اپنی جانب سے اضافہ کریں گے مگر ہمارا دین فطری ہے جو اﷲ کی طرف سے نازل شدہ ہے اس میں انسانی عقل کا کوئی کام ہی نہیں ہے ، یہ دین اس کی عقل سے بلند ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے ایمان کی مثال موجود ہے ، جب آپ ? کواسراء ومعراج ہوا تو کافروں نے عقل لگائی مگر ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ اگر یہ بات محمد ﷺنے بیان کی ہے تو سچ ہے جبکہ آپ نے ابھی زبان رسالت سے اس واقعہ کے متعلق کچھ سنا بھی نہیں تھا ۔ سبحان اﷲ

کیا طلاق ثلاثہ اور گولی کا اثر دونوں برابر ہیں ؟ اوپر ایک جائز ہ ہم نے پیش کیا کہ گولی سے بیوی مرجاتی ہے لیکن طلاق سے نہیں مرتی ۔ کیا طلاق ثلاثہ سے کوئی اثر نہیں ہوتا ؟ ہاں اثر ہوتا ہے ، میں مانتا ہوں کہ اثر ہوتا ہے اور اثر بھی اتنا ہی مانوں گا جتنا ہمیں رسول اﷲ ﷺنے بتلایا ہے ، اس میں اپنی عقل سے کچھ اضافہ نہیں کرسکتا ۔ طلاق ثلاثہ کا اثر یہ ہے کہ کوئی شوہر ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے تو ایک طلاق واقع ہوگی یعنی طلاق کا اثر ہوا مگر ایک طلاق کا اثر ہوگا۔

دینی احکام کے پس منظر میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اﷲ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ نماز اپنے اپنے وقتوں پر فرض ہے ۔ اگرکوئی موذن فجر کے وقت دن بھر کی پانچ اذانیں دیدے اور مسجد کا امام دن بھرکی پانچ نمازیں پڑھادے تاکہ ایک بار ہی چھٹی مل جائے ۔کیا ایسا کرنا صحیح ہے ، کیا یہ پانچ اذانیں اور پانچ نمازیں بیک وقت قبول کی جائیں گی ؟ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ فجر کے وقت میں پانچ اذان اور پانچ نمازمیں سے کتنی وقت کی نماز مانی جائے گی ؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ صرف ایک وقت کی نماز مانی جائے گی ۔ اسی طرح اﷲ تعالی نے بلاشبہ ہمیں طلاق کا اختیار دیا ہے مگر اس اختیار میں بھی اصول وپابندی ہے ۔ وہ پابندی یہ ہے کہ ایک وقت میں ہمارے اختیار میں ایک ہی طلاق ہے ،اگر کوئی ایک وقت میں دو یا تین طلاق دیتا ہے تو یہ واقع ہی نہیں ہوگی کیونکہ اس نے اپنے اختیار سے زائد استعمال کیا ہے ، مانا وہی جائے گا جتنا اختیار ملا ہے ۔

اس بات کو ایک اور ناحیہ سے پرکھتے ہیں ۔ ایک شوہر اپنی بیوی کو دس گولیاں مارتا ہے ، دوسرا شوہر اپنی بیوی کو دس طلاق دیتا ہے ؟ کیا دونوں کا اثر ایک ہی ہوگا یا الگ الگ ؟ اس کا جواب اوپر گزر چکا ہے ، ایک جواب مزید یہاں ملاحظہ فرمائیں ۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں تین طلاق تین ہوجاتی ہے اور اس کی مثال گولی سے دیتے ہیں ، ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ جس نے اپنی بیوی کو دس گولیاں ماری ہیں اس عورت پر دس گولیوں کا اثر ہوا ہے لیکن جس شوہر نے اپنی بیوی کو دس طلاقیں دی ہے کیا اس کی بیوی کو دس طلاق بھی ہوگئی ہیں ؟ میرے خیال سے جواب میں تلملانے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا ۔

اتنی باتوں سے طلاق ثلاثہ پہ گولی کی بات کرنے والوں کا جائز ہ سامنے آجاتا ہے ، اب جوعقلمند ہوگا وہ خالص دین اختیار کرے گا اورجو بے وقوفی کرے گا وہ عقل کی پوجا کرے گا اور اپنی عقل سے دین میں دخل اندازی کرکے خود بھی تباہ ہوگا اور دوسروں کو بھ ی تباہ کرے گا۔

معذرت کے ساتھ ، کوئی یہ نہ کہے کہ میں دین میں عقلیت کا انکار بھی کرتا ہوں اور طلاق ثلاثہ پہ عقل بھی لگاتا ہوں ۔ میں نے دین میں عقل نہیں لگایا ہے بلکہ جو لوگ دین میں عقل لگاتے ہیں ان کی عقلمندی کا عقلمندانہ جائزہ لیا ہے ۔ دوسری معذرت یہ ہے کہ میں نے کسی کے خلاف دشمنی میں یہ تحریر نہیں لکھی ہے بلکہ جو دین کا مذاق اڑاتے ہیں انہیں متنبہ کرنے اور دوسروں کو اس سے بچانے کے لئے لکھی ہے۔

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 320 Articles with 350669 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.