اپنا قیمتی وقت ضائع مت کیجئے

انگریزی کے زبان زد عام م محاورے کاترجمہ ہے کہ ـــ’’کہ آج کا کام کل پر مت چھوڑو اور جو آج کر سکتے ہوکر گزرو‘‘ جبکہ عربی کے مشہور محاورے ’’اگر کچھ بننا چاہتے ہو تو وقت کو کاٹو ،وگرنہ وقت تمہیں کاٹ دے گا ‘‘سے کون شناسا نہیں ہے ۔ بات بہت ہی سیدھی سادھی ہے کہ جس شخص نے دنیا میں نام ، عزت ، شہرت اور سکون حاصل کرنا ہے اسے بہر صورت وقت کی رفتار کو قابو کرنا ہے اور اس کی قیمت کا تعین کر کے اسے اپنے ساتھ چلانا ہے۔ مشاہدات میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ جن لوگوں نے وقت کی قدرو منزلت کو نہ پہچانا ، وقت کی آبرو پر سودہ بازی کی اور وقت کی نعمت کبری کو روندھ ڈالا وہ کبھی عزت، شہرت اور نام نہیں کما سکے اور نتیجتا معاشرے نے ایسے لوگوں کو بھلا دیا ۔معاشرے میں کام کرنے والے مختلف الخیال طبقات، پبلک و پرائیویٹ سیکٹرزاورعامی و خواص نے وقت کو کھلی ڈھیل دے رکھی ہے ۔ہر طرف وقت کیساتھ دشمنی کا ساماں ہے ۔ وقت کہتا ہے کہ مجھے قیمتی بناؤ لیکن ہر طبقہ اور مسلک صرف اور صرف ایک دوسرے کے خلاف بدزبانی ، بد اتفاقی ، بد کلامی اور دشمنی پر لگا ہے ۔مساجد ہوں یا مدارس ،فقہ، تدریس اور تشریحات کے نام پر ان مضامین کی اصل شروحات و نصائح کو چھوڑ کر نفرت اور مسلک کا بیج بویا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسے کے 5 سے 10 سالہ درس نظامی کے دورانیے میں مسالک کے پروان چڑھانے کی بو زیادہ آتی ہے اور مثبت سوچ ، محبت اور باہم تعاون کی فضاء کم نظر آتی ہے ۔ اے کاش کہ ہمارے مدارس والے وقت جیسی قیمتی چیز کا خیا ل رکھتے ہوئے لوگوں کو اچھا انسان بنانے کی کوشش کریں اور انہیں نام عزت اور شہرت دینے میں اپنا کردار اداکریں۔اسی طرح ہماری مساجد کے لاؤڈ اسپیکر سے بھی جمعہ کے خطبات میں مخالفتوں اور خود کو عظیم ثابت کرنے کے بجائے معاشرے کی اصلاح کا پہلو نظر آئے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔ نہ ہو جس کو خیال خود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مختلف کمپنیوں،فلاحی اداروں اور تعلیمی اداروں کا سروے کرنے کے بعد ایک بات بڑی کھل کر سامنے آئی ہے کہ لوگ اپنے کام پہ دھیا ن دینے سے زیادہ دوسروں کے کام میں روڑے اٹکانے، ان کے کام میں تانکنے جھانکنے اور ان کے کام کرنے کے اندازبارے تذکرے کرتے نظر آتے ہیں۔تقریباََہر آفس میں چاہے وہ سرکاری ہو یا پرائیوٹ ، سبھی لوگ اپنی ذمہ داریوں اور ٹارگٹس پر توجہ نہیں دیتے مگر انہیں آپ جب بھی دیکھیں وہ دوسروں پر نکتہ چینی کرتے نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ ایسے لوگ اس معاشرے کا کم از کم 60 فیصد ہیں جو کہ وقت غلط اور منفی سوچوں پر خرچ کرتے ہیں ، حالانکہ وقت قیمتی بنا لینے سے انہیں شہرت عزت اور نام سب کچھ مل سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ لوگ اپنا اصل مقصد حاصل کرنا بھول جاتے ہیں اور منفی ایجنڈوں، سازشوں اور غیبتوں میں مبتلا رہتے ہیں اس لیے نہ تو ان کا ادارہ ان سے خوش ہوتا ہے ،نہ ہی ان کے گھر کے افراد اور نہ ہی معاشرہ، بالاآخروقت کو منفی کاموں میں استعمال کرنے کی وجہ سے یہ لوگ اداروں سے اپنی عزت بھی کھو دیتے ہیں اور بیس سے تیس سال بعد بچھتاتے نظرآتے ہیں۔
بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے ذاتی کاروبار میں مطمئن نظر نہیں آتے کیوں وہ اپنا ذاتی کاروبار چلاتے ہیں اور نبی ﷺ کے اس عظیم قول ’’الکاسب حبیب اﷲ‘‘کی پاسداری بھی کرتے ہیں لیکن کیا ہے کہ ان کے کاروبار سے برکت اٹھ جاتی ہے ۔وہ اپنے کاروبارکو آگے بڑھانا بھی چاہتے ہیں مگر حقیقی معنوں میں یہ لوگ بھی وقت کیساتھ ڈھنگ ٹپاؤ کام کرتے ہیں اور اپنے قیمتی وقت کو دوسروں کی باتیں کرنے ، دوسرے کو ڈسکس کرنے اور دوسروں کی غیبتوں اور منفی خیالات میں گزار دیتے ہیں اور یوں یہ لوگ بھی ساری زندگی کسی بے سکونی کی کیفیت میں ہی پاتے جاتے ہیں۔یاد رکھیئے! اچھے لوگ شخصیات کو ڈسکس نہیں کرتے بلکہ ان کے کام کو ڈسکس کرتے ہیں ۔ اعلی ظرف لو گ تاریخ اور حقائق پر بات کرتے ہیں ، مسخ شدہ اور کمزور معلومات پر نہیں۔ آفاقی سوچ رکھنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ کیا کہہ رہا ہے؟

تزکیہ نفس کی کوشش کریں کہ اپنا قیمتی وقت ضائع ہونے سے کیسے بچایا جائیں ۔وقت کو قیمتی بنائیے، اسے کارآمد بنایئے اور واروں کے لیے مفید بنائیے ۔

وقت پر آفس جائیے اور آفس میں اپنے کام سے کام رکھیئے اور عزت وقار میں اضافہ پائیے۔ وقت پر اپنا کام ختم کریں ، کیوں لیٹ سیٹر ہمیشہ poor performance ظاہر کرتا ہے۔ مثبت سوچ کے ذریعے مثبت رویے اپنائیے اور وقت کو اثباتی سوچ سے تسخیر کیجئے۔ بقول شاعر
اگر اب بھی نہ سنبھلے ہم تو پھر اﷲ ہی حافظ ہے
کہ خود کردہ گناہوں کی سزا پانا ضروری ہے
یہی ہے وقت اپنی قوم کی قسمت بدلنے کا
یہ موقع کھو دیاہم تو بچھتا ناضروری ہے ۔
 

Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 112659 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.