احمد ایک پرائیوٹ سکول میں پڑھتا تھا۔ اس کے والد بڑی
محنت اور مشقت سے پیسہ کماتا تھا۔ وہ تو اعلی تعلیم حاصل نہ کر سکالیکن وہ
چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا اعلی تعلیم حاصل کرے اور کسی اعلی عہدے پر فائز ہو
جائے۔اس کے والد نے محنت مزدوری کرکے اپنے بیٹے کے لیئے ضرورت کی ہر چیز
میسر کی۔ اس کے سکول اور گھر کی تما م ضروریات پوری کرتا تھا۔ لیکن احمد کے
رویے سے اس نے اندازہ لگایا کہ وہ بڑوں کی عزت اس طر ح نہیں کرتا تھا جس
طرح اسے کرنا چاہیے تھی۔وہ بات بات پر جھوٹ بولتا تھا۔ پڑھائی سے جی چراتا
تھا۔ اس کے دوست احباب کی عادتیں بھی اتنی اچھی نہ تھیں۔بات بات پر ضد
کرنا۔ٖفضول وقت ضائع کرنا۔یہ سب کچھ اس کے باپ کے لیئے بہت تکلیف دہ بات
تھی۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ میں اپنے بچے کو تو اعلی تعلیم دلوا
رہا ہوں لیکن اس کی عادات ایسی کیوں ہو گئی ہیں۔ آخر ایسی کیا کمی ہے جو
میرے بچے کو ذمہ دار نہیں بنا رہی ہیں۔اس نے اس بارے میں بہت سوچا لیکن وہ
کیسی بھی فیصلے پر نہ پہنچ سکا۔ کچھ دنوں بعد اس کے بیٹے کے سکول میں
ماہانہ میٹنگ آگئی۔جس کو PTMبھی کہا جاتا ہے۔اس کے پاس کچھ وقت تھا اس لیے
وہ اپنے بیٹے کے سکول میں پہنچ گیا۔سکول میں اس کی ملاقات سکول ٹیچرز سے
ہوئی ۔ تقریباً تمام عملہ فی میل ٹیچرز پر مشتمل تھا اور اس دن وہ خوب بنی
سنوری تھیں۔ تمام ٹیچرز نے اس کے بیٹے کی تعریف کی اور بتا یا کہ اس کے
مارکس کی Percentageتما م مضامین میں نوے فیصد سے زائد ہے۔وہ کلاس میں ایک
مودب بچہ ہے۔تمام ہوم ورک گھر سے کر کے آتا ہے۔ سکول کے تما م ٹیسٹ
باقاعدگی سے دیتا ہے۔بہت قابل بچہ ہے۔ اتنی تعریفیں سن کر احمد کے باپ کے
دل میں جو بات تھی وہ ٹیچرز سے نہ کہ سکا۔ یہ اس نے ضرور سوچاکہ میں نے تو
احمد کو گھر میں کبھی پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا پھر یہ لوگ میری اتنی تعریفیں
کیوں کر رہے ہیں ؟۔وہ اس بارے میں سوچتا رہا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکال سکا۔
شام میں اس کی ملاقات ایک دوست سے ہوئی جو ایک ماہر ِ تعلیم بھی تھے۔ جب
سارا مسلہء ان سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ مجھے یہ بتا ئیں کہ اب
کتنے ذیادہ پرائیوٹ سکول کھل چکے ہیں؟ یہ تمام سکول ایک دوسرے سے مقابلہ
کرنے کے چکر میں اور طالب علموں کو اپنے پاس رکھنے کے لیئے آپ کو آپ کے بچے
کی اصل صورتحال سے کبھی آگاہ نہیں کریں گے۔یہ ہمیشہ آپ کو اندھیرے میں
رکھیں گے۔ آپ کے بچے کو ہر سال ٹاپ ٹین میں لے آئیں گے اور اس کو شیلڈ اور
سرٹیفیکیٹ ضرور دیں گے۔ ہمارے دور میں تو صرف تین طالب علم اول،دوئم اور
سوئم ہوتے تھے ۔اب تو کلاس کے تمام بچے ہی اول ،دوئم یا سوئم ہوتے ہیں۔اول
آنے والے طلبا ء کی تعداد دس سے کم نہیں ہوتی۔ اگر کلاس میں طلباء کی تعداد
ذیادہ ہے تو اول پوزیشن کی تعداد دس سے ذیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ کوئی بچہ
ایسا نہیں ہوتا جس کو کوئی نہ کوئی انعام نہ ملا ہو۔بچے کی تعلیمی حالت
کاکیا خاک پتہ چلے گا جب پڑھانا بھی اسی ٹیچر نے ہے۔ پیپر بھی اسی نے لینے
ہیں۔ چیک بھی اسی نے کرنے ہیں اور پوزیشن بھی اسی نے دینی ہے۔ ان سکولوں
میں اخلاقیات کا ویسے ہی جنازہ نکل چکاہے۔ تربیت کی کمی کی وجہ سے بچے باپ
کو کچھ نہیں سمجھتے ۔ منزل نہ ہونے کی وجہ سے بچوں میں محنت کرنے کا کوئی
جذبہ نہیں ہوتا ۔ بچے صرف اور صرف وقت گزارتے ہیں۔ ٹیچرز کو درسی کتابوں
میں سے جو کچھ آتا ہے وہ پڑھا کر باقی سب چھڑوا دیتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے
تو پاکستا ن میں سمیسٹر سسٹم تو نرسری کلاس سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔اور سب
سے بڑا ستم یہ ہے کہ ان سکولوں میں چھٹی کے بعد ٹیوشن بھی پڑھا ئی جاتی ہے
جس کے عوض بھی لاکھوں روپے والدین کی جیبوں سے نکلوائے جاتے ہیں۔والدین بھی
تما م تر ذمہ داری سکول پر چھوڑ کر آزاد ہو جاتے ہیں اور بچوں کی طرف کوئی
توجہ نہیں دیتے ۔اگر پوچھا جائے تو کہتے ہیں جناب ہم کیا کر سکتے ہیں ؟
اتنے اچھے سکول میں داخل کروا ہوا ہے۔اتنی ذیادہ فیس دے رہے ہیں تو بچہ تو
کامیاب ہو ہی جائے گا۔
|