آج امت کے سربستہ رازو ں کی تحقیق و جستجو کی اہمیت
بڑھ گئی ہے۔ امت مسلمہ کو اپنے دین فطرت کے نظریاتی پہلوؤں کے تحفظ کی ضرور
ت ہے۔وہ دین جس کی چمک دمک سے قدیم زمانوں کی قوموں نے فکری گمراہی سے نجات
پائی تھی۔ایک وقت تھا کہ سائنس ، ٹیکنا لوجی اور عصر حاضر کے علوم و فنون ،علم
و حکمت میں مسلمانوں نے پوری دنیا میں ہلچل مچا رکھی تھی ۔اسلام کی فکر
انگیز تعلیمات سے مسلم شخصیات نے کائنات کو مسخر کیا، اور بیسویں صدی کی
ابتدا تک دنیا کوہر لحاظ سے اپنی گرفت میں لیے رکھا ۔برس ہا برس کا یہ ثمرہ
امت مسلمہ کی مسلسل جد جہد اور نظر وفکر کا نتیجہ تھا۔کئی تہذیبوں پر پیہم
محنت اور فکری تعمیر و تطہیر کے بعد اسلامی معاشرہ وجود میں آیا تھا۔آج جب
ہم امت مسلمہ کے تمام شعبہائے حیات پر نظر ڈالتے ہیں اورامت کی کارکردگی کا
جائزہ لیتے ہیں ،مسلمانوں کا موازنہ ترقی یافتہ قوموں سے کرتے ہیں تو حوصلہ
شکن تصویر سامنے آتی ہے۔اس تصویر میں دل دہلا دینے والے مناظر ہیں ۔اس میں
دنیا کے مختلف ملکوں میں مسلمانوں کا قتل عام دکھائی دیتا ہے۔غیر مسلم
اقوام کا امت مسلمہ پر ہر سوبربریت کا بھیانک منظر ہے۔کشمیر کی تحریک آزادی
میں مسلمانوں کے حصول حق خودارادیت کی محنت کی سیاہ راتیں ہیں۔امت مسلمہ کی
نوجوان نسل کی فکری ،نظریاتی جڑیں کھوکھلی کردی گئی ہیں۔اقوام متحدہ کی
قرار دادوں کے غیر مؤثرکاغذی ٹکڑے ہیں۔اس تصویر میں اکیسویں صدی کی مظلوم
ترین قوم کا چہر ہ ہے ۔یہ مسلمانوں کی بے بسی، اذیت ناک، انسانیت سوز مظالم
کارخ ہے۔انبیاء علیہ السلام کی سرزمین ،کوچہ وبازار مسلمانوں کے لہو سے
رنگین ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ انسانی تاریخ کے شرمناک مظالم کا ارتکاب کیا
جا رہا ہے۔افغانستان ،کشمیر ،فلسطین ،شام ،یمن ،عراق، برما میں انسانی حقوق
کی قراردادوں کو مجروح کیا جارہاہے۔عالمی ادارے اپنی امتیازی حیثیت اور خود
سے وابستہ توقعات پر پورے نہیں اترتے ۔نام نہاد مہذب دنیا امت مسلمہ پر
ہونے والی آتش آہن کی بارش دیکھ کر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔اس صور ت
حال کا افسوس ناک پہلو امت مسلمہ کا ان مسائل و مصائب پر ہم آواز نہ ہونا
ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کے بہت سے معاملات ایسے ہیں جو گزشتہ ڈیڑھ صدی سے حل
طلب ہیں ۔اورامت مسلمہ کے یہ مسائل، معاملات اس عرصہ میں درست ہونے کی
بجائے دگرگوں شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اکثر
مسلم ممالک کی نمائندگی اور رکنیت کے باوجود کسی نے بھی مسلمانوں کے مسائل
پرسنجیدگی سے زوردار آواز اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔نتیجتاََ یہ مسائل بڑھتے
گئے اور ایک لمبی فہرست بنتی چلی گئی۔عالم اسلام کے اسی رویئے اور اجتماعی
غیر مناسب روش کی وجہ سے آج امت مسلمہ کے کئی اہم ترین علاقوں میں قتل
وقتال کا بازار گرم ہے اور اس آگ نے کئی اسلامی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے
رکھا ہے۔لگ بھگ ڈیڑھ ارب مسلمانوں اور ساٹھ کے قریب مسلم ملکوں کے اتحاد
اور یکجہتی کے نشان نظر نہیں آتے اور امت اسلامیہ کرب و اضطراب سے تلملا
رہی ہے۔اب جب کہ دنیا سمٹ کر گلوبائزیشن ہو چکی ہے اس سے مغرب کو اپنی فکری
و ثقافتی یلغار سے مسلمانوں کو تباہ کرنے میں آسانی ہو گئی ہے۔مغرب نے
مسلمانوں کو بے راہ روی کی طرف دھکیل کر دین اسلام کے خلاف سازشوں کا ایک
طوفان برپا کیاہے ،جس نے عالم اسلام کو تہس نہس کرکے رکھ دیاہے اور اس
طوفان کی لپیٹوں کی وجہ سے مسلمانوں کا تشخص عالمی و بین الاقوامی نظام سے
دھندلا کر رہ گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں میں اسلامی تہذیب کا فقدا
ن نظر آتا ہے۔مسلمان نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ۔اسلامی حکومتیں ،اسلامی
نظام کے نفاذ کے لیے کام کرنے کو تیار نہیں ۔عملاََ قرآن و سنت کی تعلیمات
کے ذرائع کمزورکیے جارہے ہیں ۔اسلامی احکام و قوانین کی خوبیاں ،قرآن و سنت
کے نظام کے حسن کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا تو دور مسلمان اپنے حسین اسلامی
معاشروں کابھی حلیہ بگاڑ چکے ہیں۔آج سب سے بڑا مسئلہ اسلامی تعلیمات کے
خلاف بین الاقوامی محاذ آرائی ہے۔مسلمانوں کے دین اور ثقافت کا ہر جگہ مذاق
اڑایا جاتا ہے۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی توہین مغرب کے
لیے ایک پسندیدہ کھیل بن گیا ہے۔جب ان کا دل چاہتا ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کی مبارک ذات پر حملہ کردیتے ہیں۔اور یہی نہیں مغرب مسلمانوں پر بزور طاقت
مغربی فلسفہ و تہذیب کو مسلط کررہا ہے۔
کشمیر ،فلسطین ، اراکان ، افغانستان ، اور دیگر مظلوم خطوں میں مسلمانوں کو
بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔اور اس پر بس نہیں اس جرم کی ہر
پلیٹ فارم پر غیر مسلم اقوام مسلمانوں کے خلاف سر عام عملی منافقت کرتے
ہیں۔المیہ یہ ہے کہ اس شرمناک سازش میں مسلم حکومتیں دیدہ و دانستہ مغرب کی
کاسہ لیسی میں شریک ہیں اور ملت اسلامیہ کے اجتماعی جذبات سے کھلواڑ کرتی
ہیں۔جس کی وجہ مسلمانوں کی خود مختاری ،ملی یکجہتی کا جنازہ اٹھتاجارہا
ہے۔مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ مغرب کے پاس انسانیت کی فلاح و نجات کا کوئی
قانون نہیں ہے۔اور نہ ہی اس کے پاس اسلام سے بہتر کوئی مذہب ہے جس میں مہد
سے لحد تک کے جملہ مسائل کا شافی حل موجودہو۔مسلمانوں کو دیکھنا ہوگا کہ آج
وہ کہاں کھڑے ہیں؟مسلمانوں کے کچھ اور مسائل بھی ہیں ۔مسلمان علم کے تمنائی
ہونے کے باوجودمسلمانوں کی تہذیب کنواری ماؤں کا بوجھ برداشت نہیں کر
سکتی۔سائنس کا شیدائی ہونے کے باوجود مسلمان نامعلوم باپوں والے بچوں کی
یلغار کا متحمل نہیں ہو سکتے۔مسلمان برہنگی اور جنسی بے راہ روی کو اپنی
منزل نہیں بنا سکتے ۔زمانے بھر کے علوم پر دسترس حاصل کرنے کے باوجود اپنے
جذبوں ،اپنے احساسات ،اپنے ضمیر ،اپنے یقین ،اپنے ایمان ،اپنے نظریے اور
اپنی تاریخ سے دست کش نہیں ہو سکتے۔مسلمان محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کے
اس فرمان کو پس پشت نہیں ڈال سکتے کہ’’ جنت تلواروں کی چھاؤں تلے
ہے‘‘۔سائنس و ٹیکنا لوجی کے باوجود مسلمان بد روحنین کو بند کمروں میں نہیں
رکھ سکتے۔خلافت اسلامیہ کا قیام وقت کی ضرورت اور امت کے مسائل کا حل
ہے۔اورامت مسلمہ اس شرعی فریضہ کی تارک و گناہگار ہے۔آج کا عالمی منظر نامہ
حاملین اسلام کے لیے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں دی جانے
والی آزمائشوں سے کچھ کم نہیں۔مسلمان دنیا کی دوسری بڑی افرادی قوت ہونے
باوجود عز ت ووقار کی زندگی نہیں گزاررہے۔اور دنیا بھر کے طعنوں کا نشانہ
بنے ہوئے ہیں۔
امت مسلمہ کے ان گنت مسائل کے حل کے لیے اور خود کواسلامی ریاست کہلوانے
والے ممالک اپنی داخلہ و خارجہ پالیسیوں کا جائزہ لینا ہوگاکہ وہ ضمن میں
اﷲ تعالی ٰ کے حکم و ہدایات کی کون سی حددو کراس کررہے ہیں۔ساتھ یہ بھی
ماننا ہوگا کہ قرآن وسنت پر عمل کرکے ہی امت مسلمہ تحت الثریٰ سے نکل کر
اوج ثریا حاصل کرسکتی ہے۔ایمان ویقین کے ساتھ اپنے اندرونی وبیرونی بے شمار
چیلنجز کا تدارک اسلام کے بیان کیے گئے احکامات میں تلاشنا ہوگا ۔قرآن وسنت
کو ہی ہدایات کاسرچشمہ مانناہوگا۔تب ہی یہ امت جو کئی ٹکڑوں ،گروپوں میں
بٹی ہوئی ہے یکجا ہوپائے گی۔مسلمانوں میں مذہبی روداری کو فروغ دینا
ہوگا۔آج امت مسلمہ کو اپنے تمام تر معاملات میں اﷲ تعالیٰ اور نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم کے احکام کو معیار بنانا ہوگا۔کیوں کہ امت مسلمہ جس اضطراری
حالت سے گزررہی ،اس ماحول میں اتحاد بین المسلمین کی اشدضرورت ہے۔اِسے جذبہ
انصار و مہاجرین کی بے انتہا ہوائیں چاہئیں۔صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے کہ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’مؤمن ہر دوسرے مؤمن کے لیے ایک
دیوار کی طرح ہوتا ہے‘‘۔(صحیح مسلم 2-32 )ایک اور حدیث میں فرمایا ’’
مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘(مشکوٰۃ المصابیح)
اسلامی ملکوں میں اکثریت ایسے ممالک کی ہے جو اقتصادی ،معاشی طور پر مستحکم
ہی نہیں،بلکہ وہ اتنی اہلیت بھی نہیں رکھتے ہیں کہ وہ مسلم امہ کی آخری
سانسوں کو آکسیجن فراہم کر سکیں۔یہ دولت مندممالک اپنی دولت کو ترجیحی
بنیادوں پر ضرورت مند مسلم ملکوں تک پہنچائیں تاکہ نسبتاََ غریب مسلم ممالک
اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں اور عالمی اداروں کے آگے کشکول پھیلانے سے بچ
سکیں۔یہی مدد کا بہترین راستہ ہے۔کیوں کہ فقر کفرتک لے جاتا ہے۔لہذا اس
صورت میں امیر مسلم ملکوں کو غریب ملکوں کے سرپر بڑے بھائی جیسا شفقت والا
ہاتھ رکھنا چاہیے اور ان کی سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ یہ ممالک اقتصادی
،معاشی بحران میں نہ آئیں اور یہ بھی دین اسلام میں تعاون ،مدد کی کامیاب
مثال ہے۔
امت مسلمہ کو اپنی پسماندگی دور کرنے کے لیے اپنے اندر موجود تعلیمی وسائل
کو اجاگر کرنا ہوگااور تعلیم و تعلم کی درس گاہوں میں ایمرجنسی نافذ کرنی
ہوگی۔جب سے مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات کو صرف رسمی تعلیم اور فنون لطیفہ
کو مستقل تعلیم کی شکل دی ہے خرافات نے ہر طرف سے انہیں گھیر لیاہے۔تحقیق و
جستجو کی اس قدر کمی ہے کہ مسلمان کئی سال پیچھے ہیں اور دنیا ان کومحتاج
قوم سمجھتی ہے۔تمام قدرتی ،زمینی و سماوی آفات کے نازل ہونے کے بعد کی صورت
میں مسلمان متاثرین آفات کی دادرسی کرنے کے لیے مناسب انتظام و انصرام نہیں
کر پاتے اور ان کی نظریں مغرب کی طرف اٹھ رہی ہوتی ہیں کہ وہ ان کا ہاتھ
تھامے۔مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کے مغرب کی یہ نیکی بھی بلاغرض نہیں ہوتی۔ان
کی مدد مفاد سے مشروط ہوتی ہے۔جب کہ انسانی ہمدردی کے زریں اصول ہمارے دین
میں پنہاہیں ۔علم وتحقیق مسلمانوں سے عنقا ہوچکی ہے۔اس کے برعکس لاریب کتاب
کا نزول ’’اقراء‘‘ سے ہوتا ہے۔حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا’’ہر مسلمان مرد عورت پربنیادی علم حاصل کرنا فرض ہے‘‘۔(مسند امام
اعظم ؒ ) جب تک مسلمان قرآن وسنت کے عِلم کا عَلم بلند نہیں کرتے پسماندگی
کی عفریت سے نکلنا مشکل ہی نہیں بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔امت مسلمہ کو اس
علمی مقاصدکے لیے جدید سائنسی ،ٹیکنا لوجی میں انقلاب برپا کرنا ہوگا۔
امت مسلمہ کے سیاسی عروج کا سورج طلوع ہوتا نظر نہیں آرہا۔یہی وجہ ہے کہ آج
عالمی سیاست میں یہود وہنود حاکم اور مسلمان محکوم و مغلوب ہیں۔مسلمانوں کو
اپنے روشن ماضی سے ہدایت حاصل کرنا ہوگی کہ کیسے مسلم سلاطین نے عالم دنیا
کے ہر میدان میں اپنے اثرات چھوڑے۔اور ان کے نقش قدم پہ چل کر مسلمانوں کو
سیاسی غلبہ حاصل کرنا ہوگا تاکہ امت مسلمہ کے تمام مسائل بحسن وخوبی حل کیے
جاسکیں۔ اس کے لیے اسلام کی حاکمیت قائم کرنا ہوگی۔دنیا میں کئی اسلامی
تنظیمیں مسلمانوں کے لیے کام کررہی ہیں جن میں OIC کا نام نمایاں ہے۔لیکن
لگتا ایسا ہے کہ مسلمانوں کی دم توڑتی امیدوں پر یہ تنظیمیں عرق باشی کا
نہیں ،نمک باشی کا کام کررہی ہیں۔امت مسلمہ کو کوئی خوشی کی نوید سنانا ان
کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ان کے مالی ،سیاسی ،ثقافتی ،علمی
،سائنسی ہر محاظ پر نادیدہ قوتوں کا قبضہ ہے۔اگریہ مسلمانوں کے حق میں کام
کررہی ہیں تو ان کے نتائج سامنے آنے چاہئیں۔مسلمانوں کو ذہن نشین کرنا ہوگا
کہ تہذیبوں کے اس تصادم کے دور میں بقائے امت کی جنگ لڑنا امت کا اہم فریضہ
ہے۔کامل یقین رکھنا ہوگا کہ اگر قرآن کے فیصلے کے م’’ تو تم ہمت نہ ہارو
اور دشمن کو صلح کی ط رف نہ بلاؤ اور تم تو غالب ہو اﷲ تمہارے ساتھ وہ ہر
گز تمہارے اعمال کو کم یا گم نہیں کرے گا ‘‘(سورۃ محمد 35 ) پر عمل کیا تو
سرخرائی مسلمانوں کا مقدر ہوگی۔کیوں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ان کافروں
کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے ہتھیار سے اور چلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست
رکھواور اس کے ذریعے سے تم اپنا رعب جمائے رکھو ان پر جوکہ(کفر کی وجہ
سے)اﷲ کے دشمن ہیں ‘‘۔(سورۃ الانفال60 )
امت مسلمہ اس وقت انتہائی سخت اور نقصان دہ فتنوں کا سامناکررہی ہے۔ان میں
ٹھاٹھیں مارتی صعوبتیں اور طوفانوں جیسی مصیبتیں ہیں۔ان مصیبتوں کو ناقابل
تسخیر مشن سے ختم کرنا ہوگا۔اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’بے شک اﷲ اس وقت کسی
قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں‘‘۔(الرعد4 )
اجتماعی گناہ و نافرمانی تمام قوم کے لیے مصیبت و تکلیف کا اور سزاؤں کا
باعث بنتی ہیں۔اس کے برعکس اطاعت و توبہ کرنے سے اﷲ کی نعمتیں میسر آتی
ہیں:’’جو انہیں بھوک میں کھیلاتا ہے اور دہشت میں امن دیتا ہے‘‘۔(القریش4
)یہ دور عاجزی وانکساری کا دور ہے۔مسلمان سوائے اﷲ رب العالمین کی مدد
ونصرت کے58 اسلامی ممالک ملکر بھی دیدہ و نادیدہ سازشوں کامقابلہ نہیں
کرسکتے۔کیوں کہ مسلمان جب اﷲ کی مدد ونصرت کے حصار سے نکل جائیں گے تو
مکاروں کی مکاریاں اور عیاروں کی عیاریاں انہیں گھیر لیں گیں۔امت مسلمہ کا
توحید وسنت پر اتحادکرنے کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کے لیے
لائحہ عمل طے کریں۔یہ امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داریوں میں سے اہم ترین ذمہ
داری ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ تمام حربی ودفاعی معاملات میں
سالار بنے۔عالمی طاقتوں کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے دہرے
معیارات کا قلع قمع تب ہی ممکن ہے جب مسلمان اپنے اندر معاملات عدل وانصاف
،سیادت اور انسانی بھائی چارے کے ذریعے مواخات قائم کریں گے۔امت کی اس نوید
امید پر سید جمیل بخاری کے اشعار
بھلا دے غموں کو تو مسرور ہوجا
خدا کی طرف سے تو منصور ہوجا
صبح شام سنت پہ ترا عمل ہو
تو دن رات سنت سے پرنور ہوجا |