تحریر: محمد اویس سکندر
دور حاضر کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور کہا جارہا ہے۔ دنیا میں حقیقی ترقی
سائنس اور ٹیکنالوجی میں جدت کی بدولت آئی ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کوئی
بھی قوم اس شعبہ میں ترقی کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ آپ دنیا
کے جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک دیکھ لیں انھوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے
شعبے میں محنت کر کے ہی اپنا مقام حاصل کیا ہے۔ ہمارے سامنے دنیا کے تمام
ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں موجود ہیں جیسے تمام یورپی ممالک، امریکہ، چین
اورجاپان نے اسی شعبے میں محنت کر کے ہی اپنا مقام حاصل کیا ہے بلکہ جاپان
کی مثال تو آپ کے سامنے ہے کہ کیسے امریکہ نے ناگاساکی اور ہیروشیما پر
ایٹمی حملہ کر کے جاپان کو تباہ کیا تھا ۔اس کا جواب جاپان نے مختصر عرصے
میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں محنت کر کے دنیا کو بتایا ہے کہ
ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہم سے زیادہ کسی اور نے ترقی نہیں کی۔ آپ اپنے ملک
ہی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم نے ایٹمی طاقت اسی شعبے میں محنت کر کے
حاصل کی ہے جس کی وجہ سے آج ہمارے ملک کی طرف کوئی بھی دشمن میلی آنکھ سے
دیکھنے کی کوشش نہیں کر رہااور اس ایٹمی طاقت کو حاصل کرنے کے بعد ہم
انجینئرنگ کے شعبے کو بھول چکے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق ہم سالانہ دس سے بارہ ہزار انجینئرز پیدا کر رہے ہیں جن
میں سے صرف گنے چنے لوگ ہی نوکری حاصل کر سکے ہیں اور زیادہ تر انجینئرز کو
تعلیم کے شعبے میں نوکریاں دے دی گئیں جو ان کی شان کے خلاف ہے۔ تعلیم کے
شعبے میں بھی وہ لوگ صرف سکیل چودہ یا پندرہ میں کام کرہے ہیں ۔ سوچنے کی
بات یہ ہے کسی بھی ملک میں ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے ہر معاشرہ اپنی
نسل کے قابل ترین افراد کو سائنس کی تعلیم کے لیے منتخب کرتا ہے اور پھر ان
ذہین ترین افراد کو مختلف امتحانات سے گزار کر یونیورسٹیوں میں بھیجا جاتا
ہے۔ جہاں تعلیم کا معیار ایچ ای سی اور پی ای سی کے اصولوں کے مطابق ہے۔ ان
اداروں کا الحاق ہر سال ان کی کارکردگی سے مطمئن ہو کر دوبارہ تجدید کر دیا
جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء سو
فیصد معیاری تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ طلباء وقت کے ذہین ترین افراد ہوتے
ہیں جو اپنی تعلیم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ وہ اپنی معاشی ضروریات بھی پوری
کر لیں اور ان کاذہن ملک کے کام بھی آسکے مگر چند دنوں میں انھیں اس بات کا
احساس ہوجاتا ہے کہ کسی بھی ادارے کو ان کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ ہم جتنے انجینئرز سالانہ پیدا کرتے ہیں اتنی
ان کی نوکری کے لیے سیٹیں پیدا نہیں کرتے اور پرائیویٹ سیکٹر میں انجینئرز
سے جو سلوک کیا جاتا ہے وہ قابل رحم ہے۔ میرے خیال مین جتنا برا حال
انجینئرز کا ہے شایدہی کسی اور شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا ہو۔ یہی
وجہ ہے کہ وہ قابل ترین افراد دوسرے اداروں میں کم تنخوا پر کام کرنے کے
لیے راضی ہوجاتے ہیں۔ دو ہزار پندرہ میں حکومت کی ایجوکیشن پالیسی کے تحت
انجینئرز کو گریڈ نو اور چودہ میں کام کرنے کی اجازت ملی تو ہزاروں افراد
اس شعبے سے منسلک ہوگئے جہاں ان کی ٹیکنیکل مہارت بالکل ضائع ہوگئی اور
معاشی عدم اطمنان پھر بھی برقرار رہا کیونکہ انجینئرنگ ایجوکیشن حاصل کرنے
والے افراد گریڈ سولہ حاصل نہیں کر سکے۔
انجینئرز کو سکیل سولہ حاصل کرنے کے لیے انجینئرنگ کے بعد سکول سبجیکٹ میں
ایم اے یا ایم ایس سی کرنی پڑے گی۔حالانکہ پی ای سی کے رولز کے مطابق
متعلقہ سیکٹر میں انجینئرز کا کم از کم سکیل سترہ ہوتا ہے۔ انھیں بنیادی
تنخواہ کا پچاس فیصد آلاؤنس بھی دیا جاتا ہے بلکہ کے پی کے میں تو انجینئرز
کو بنیادی تنخواہ پر ایک سو پچاس فیصد آلاؤنس دیا جارہا ہے مگر پنجاب میں
تو اسی صورتحال کے پیش نظر شعبہ انجینئرنگ سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد
خودکشی کر چکے ہیں۔اسی طرح کا ایک واقعہ راولپنڈی میں پیش آچکا ہے جہاں
نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری
حاصل کرنے والا چوبیس سالہ نوجوا ن اعزاز علی نوکری نہ ملنے کی وجہ سے
خودکشی کرچکا ہے۔ ہمیں مستقبل میں ایک حالات سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے
کی ضرورت ہے۔
میری وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وفاقی
وزیر تعلیم شفقت محمود اور صوبائی وزیر تعلیم مرادراس سے درخواست ہے کہ قوم
کے ان ذہین ترین افراد کو معاشی بدحالی کی بدولت اس طرح ضائع ہونے سے بچایا
جائے تاکہ یہ مفید شعبہ بدحالی سے بچ جائے ۔اس کے لیے یا تو انجینئرنگ کی
تعلیم حاصل کرنے پر کم از کم دس سال کی پابندی لگادی جائے تاکہ لوگ اسے
چھوڑ کر ایسی تعلیم حاصل کر سکیں جس سے وہ بعد میں اپنی معاشی ضروریات پوری
کرسکیں اور اس پابندی کے عرصے میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے افراد
کوان کے شعبے کے مطابق نوکریاں دی جائیں اور جو انجینئرز تعلیم کے شعبے میں
کام کر رہے ہیں ان کے متعلقہ شعبے میں ٹرانسفر کر دیا جائے اور انہیں ان کی
اہلیت کے مطابق سکیل اور آلاؤنسز دیے جائیں تاکہ ہ لوگ نہ خودکشی کریں اور
نہ ہی ایسی معاشی بدحالی کا شکار ہوں اس لیے ان لوگوں کا اپنے متعلقہ
سیکٹرز میں کام کرنا بہت ضروری ہے تاکہ یہ لوگ اپنی مہارت سے اپنے ملک کی
خدمت کریں اور اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کر سکیں۔
|