قرآن کریم : پارہ27 (قَالَ فَمَا خَْطبُکُم ) خلاصہ

ٓقَالَ فَمَا خَطبُکُم ‘قرآن کریم کاستائیسواں (27) پارہ ہے ۔ قَالَ فَمَا خَطبُکُمکا مطلب ہے ’’ اچھا تو کیا مہم در پیش ہے تمہیں ‘‘ اس پارہ میں سات سورتیں ہیں بشمول سُوْرۃُ الذّٰرِیٰت کے جس کی آخری 30آیات پارہ ستائیس میں شامل ہیں ، دیگر آیات میں سُوْرۃٓ الطّٰوْر ، سُوْرۃُ النّٰجْمِ، سُوْرۃُ الْقَمَر، سُوْرۃُ الرّٰحْمٰنِ ،سُوْرَۃُ الوَقِعَۃِ سُوْرَۃُ الْحَدِ یدِشامل ہیں ۔

سُوْرۃُ الذّٰرِیٰتِ (آخری 30آیات)

سُوْرۃُ الذّٰرِیٰتِکی کل60آیات ہیں ، ابتدا ئی 30آیات کا خلاصہ سابقہ پارہ میں آچکا ہے ،آخری30آیات کا خلاصہ یہاں بیان ہوگا ۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے جس میں فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے ، وہ انہیں انسان سمجھے اور مہمان نوازی کرتے ہوئے ایک موٹا تازہ بچھڑا بھون کر لے آئے،وہ فرشتوں سے کھانے کے لیے کہتے ہیں ، فرشتوں نے کہا ابرہیم علیہ السلام سے خوف نہ کریں ،فرشتوں نے پھر انہیں ذی علم بیٹے کی بشارت دی، ابراہیم علیہ السلام کی بیوی نے فرشتوں سے کہا کہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور بانجھ بھی ، اولاد کیسے ہوگی;238; جس پر فرشتوں نے کہا کہ تیرے رب نے اسی طرح کہاہے، بلاشبہ وہ بڑی حکمت والا ، خوب جاننے والا ہے ۔ پارہ 27کی ابتدائی آیات میں ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا، اچھا تو کیا مہم در پیش ہے تمہیں اے اللہ کے فرشتو;238;یعنی و ہ سمجھ گئے یہ عام انسان نہیں بلکہ انسانی روپ میں فرشتے ہیں ، فرشتوں نے کہا کہ دراصل انہیں ایک ’مجرم قوم‘یعنی قوم لوط کی طرف بھیجا گیا ہے ، اس زمانے میں قوم لوط کے جرائم حد سے بڑھ چکے تھے، اللہ نے ان پر عذاب کا فیصلہ کر لیا تھا، یہی بات فرشتوں نے کہیں کہ ہم نے اس قوم کو پتھروں کی بارش سے ہلاک کرنا ہے، اللہ نے فرمایا کہ پھر ’’ہم نے اس بستی سے نیک لوگوں کو نکلا لیا ، وہاں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر تھا، پھر وہاں عذاب نازل ہوا اور قوم لوط جسے بد کار قوم کہا گیا اپنے انجام کو پہنچی ۔

پھر آیت28 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام قصے ہے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو معجزات کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا ،وہ فرعون اپنے جہا ں و جلال کے بل بوتے پر اکڑ گیا اور کہا ’یہ جادو گر ہے یا مجنوں ہے‘، اللہ کہتا ہے کہ آخر کار ہم نے اس کے لشکر کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اوروہ ملامت زدہ ہوکر رہ گیا ۔ فرعون اپنے زمانے کا طاقت ور ترین شخص تھا، وہ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے مرکز ِتہذیب و تمدن کا عظیم فرمانرواتھا ، اسے اپنی شان و شوکت پر گھمنڈتھا، آس پاس میں رہنے والی قوموں نے اس طاقت ور کا جب یہ انجام دیکھا ہوگا تو صرف مصر ہی نہیں بلکہ بڑے خطے میں اس کا چرچہ ، اس کی تباہی کی باز گشت سنائی دی گئی ہوگی ۔ اللہ نے فرعون اور اس کے ساتھ دیگر کو بلاوجہ ہی سمندر برد نہیں کیا بلکہ اس کا ظلم سر چھڑکا بولنے لگا تھا، اس لیے اسے عبرت ناک انجام تک پہچانا ہی تھا، اس پر کسی نے افسوس نہیں کیا بلکہ اللہ کا شکر ادا کیا کہ پھر عاد قوم کا ذکر ہوا، انہیں طوفانی ہوا گرم و خشک، شدید آندھی نے لوط قوم کو اٹھا اٹھا کر پٹخ دیا اور وہلاک ہوگئی،اس کے بعد آیت40 میں ثمود قوم کا ذکر ہے، انہیں کہا گیا کہ برائی سے کنارہ کشی کرلولیکن قوم لوط نے ایک نہ سنی اپنی ڈگر پر قائم رہے آخر ان کا انجام بھی تباہی ہوا، پھر فرمایا اللہ نے ان سب سے پہلے ہم نے نوح علیہ السلام کی قوم کوہلاک کیا ، اس لیے کہ وہ فاسق ہوگئے تھے ۔ پھر زمین و آسمان بنانے کی بات کی ، ہر چیز کے جوڑے بنائے، ان کا مقصد ی یہ تھا کہ انسان نصیحت پکڑ لے ،سبق حاصل کر لے، ۔ شرک کرنے والوں کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ پھر اللہ نے کہا ، اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کے ساتھ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا ہے ، سابقہ قو میں اپنے دور کے انبیاء کو بھی جادو گر یا مجنوں کہتی رہی ہیں ، یہ سب سرکش لوگ ہیں ،فرمایا اللہ پاک نے رسول ﷺ سے کہ آپ ملال نہ کریں ، بس اپنی نصیحت کا عمل جاری رکھیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کہا آیت57 میں کہ ’ میں نے جِن اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی کریں ،اللہ ان سب سے کچھ نہیں چاہتا، وہ بڑی قوت والا ، ظالموں کے لیے عذاب ، کفر کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

سُوْرۃٓ الطّٰوْر

سُوْرۃٓ الطّٰوْر مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے باونوی(52)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے76ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 2رکو ،49آیات ہیں ۔ اس میں آخرت کے حقائق ، قریش کے رویے پر تنقیداور دیگر موضوع ہیں ۔

سورہ کا آغاز ’طور‘ یعنی کوہ طور کی قسم سے ہوا ہے،پھر کہا ’’اور ایک ایسی کھلی کتاب کی جو رقیق جِلد میں لکھی ہوئی ہے، بیتِ معمور کی قسم، اور موجزن سمندر کی، کہ تیرے رب کا عذاب ضرور نافذ ہوگا‘‘ ۔ پانچ چیزوں کی قسم کھائی کہ عذاب ضرور ہوگا،طور وہ پہاڑ جہاں اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوا، اسے طور سینا بھی کہتے ہیں ، قرآن مجید جو لوح محفوظ ، بیتِ معمور ساتویں آسمان پر عبادت گاہ، جہاں فرشتے عبادت کرتے ہیں ، بپھرا ہوا سمندرجو زمین کے لیے چھت ہے، اسے محفوظ چھت بھی کہا گیا ۔ ان نشانیوں سے مراد یہ ہے کہ یہ اللہ کی عظیم قدرت کا مظہر ہیں ۔ قیامت کی نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے ،نافرمانوں کو دھکے دے کر دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا ، یہ سب ا ن کے اعمال کے نتیجے میں ہوگا، اس کے برعکس متقین جنت میں اللہ کی نعمتوں سے مستفید ہوں گے ۔ وہ جنت میں مزے کریں گے، حوروں کا ذکر ہے،آیت 21 میں کہا گیا کہ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ، تو ہم ان کی اولاد کو جنت میں ان سے ملادیں گے ۔ اور ہم ان کے عمل سے کچھ بھی کم نہیں کریں گے‘‘ ۔ اس کی وضاحت مفسرین نے یہ کی ہے کہ جن کے والدین اپنے اخلاق و تقویٰ اور عمل و کردار کی بنیاد رپر جنت میں کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کی ایماندار اولاد کے بھی درجے بلند کر کے ان کو ان کے باپوں کے ساتھ ملا دے گا ، یہ نہیں کرے گا کہ ان کے باپوں کے درجے کم کرکے ان کی اولاد والے کمتر درجوں انہیں لے آئے ، یعنی اہل ایمان پر دگنا احسان فرمائے گا، ایک تو باپ بیٹوں کو آپس میں ملا دے تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈ ی ہوں ۔ جنت کے لوگ ایک دوسرے کی جانب متوجہ ہو کر ایک دوسرے کا حال پوچھیں گے ۔ اہل جنت کی خدمت کے لیے انہیں خادم بھی دیے جائیں گے ۔ کفار کے بارے میں کہا گیا کہ ’وہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ شاعر ہیں ، اور ہم ان کے بارے میں موت کا انتظار کر رہے ہیں ‘، اللہ پاک نے فرمایا کہہ دیجئے ! تم انتظار کرو ، یقینا میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں ‘ ۔ اللہ تعالیٰ ایسے کفار کی عقلوں پرحیرانگی کا اظہار کرتا ہے ۔ کہتے ہیں خود ہی قرآن گھڑ لیا ، لے آئیں قرآن جیسی ایک ہی سورت بناکر اگر وہ سچے ہیں تو ۔ آخری آیت میں قیام اللیل یعنی تہجد ہے جو عمر بھر ہمارے نبی کا معمول رہا، کہا اور ستارے غرو ب ہونے کے بعد تسبیح کیجئے یعنی فجر کی دو سنتیں ہیں ۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’فجر کی دو سنتیں دنیا و مافیہا سے بہتر ہیں ۔

سُوْرۃُ النّٰجْمِ

سُوْرۃُ النّٰجْمِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے تریپنویں (53)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے23ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 3رکو ،63آیات ہیں ۔ اس سورۃ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ پہلی سورۃ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے کفار کے مجمع عام میں تلاوت فرمائی، تلاوت کے بعد آپﷺ نے اورآپ ﷺ کے پیچھے جتنے لوگ تھے سب نے سجدہ کیا ۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے، راوی ہیں حضرت زید بن ثابت رضہ اللہ عنہ فرمایا کہ میں اس سورت کی تلاوت آپﷺ کے سامنے کی ، آپ ﷺ نے اس میں سجدہ نہیں کیا ، اس کا مطلب مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ سجدہ کرنا مستحب ہے ، فرض نہیں ، اگر کبھی چھوڑ بھی دیا جائے تو جائز ہے ۔

کبھی کبھی آسمانوں سے ستارے ایک جگہ سے تیزی کے ساتھ دوسری جگہ جاتے دکھائی دیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے سورہ الطور کی پہلی آیت میں اس ٹوٹنے والے ستارے کی قسم کھائی ہے ۔

سورہ کا آغا ز نبی پر وحی سے ہوتا ہے، کہا گیاکہ نبی اپنی خواہش سے نہیں بولتا ، وہ وحی ہی تو ہوتی ہے جو اس کی جانب بھیجی جاتی ہے پھر جبرائیل علیہ السلام کے نیچے اتر نے اور نبی ﷺ سے قربت کا بیان ہے ۔ اس ملاپ کے موقع پر نبیﷺ نے جبرائیل علیہ السلام کو اصل میں دیکھا ، یہ بعثت کے ابتدائی دور کا واقعہ ہے ۔ آیت 14 میں نبی ﷺنے جبرائیل علیہ السلام کو لیلۃ المعراج میں دیکھا ۔ سدرۃ المُنتَیٰایک بیری کا درخت ہے جو چھٹے یا ساتویں آسمان پر ہے یہ آخری حد ہے اس سے اوپر کوئی فرشتہ بھی نہیں جاسکتا ، فرشتے اللہ کے احکامات بھی یہیں سے وصول کرتے ہیں ۔ سدرۃ المُنتَیٰ کے قریب ہی جنۃُ الماوٰ ہے ، اسے اس لیےجنۃُ الماو کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کاماویٰ و مسکن یہی تھا، بعض مفسریں کا کہنا ہے کہ روحیں یہاں آکر جمع ہوتی ہیں ۔ سدرۃ المُنتَیٰ کی اس کیفیت کا بیان ہے جب آپ ﷺ نے اس کا مشاہدہ کیا ۔ ’یہاں نبی ﷺ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ‘ ۔ یہاں اللہ نے آیت 20 میں مشرکین پر طنز کرتے ہوئے فرمایا ’’کیا تم نے’ لات‘ اور’ عزٰی‘ کو دیکھا;238; اور تیسری دیوی ’مناۃ‘ کو جو گھٹیا ہے‘ ۔ گویا یہاں ان جھو ٹے معبودوں کی مزمت کی گئی ہے، قیامت کا ذکر کیا گیا ہے جہاں ہر ایک کو اس کے اعمال کاپورا پور ا بدلہ دیا جائے گا، یہ بھی واضح کیا گیا کہ ہر کوئی اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے، کسی کے گناہ کا بوجھ کسی دوسرے پر نہیں لادا جائے گا ۔ دنیا میں جو کچھ اچھا برا، خوشی غمی، دکھ سکھ، اسی کی جانب سے ہے، آیت 43 میں کہا گیا ’وہ ہی ہنساتا اور وہی دکھ و غم دیتا ہے‘ ۔ بے شک وہی مارتا وہی زندہ کرتا ہے، بلاشبہ اسی نے جوڑے بنائے ،یعنی نر اور مادہ پیدا کیے،آیت 47 میں پیدائش کے مراحل بیان کیے گئے ہیں ، کہا گیا بیشک وہی پیدا کرتا وہی مارنے والا بھی ہے، قوم ثمود کا ذکر ہے، قوم نوح کا ذکر ہے، قوم ثمود کا تذکرہ ہے، بستیوں کو الٹ دینے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے،پھر کہا گیا کہ ’’اے انسان ! تو اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو ٹھکراوَگے‘‘، رزق دینے والاہے اگر کوئی امیرہے تو وہ اسی نے کیا اور غریب ہے تو وہ بھی اس کی مصلحت ہے ۔ قیامت کے قریب آنے کا کہا گیا ، قیامت سوائے اللہ کے کسی کے اختیار میں نہیں ، مشرکوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’ کیاپھر اس قرآن پر تم تعجب کرتے ہو;238;اور تم ہستے ہو، اور روتے نہیں ، تم غفلت اور اعراض کرنے والے ہو،کفار سے کہا اللہ تعالیٰ نے’اب تم باز آجاوَ اور اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو‘ ۔

سُوْرۃُ الْقَمَر

سُوْرۃُ الْقَمَر مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے چوون ویں ;40641;اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے37ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 3رکو ،55آیات ہیں ۔ اس سورہ میں بیان کردہ موضوعات میں شق القمر یعنی اللہ کے حکم سے نبیﷺ کا چاند کے دو ٹکڑے کرنا ، اس کے علاوہ مومنوں کے لیے بشارتیں ، کفارکو ڈرایا گیا ہے، نبوت و رسالت ، بعث و نشواور قضاء و قدر جیسے عقائد کا بیان ہے ۔

اس سورہ کی ابتدا اس جملے سے ہوئی ’’قیامت بہت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا ،دوسری آیت میں کہا گیا’’اور اگر مشرکین کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ موڑ تے اور کہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ سے چلا آتا ہوا جادو ہے‘‘ ۔ یہاں قربِ قیامت اور شقِ قمر کا ذکر ہے ۔ پہلے یہ کہ نبی ﷺ کو وجود اور قیامت سے متصل ہے، اور قیامت تک کوئی اور نبی نہیں آئے گا ۔ پھر اس معجزہ کا ذکر ہے جو اہل مکہ کے مطالبے پر دکھایا گیا، چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے حتیٰ کہ لوگوں نے حراء کو اس کے درمیان دیکھا ، یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا دوسرے طرف ہوگیا ۔ شق القمر نبی ﷺ کے اہم معجزات میں سے ہے ۔ مکہ کے قریش کے لیے نبی ﷺ کا یہ معجزہ کافی تھا ایمان لانے کے لیے لیکن انہیں تو ہدایت ملنی ہی نہیں تھی، اسی لیے انہوں نے اسے جادو قرار دیا، اللہ نے ان مشرکین کے لیے سخت عذاب اور کہا کہ’ یہ قبروں سے ایسے نکلیں گے جیسے وہ منتشر ٹڈی دل ہوں ‘ ۔ (آیت7)، کفار کو ڈرا یا گیا کہ ڈرو اس وقت سے کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہوجائے جیسا پہلے کی نافرمان قوموں پر آتا رہا ہے، تیز بارش سے قوم کی تباہی، نوح علیہ السلام کی کشتی کا ذکر کیا گیا ، قوم عاد ، قوم ثمود ، حضرت صالح اور پہاڑسے نکلنے والی اونٹنی کا تذکرہ ہے اس قوم کی تباہی کا بیان ہے جو چنگھاڑ کے نتیجے میں ہوا، آیت49 میں کائینات کی ہر شہ ایک مقرر اندازے کے مطابق پید اکی ہے‘ ۔ پھر کہا کہ ہمارا حکم پلک جھپکنے کی طرح ہی ہوتا ہے ۔ اللہ نے تمام معاملات ، واقعات، حالات ، قصہ، چھوٹا بڑ۱ عمل محفوظ کیے ہوئے ہیں صحیفوں میں ، یعنی ہر چھوٹے سے چھوٹا بڑے سے بڑا عمل لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ، متقین کے لیے جنت میں باغات اوروہ نہروں کے بیچ ہوں گے ۔ جنت میں کوئی گناہ کی بات ہوگی نہ لغویات کا ارتکاب ہوگا ۔

سُوْرۃُ الرّٰحْمٰنِ

سُوْرۃُ الرّٰحْمٰن مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے پچپنوی;40741;اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے97ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 3رکو ،78آیات ہیں ۔ اس سورہ کا ایک نام عروسن القرآن‘ بھی ہے، عروس سے مراد زینت یا دلہن کے ہیں ، اس اعتبار سے یہ سورہ قرآن کی زینت ہے،اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے حوالے سے انسانوں اور جنوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا ہے ۔ اس سورۃ میں آیت 13سے’’فَبِاَ یِّ اٰ لَآ ءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّٰ بٰن، ترجمہ ’’پس اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاوَگے‘‘،سے شروع ہوا اور مکمل آیت میں 30مرتبہ اللہ نے جن و انس کو مخاطب کیا ۔ اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر کیا ہے، اللہ کا یہ فرمانا کہ ’’پس اے جن وانس! تم اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاوَگے‘‘، اس سورہ کی اصل روح ہے، اس کا دل ہے،اس کا مرکزی خیال ہے ۔ سورہ کا پہلا لفظ ’’ رحمٰن ‘‘ ہی اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ، رحمٰن اللہ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے، اس سورہ میں شروع سے آخر تک اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفت رحمت کے مظاہر و ثمرات کا ذکر ہے ۔ شروع میں تو انسان کو مخاطب کیا گیا، اس لیے کہ انسان زمین پر ہی آباد ہیں ، رسول انہی میں سے آئے، آسمانی کتابیں انہی پر نازل کی گئیں ، لیکن آیت 13سے اللہ کے مخاطب جن اورانسان ایک ساتھ تھے اور تیس بار اللہ نے اپنی ان دونوں مخلوق کو ایک ساتھ مخاطب کر کے یہی کہا کہ ’’پس اے جن وانس! تم اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاوَگے‘‘ ۔ جب

ا س سورہ کی تلاوت کی جارہی ہوتی ہے تو ایک بہت ہی خوشگوار احساس پیدا ہوتاہے،اس میں سرور ہے، حسن ہے، سننے والے کے دل پر برائے راست اللہ کی وحدانیت کا اثر ہوتاہے ۔ اس سورہ کے حوالے سے متعدد احادیث بیان ہوئی ہیں ۔ حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے سورہَ رحمٰن تلاوت فرمائی ، پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تم سے اچھا جواب نہیں سن رہا ہوں جیسا جِنّوں نے اپنے رب کو دیا اتھا;238; صحابہ نے پوچھا رسول اللہ ﷺ وہ کیا جواب تھا;238; آپﷺ نھے فرمایا کہ جب میں للہ تعالی کا ارشاد ’پس اے جن وانس! تم اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاوَگے‘پڑھتا تو جِنّ اُس کے جواب میں کہتے جاتے تھے کہ ’’ہم اپنے رب کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے‘‘ ۔

سورہَ رحمٰن کی ابتدائی آیات میں کہا گیا کہ قرآن کی تعلیم کسی انسان کی طبع زاد نہیں یامحمد ﷺ کو قرآن کی تعلیم کوئی انسان نہیں سکھاتا ، اس کا معلم یا سکھانے والا رحمٰن ہے ، اس قرآن کی تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ، پھر آیت 6,5 میں بتا یا گیا کہ کائنات کا خالق اور اس کے نظام کو چلانے والا بھی اللہ ہی ہے، کائینات کی ہر چیز اس کے تابع ہے ۔ آسمان کو اسی نے بلند کیا ہوا ہے، یہ بات بھی اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ کائینات کا یہ نظام ایک خاص توازن کے ساتھ اور عدل پر قائم ہے ۔ تمہیں بھی چاہیے کہ تم ترازو میں حد سے تجاوز نہ کرو، اور تم انصاف سے وزن کو درست رکھو اور تول میں کمی نہ کرو، آسمان کومخلوق کے لیے بچھایا ۔ اب آیت دس سے اللہ تعالیٰ قدرت کے عجائب و کمالات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان نعمتوں کی طرف اشارہ کیا گیا جن سے انسان مستفید ہورہا ہے، ان نعمتوں میں پھل، کھجور کے درخت، اناج، پھول، یہاں سے یعنی آیت 13 سے اللہ تعالیٰ کہتا ہے ’پس اے جن وانس! تم اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاوَگے‘ ۔ کہا آیت گیارہ میں کہ اس نے انسان کو ٹھیکری جیسی کھنکتی مٹی سے پیدا کیا، جن کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا، پھر تم دونوں رب کی کن کن نعمتوں کو ٹھکراوَگے، اللہ دونوں مشرق و مغرب کا رب ہے، رحمٰن نے دو سمندر جاری کیے جو باہم ملتے ہیں ، دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے وہ دونوں اس سے تجاوز نہیں کرتے جو باہم ملتے ہیں ، سمندر سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں ، سمندروں میں جہاز ، کشتیاں اسی کے تابع ہیں ، زمین پر ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اللہ کے، حساب کتاب کا وقت نذدیک ہے ، باز پرس قیامت کے دن ہونے والی ہے، اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کا انجام سے آگاہ کیاگیا، آخر میں ان انعامات کا تذکرہ ہے جو آخرت میں نیک انسانوں اور جنوں کو عطا کیے جائیں گے ۔

سُوْرَۃُ الوَقِعَۃِ

سُوْرَۃُ الوَقِعَۃِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے چھپنوی;40841;اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے46ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 3رکو ،96آیات ہیں ۔ اس سورہ کا موضوع آخرت، توحید، اور قرآن کے بارے میں کفار مکہ کے شبہات کی تردید ہے ۔

قیامت کی ہولناکی کا نقشہ کھینچا گیا، جب کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر غبار بن کر رہ جائیں گے، یہ کوئی زلزلہ نہ ہوگا جو کسی مخصوص جگہ آئے گا بلکہ مکمل زمین ایک ہی وقت میں ہلاکر رکھ دی جائے گی، پوری نوع انسانی تین گروہ میں تقسیم ہوجائے گی ایک جنتی، دوزخی اور تیسرے خواص مومنین جو نیکی کے کاموں میں آگے ہوں گے، اس کے بعد اللہ کے وجود اور وحدانیت اور کمال قدرت پر دلائل دئے گئے ہیں ، اللہ کی قدرت کی نشانیاں بیان کی گئیں جس میں انسان کی پیدائش، موت، دوبارہ زندہ کرنا ۔ پھر کلام مجید کی عظمت بیان ہوئی ہے، یہاں اللہ نے ستاروں کے گرنے کی قسم کھائی ہے، پھر کہا کہ بلا شبہ یہ قرآن بڑی عزت والا ہے جو ایک محفوظ ہے،اللہ نے کہا کہ کھیتیوں کو اگانے والے ہم ہیں توان کو بھس بھی بناسکتے ہیں ، یہ پانی جو تم پیتے ہوں اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ، ہم چاہیں تو اسے سخت کھارا بنادیں ، پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے، یہ آگ کس نے پیدا کی ہے;238;سورۃ کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسانوں کے تینوں گروہ کے لیے جس سز اور جزا کی میں نے خبر دی ہے ، یہ ہونی ہے پس اے نبی ! اپنے رب ِ عظیم کے نام کی تسبیح کرو ۔

سُوْرَۃُ الْحَدِ یدِ

سُوْرَۃُ الْحَدِ ید مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے ستانوی;40941;اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے94ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 4رکو ،29آیات ہیں ۔ اس کاموضوعات اِنفاق فی سبیل اللہ کی تلقین ہے ، اللہ کی صفات کا بیان ہے، اللہ کی راہ میں قربانی دینا اور دیگر موضوعات اس سورہ کا حصہ ہیں ۔

آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ ’’اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے اور وہی زبردست دانا ہے، کہا گیا کہ زمین و آسمان کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، وہی اول وہی آخر بھی ہے، ظاہر بھی اور مخفی بھی، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔ اس نے آسمانوں ، زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور عرش پر جلوہ نماہوا ۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی تاکید کی گئی ، فتح مکہ سے پہلے اور بعد میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کا تذکرہ ہے، کہا تمہیں کیا ہوگیا ہے جو تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، اللہ زمین وآسمان کی میراث کامالک ہے، ایمان والوں کے بارے میں آیت 12 میں کہا گیا کہ ’اس دن آپ ایمان والوں اور ایمان والیوں کو دیکھیں گے ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑے گا، کہا جائے گا آج تمہیں ایسے باغات کی بشارت ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، انہیں میں ہمیشہ رہیں گے‘ ۔

زندگی کی حقیقت آیت 20 میں بیان کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ ’تم جان لو کہ دنیاوی زندگی محض کھیل تماشا اور زینت ہے اور آپس میں فخر کرنا اور ایک دوسرے کے اموال و اولاد میں کثرت جتانا اس کی مثال ایسے ہے جیسے بارش کہ اس سے پیدا شدہ نباتات کسانوں کو خوش کرتی ہیں پھر وہ خشک ہوجاتی ہیں تو آپ اسے زرد شدہ دیکھتے ہیں ، پھروہ چور اچورا ہوجاتی ہیں ، اور آخرت میں کفار کے لیے عذاب ہے اور مومنوں کے لیے اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضامندی ہے اور دنیاوی زندگی تو بس دھوکے کا سامان ہے‘ ۔ یہاں آیت 24 میں کہا کہ ’اللہ اترانے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ‘ ۔ رسول بھیجنے کا ذکر تے ہوئے ، عیسیٰ ابن مریم کو انجیل عطا کی، ہم نے ان کے دلوں میں جنہوں نے اس کی پیروی کی شفقت اور مہربانی رکھ دی ‘ ۔ آیت 28 میں فرمایا اللہ نے ’اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ، اور اس کے رسول پر ایمان لاوَ ، وہ تمہیں اپنی رحمت سے دو حصے اجر دے گا، اور تمہارے لیے ایسا نور بنائے گا کہ تم اس کے ساتھ چلوگے اور وہ تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت معاف کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے‘، آخری آیت میں کہا کہ اہل کتاب یہ جان لیں کہ بلاشبہ وہ اللہ کے فضل میں سے کسی شہ پر قدرت نہیں رکھتے، اور بلا شبہ تمام فضل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے یہ فضل عطا کرتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے‘ ۔ (27رمضان المبارک 1440ھ ،2 جون2019ء)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273952 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More