بین الا قوامی سیاست پر عارف جمیل صاحب نے اپنی پہلی برقی
تصنیف’ بیسویں صدی سے اکیسویں صدی تک کا سفر‘ مجھے پیش لفظ لکھنے کے لیے
بھیجی ، موضوع میرے مزاج کا تھا، میں سیاسیات کا طالب علم ہوں ، اس موضوع
پر عرصہ دراز سے لکھ رہا ہوں ۔ میں نے اپنی استطاعت اور معلومات کے مطابق
ان کی کتاب پر پیش لفظ لکھا ۔ اس بات کو ایک ماہ ہی ہوا ہوگا کہ عارف صاحب
کی ای میل دوسری برقی کتاب پر کچھ لکھنے کی فرمائش کے ساتھ موصول ہوئی ۔
خوشی ہوئی کہ عارف صاحب برقی تصانیف کی تدوین و اشاعت کی جانب برق رفتاری
سے پیش قدمی کر رہے ہیں ۔ ان کی اس اونچی اڑان میں ای بک لائبریری پنجاب کے
آصف بلا ل کی کاوشیں بھی شامل ہیں جو قابل ستائش ہے ۔ کتاب کے عنوان پر
نظر پڑی اور عارف صاحب نے یہ بھی بتایا کہ اس پر معروف کرکٹر عبد القادر
صاحب نے پیش لفظ لکھا ہے ۔ یہ بھی خوشی کہ بات ہے کہ جس موضوع پر کتاب ہو
اس پر اس موضوع کا ماہر اپنے خیالات کا اظہار کرے تقویت کا باعث ہوتا ہے ۔
کتاب کی اہمیت ، قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے ۔ عبد القادر جیسے کھلاڑی کی رائے
مستند اور صائب ہوگی ۔ عارف صاحب سے میرا تعلق بہت ہی پیار و محبت والا ہے،
وہ مجھے چھوٹے بھائی کی طرح عزیز ہیں ۔ ان کی بات کا انکار میرے لیے ممکن
نہیں تھا پھر بھی میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اپنے زمانے میں
کرکٹ کا کھلاڑی بھی رہ چکاہوں ، کرکٹ دیکھتا بھی ہوں ، خاص طور پر جب
پاکستان کے جانباز کھلاڑی دشمن ملک کے مدِ مقابل ہوں تو میری تمام تر توجہ
اس جانب ہوتی ہیں ، البتہ کرکٹ میرا موضوع نہیں رہا، جواب ان کا آیا کہ بس
ایک پیراگراف ، اب میرے لیے گنجائش نہیں تھی، چنانچہ ایک بہت ہی عمدہ اور
دلچسپ موضوع پر ایک ایسے قلمکارکی خوبصورت تحریر جس کا قلم عرصہ دراز سے
سیاست و تاریخ جیسے موضوعات پر معلومات کے موتی بکھیررہا ہے، کرکٹ جیسے
موضوع پر بھی معلومات کا خزانہ منفرد انداز سے پیش کرنے کی کامیاب جسارت کی
ہے ۔
کتاب کامتن دیکھ کر میں کرکٹ سے اپنے تعلق کی یادوں میں کھوگیا، میں نے
نامی گرامی کرکٹرز کو پویلین میں چوکے اور چھکے لگاتے ، بڑے بڑے بیٹسمینوں
کو پویلین سے صفر پر واپس جاتے بھی دیکھا ہے ۔ امتیاز احمد، جاوید برکی کو
پی اے ایف ماری پور کے گراوَنڈ میں کھیلتے دیکھا ہے، یہی نہیں اس موقع پر
مجھے منیر حسین بھی یاد آگئے جو اپنے زمانے میں کرکٹ کے حوالے سے بہت
معروف تھے ، وہ اردو کمنٹری کے بانی تھے ، کرکٹ کا جریدہ بھی انہوں نے جاری
کیا تھا ۔ کرکٹ ورلڈ کپ کی بات خواہ کسی بھی حوالے سے ہو 1992ء کے ورلڈ کپ
کونظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کرکٹ ورلڈ کی تاریخ 1975ء سے شروع ہوتی ہے
جس کی فاتح ٹیم ویسٹ انڈیز تھی ۔ پھر ہر چار سال بعد یہ سلسلہ جاری رہا،
2019ء کا ورڈ کپ بارہواں (12)ورلڈ کپ تھا ۔ ورلڈ کپ کی44سالہ تاریخ میں
پاکستان صرف ایک مرتبہ 1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کافاتح رہا اور موجودہ وزیر
اعظم عمران خان اس ٹیم کے کپتان تھے، جنہوں نے پاکستانی ٹیم کو فتح مند
کرنے میں بطور کپتان اہم کردار ادا کیا تھا ۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں
نے پاکستان کرکٹ ٹیم کا وہ فاتحانہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا جسے بھلانا
مشکل ہے ۔ یہی نہیں بلکہ میں تمام کے تمام ورلڈ کپ دیکھتا رہا ہوں ۔ پہلا
ورلڈ کپ جو 1975ء میں منعقد ہوا اس وقت میں اپنی تعلیم مکمل کر کے کالج میں
ملازم ہوچکا تھا اور اس کے بعد سے تمام ورلڈ کپ دیکھتا رہا ہوں ۔ کرکٹ سے
میرا شوق دیکھنے کی حد تک ہی رہا اس موضوع پر کبھی قلم نہیں اٹھایا، بھلا
ہوعارف جمیل صاحب کا کہ انہوں نے مجھے کرکٹ کے ورلڈ کپ2019ء پر لکھی گئی
اپنی عمدہ تصنیف کے توسط سے کرکٹ کے موضوع پر چند سطر لکھنے کا موقع فراہم
کیا ۔
کرکٹ ورلڈ کپ2019اس کتاب کی بنیاد ہی نہیں بلکہ مصنف نے اپنے تجربے اور
مشاہدہ کی بنیاد پر خوبصورت انداز سے ورلڈ کپ 2019 ء کا تجزیہ کیا، ہر ہر
زاویے سے ، ہر ہر پہلو سے تمام چیزوں کا تجزیہ کیا بلکہ پوسٹ مارٹم کیا ہے،
غلطیاں ہوئیں ان کی نشاندھی کی، تجاویز پیش کیں ۔ اس کتاب میں وہ مضامین
بھی شامل ہیں جومصنف نے عالمی کپ کے دوران لکھے اور وہ ویب ساءٹ ’اردو
پوائنٹ‘ پر وائرل ہوئے ۔ کتاب کے پہلے دوباب عالمی کپ سے پہلے پاکستان کرکٹ
ٹیم کے انگلینڈ کے دورے پر مشتمل ہیں جن میں پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کی
سلیکشن پر سوال اُٹھایا گیاہے ، تجزیہ کیا گیا ہے کہ کیا یہ منتخب ٹیم اس
سیریز اور کرکٹ ورلڈ کپ کیلئے تیار تھی ۔ اسی طرح کتاب کے باب ’آئی سی سی
ورلڈ کپ 2019ء میں متنازعہ بھارت اور امپائرنگ پر اپنی ماہرانہ رائے بیان
کی ہے ۔ اس میں گزشتہ کرکٹ ورلڈ کپ کے متعلق مختصر معلومات بھی ہیں کرکٹ
عالمی کپ 2019ء کے باب میں موجودہ عالمی کپ کے طریقے کا رو اصولوں کے چند
اہم پہلو واضح کیے گئے ہیں ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی 10ممالک کی ٹیموں کے
کپتانوں کے نام ہیں ، ماضی میں کرکٹ ورلڈ کپ کون سے ممالک جیت چکے ہیں اور
رنرز اپ کو ن رہے وہ بھی کتاب کا حصہ ہے ۔
ایک باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ متنازعہ معاملات پر آئی سی سی کی کوئی
واضح پالیسی نظر نہیں آتی اور وہ ادارہ صرف عالمی کپ کا ایونٹ مکمل کروانے
سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا ۔ اسی طرح پاکستان افغانستان کے میچ کے دوران
ہوائی جہاز کا گراءونڈ کے اُوپر پاکستان مخالف بینر لہرانا، افغانستان کی
شکست کے بعد پاکستانی شائقین پر افغانی شائقین کا تشدد،انڈیا اور انگلینڈ
کا میچ جس میں انگلینڈ کی جیت کا طریقہ کا ر اور پاکستان کا ایک قدم دُوری
سے سیمی فائنل سے رہ جانے کا ذکر بھی ہے ۔ آخر میں انگلینڈ کی فائنل میں
جیت اور نیوزی لینڈ کی ہار کی کہانی بیان کی گئی ہے ۔ عالمی کپ میں ہونے
والے 48میچوں کی مختصر تفصیل، چند اہم واقعات و خبریں اور چند اہم میچوں پر
خصوصاً پاکستان کے میچوں پر تجزیات، مستقبل میں بین لاقوامی و ملکی کرکٹ کے
معاملات پرمصنف نے رہنمائی فراہم کی ہے ۔ کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کے
لیے یہ کتاب معلومات کاقیمتی خزانہ ہے ۔ عارف جمیل صاحب قابل مبارک باد ہیں
کہ انہوں نے کرکٹ ورلڈ کپ جیسے موضوع پر قلم اٹھایا اور اپنے مضامین کو
کتابی صورت میں پیش کیا ۔ اس طرح ان کی یہ علمی کاوش جو مختلف مضامین میں
بکھری ہوئی تھی کتابی صورت میں محفوظ ہوگئی ۔ ای ۔ لائبریری پنجاب کے آصف
بلا ل صاحب بھی خصوصی شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے عارف صاحب کی کاوش کو
برقی کتا ب کی صورت میں نہ صرف محفوظ کیا بلکہ اس موضوع پر دلچسپی رکھنے
والوں کے لیے ایک برقی ذریعہ معلومات فراہم کرنے میں کلیدی کردار اد کیا ۔
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پروفیسر
شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس
منہاج یونیورسٹی، لاہور
|