پاکستان مدتوں دہشتگردی کا شکار رہا سالوں عوام اس عذاب
سے گزرتے رہے بلکہ اب بھی کسی نہ کسی صورت میں گزر رہے ہیں اور وقتا فوقتا
دھماکے اور دہشت گردی کی خبریں آتی رہتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن اب
بھی سرگرم عمل ہے اور اس کے کارندے کسی نہ کسی صورت میں ملک کے اندر موجود
ہیں اور اپنے آقاؤں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور
پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں سے ہم اس عفریت سے نپٹنے میں
کافی تک کامیاب ہو چکے ہیں اور ملک میں معمول کی سر گرمیاں معمول پر آ چکی
ہیں۔اس دہشت گردی نے جہاں ہمیں بے انتہا جانی نقصان پہنچایاوہاں معاشی،
معاشرتی بلکہ مذہبی معمولات کو بھی بے اندازہ نقصان پہنچایااور تو اور کھیل
بھی اس کی زد میں آیا۔پاکستان روایتی کھیلوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی طور
پر کھیل کے میدان کا ایک اہم رکن رہا ہے اور مختلف کھیلوں میں اپنا لوہا
منواتا رہا ہے اور ہاکی، کرکٹ، سکواش، ریسلنگ اور مختلف اوقات میں دیگر
کھیلوں میں وکٹری سٹینڈ کا حصہ بنتا رہا ہے لیکن کرکٹ کی مقبولیت عوامی سطح
پر سب سے بڑھ کر ہے اور اسی لیے دہشت گردوں نے اسی کھیل کو خاص کر نشانہ
بنایا اور مارچ 2009 میں جب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی
اور دوسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کے کھیل کے لیے قذافی سٹیڈیم صدارتی لیول
کی سیکیورٹی کے ساتھ جارہی تھی کہ لیبرٹی چوک کے قریب دہشت گردوں نے اس کی
ایک بس پر حملہ کیا،پولیس نے ڈٹ کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جبکہ ڈرائیور
مہر محمد خلیل بس کو برسٹ ٹائروں کے ساتھ تقریباََ ایک کلو میٹر سے زیادہ
بھگا کر لے گیا اور مہمان ٹیم کو محفوظ سٹیڈیم تک پہنچادیا۔ اس حملے میں
مہمان ٹیم کے چھ ارکان کو ہلکے زخم آئے تاہم وہ مجموعی طور پرمحفوظ
رہے۔اگرچہ اس سے پہلے بھی مغربی ٹیمیں پاکستان نہ آنے کے لیے کئی طرح کے
بہانے اور تو جیہات ڈھونڈتی تھیں لیکن اس کے بعد تو باقاعدہ طور پر پاکستان
میں بین الاقوامی کرکٹ بند ہو گئی اور جن مقابلوں کی میزبانی کی ذمہ داری
پاکستان کو دی جاتی انہیں دُبئی میں کھیلا جاتا اورمدتوں کرکٹ کے روایتی
ملک میں اس کے میدان ویران اور سنسان پڑے رہے یہاں تک کہ ڈومیسٹک کرکٹ بھی
متا ثر ہوئی اور کچھ حالات اورکچھ سازشیں دشمن کا کام آسان کرتی گئیں
پاکستان کی متعد د یقین دہاینوں کے باوجود غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آنے سے
انکاری رہیں اور اس بات کو بھارت خاص کر اُچھالتا رہا اور اپنے طے شدہ دورے
کو کرنے سے ابھی تک انکاری ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی مسلسل کوششوں سے جب پی
اس ایل کا انعقاد شروع ہوا تو بھی غیر ملکی کھلاڑیوں کے پاکستان آنے سے
انکار پر مجبورا اسے دبئی اورشارجہ کے گراونڈوں میں کرانا پڑا لیکن اس کے
باوجود اسے شاندارکامیابی ملی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کی بھر پور شرکت سے
مزید پزیرائی بھی ملی اگرچہ اس کے کچھ میچیز اور فائنل پاکستان تک پہنچ چکے
ہیں لیکن پورا پی اس ایل ابھی تک پاکستان نہیں لایا جا سکا تاہم کرکٹ
پاکستان کے دشمنوں کو ایک بڑی ناکامی اب ہوئی ہے جب سری لنکا کی قومی ٹیم
اپنی ایک روزہ اورٹی ٹونٹی میچوں کی سیر یز کھیلنے پاکستان پہنچی اور اب تک
سیر یز بفضل خدا بڑی کامیابی سے جاری ہے اس دورے کے لیے جہاں پاکستان کرکٹ
بورڈ کامیابی پر مبارکباد کی مستحق ہے وہیں سری لنکا کرکٹ بورڈ کی ہمت کی
بھی داد دینا پڑے گی جس نے اپنی ٹیم کو دوبارہ پاکستان بھیج کر پاکستان کے
حالات،سیکیورٹی اور کرکٹ بورڈ پر اعتماد کا اظہار کیا اور پھر ان میچوں میں
تماشائیوں کی کثیر تعداد اور بھر پورلچسپی نے بھی ظاہر کر دیا کہ پاکستانی
کھیلوں سے محبت کرنے والے پرامن لوگ ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن
مسائل پر قابر پا چکے ہیں جن کو بنیاد بنا کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کر کے
پاکستان سے کرکٹ کو ختم کر نے کی کوشش کی گئی اور سمجھا گیا کہ اب پاکستان
کے کھیل کے میدان کبھی آباد نہیں ہو سکیں گے۔ سری لنکا کی ٹیم کے کامیاب
دورے کے بعد کوئی وجہ نہیں رہتی کہ دنیا کی دوسری ٹیمیں پاکستان نہ آئیں۔
اس بار بھی سری لنکن ٹیم کے کھلاڑیوں کو جس طرح آئی پی ایل سے نکالنے کی
دھمکی دے کر روکا گیا وہ بھی اپنی جگہ ایک مجرمانہ فعل ہے جس پر بھارت کی
کھیل میں سیاست کو داخل کرنے پر شنوائی ہونی چاہیے۔ دوسری طرف پاکستان کرکٹ
بورڈ کو پاکستان میں غیر ملکی ٹیموں کو لانے کے لیے نہ صرف اپنی کوششوں کو
جاری رکھنا ہے بلکہ انہیں تیزتر کرنا ہو گاتاکہ جو سلسلہ ایک دفعہ چل پڑاہے
اُسے جاری رکھا جائے ہم نے دنیا کو باور کرانا ہوگا کہ پاکستان بدامنی پر
قابو پا چکا ہے اور یہ دوسرے ملکوں کی طرح بلکہ کئی ایک سے زیادہ محفوظ
ہے۔یہاں جس طرح عام غیر ملکی باشندے پرامن طور پر رہ رہے ہیں اُسی طرح کسی
بھی کھیل ک غیر ملکی کھلاڑی اپنے کھیل کے یادگار لمحات پاکستان میں گزار
سکتے ہیں۔ کرکٹ کامنقطع سفر جو دوبارہ شروع ہوا ہے اسے ہر صورت جاری رہنا
چاہیے اور اُمید ہے کہ انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا اور ایک بار پھر ان میچوں
کو دیکھنے کے لیے ہمارے سٹیڈیم اسی طرح بھرے اور بھرپور ہونگے جیسے دہشتگرد
ی کی عفریت کے حملے سے پہلے ہوتے تھے۔
|