ہم سب جانتے ہیں کہ نوجوانوں کے لئے مثبت کھیل کی
سرگرمیاں انتہائی اہم ہیں مقامی سطح سے ہی ایسے نوجوان قومی کھیلوں کا حصہ
بنتے آ رہے ہیں کل محلے کی گلیوں اور گراؤنڈ میں کھیل کر آج قومی ٹیم کا
حصہ بن کر اپنے وطن کا نام پیدا کر رہے ہیں ہمارے ہاں نوجوانوں کے لئے کھیل
کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں وہ بھی پوری طرح نوجوانوں کی
ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں نوجوانوں کی کھیلوں کی سرگرمیوں کو نظر
انداز نہیں کرنا چاہیئے چاہے وہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے ہوں دونوں کو کھیل کے
برابر مواقع ملنے چاہیں اور یہ مواقع پیدا کرنا حکومت کا فرض ہے اس سے
آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کیونکہ کھیل کی حوصلہ افزائی کر کے ہی ہم اچھے
کھلاڑی پیدا کر سکتے ہیں اس سے نہ صرف نوجوانوں کی بہتر نشوونما ہوتی ہے
بلکہ وہ نشہ جیسی لعنت سے بھی محفوظ ہو جاتے ہیں مشہور ہے کہ جہاں کھیل کود
کے میدا ن ہوں وہاں کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے
کہ آج ہمارے ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں اور ایک بستر پر دو دو مریض
لیٹے ہوتے ہیں خیریہ ایک الگ موضوع ہے اس پر پھر کھبی بات کروں گا بتانے کا
مقصد یہ تھا کہ کھیل کود میں عدم دلچسپی کی وجہ سے آج ہم بیمار ہو رہے ہیں
ہمارا طرز زندگی بالکل بدل چکا ہے ہم نے اپنی زندگی کو آسان اور سہل بنا
لیا ہے چلنے پھرنے کی عادت کم ہوتی جا رہی ہے۔اگر ایک فرد صحت مند ہو گا تو
ہمارا پورا معاشرہ صحت مند رہے گا اور ایک صحت مند معاشرہ ہی کامیابی کی
ضمانت ہوتا ہے۔سچ ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔
اگر ہم اپنے معاشرے پر ایک نظر دوڑائیں تو لگتا ہے کہ آج کا نوجوان نشہ کی
لت میں اپنے آپ کو غرق کر رہا ہے ہمیں اسے مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنا
ہے تا کہ وہ ان موذی نشہ آور اشیاء سے محفوظ رہ سکے۔میں نے اس موضوع کا
انتخاب اس لئے کیا ہے کہ ایک دن میں چوبرجی کواٹرز میں رہائش پذیر ایک
سرکاری ملازم ریاض الحق صاحب سے گفتگو کر رہا تھا تو انہوں نے فرمایاکہ جب
سے یہ اورنج ٹرین بننا شروع ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک چوبرجی کواٹرز کی
گراؤنڈ پر ٹھیکداروں کا قبضہ ہے اب نیا ٹھیکہ کسی اور کو مل چکا ہے لیکن اس
کے باوجود ابھی تک پہلا ٹھیکدار گراؤنڈ کو خالی کرنے پر رضا مند نہیں ہے
اور اس نے عدالت سے سٹے آڈربھی لیا ہوا ہے اس ٹھیکیدار کا کہنا ہے کہ جب تک
حکومت میرے پیسوں کی ادائیگی نہیں کرتی وہ گراؤنڈ خالی نہیں کرے گا ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ چوبرجی کواٹرز کے نوجوانوں کے لئے یہ واحد گراؤنڈ ہے جس
میں وہ کھیلتے تھے اس کے علاوہ اگر کوئی مرگ ہو جائے تو جنازہ بھی یہاں ہی
پڑھایا جاتا تھا اس کے علاوہ عیدین کی نماز کا بھی ایک بڑا اجتماع یہاں ہوا
کرتا تھا لیکن جب سے گراؤنڈ پر قبضہ ہوا ہے یہاں کے نوجوانوں کی اکثریت نشہ
کی عادت میں مبتلا ہو گئی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے مقامی لوگ سخت پریشان
ہیں اب حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس مسئلہ کا جلد از جلد کوئی حل ڈھونڈے تا کہ
یہاں کے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جا سکے۔میں وزیر اعلی
پنجاب عثمان بزدار صاحب ا ور اس حلقے کے ایم این اے اور وفاقی وزیر میاں
عماد اظہر صاحب ،ایم پی اے و صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال صاحب سے بھی
درخواست کرتا ہوں کہ اس چوبرجی کواٹرز کی گراؤنڈ کو جلد از جلد خالی کروایا
جائے تا کہ یہاں کے لوگوں اور نوجوانوں کے مسائل حل ہو سکیں حکومت کا فرض
بنتا ہے کہ وہ نوجوانوں کے لئے بہترین وسائل مہیا کرے جن میں کھیل کود کے
گراؤنڈز بھی اولین ترجیح ہیں اب جوگراؤنڈ ہیں ان پر بھی قبضہ مافیا براجمان
ہیں تو ہمارے نوجوان کہاں جائیں گے یہ حکومت کے سوچنے کی بات ہے امید کرتا
ہوں کہ اس پر جلد از جلد غور کیا جائے گا اور اس مسئلہ کا حل نکال کر
گراؤنڈ کو خالی کروا لیا جائے گا تاکہ یہاں کے نوجوانوں کو پھر سے کھیلنے
کا موقع فراہم ہو سکے اور وہ تواناو صحت مند زندگی اوربہترین ذہن پا سکیں
اور ان کے ذہنوں سے منفی سوچ ختم ہو اور وہ نشہ جیسی لعنت سے محفوظ رہ
سکیں۔ہم اپنے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھ کرہی انہیں معاشرے
کا بہترین فرد بنا سکتے ہیں کیونکہ فرد سے ہی معاشرہ وجود پاتا ہے ۔
میری والدین سے بھی خصوصی درخواست ہے کہ آپ اپنے بچے کو بچپن سے ہی کھیل
کود کا عادی بنائیں تا کہ جب وہ بڑا ہو تو وہ ایک توانا جسم اور ذہن کا
مالک بن سکے دیکھنے میں آیا ہے کہ جو بچے اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں وہی
ہر میدان میں کامیاب بھی ہوتے ہیں پڑھائی کے ساتھ کھیل کود بھی بچے کی نشو
و نما کے لئے ضروری ہے لیکن افسوس کہ والدین اپنے بچوں کو خود موبائیل اور
دوسری ٹیکنالوجی خرید کر دے رہے ہیں جس سے بچوں پران اشیاء کے منفی اثرات
ہو رہے ہیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل کے ماں باپ خود سوشل میڈیا کا
بخار چڑھا ہوا ہے وہ اپنے بچوں کی کیا تربیت کریں گے ماں باپ سوشل میڈیا کو
استعمال ضرور کریں لیکن بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور اپنے بچوں کو کھیل کود
کی طرف راغب کریں اس سے بچوں کی جسمانی ساخت بھی مضبوط ہو گی اور ان کا ذہن
بھی صحت مند ہو گا اور اگر وہ جسمانی طور پر کمزور اور سست ہوں گے تو وہ
ذہنی طور پر بھی کمزور اورسست ہی ہوں گے۔خدارا اپنے بچوں کی نشو ونما اور
دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دیں اب بھی بہت سے والدین اپنے بچوں کی بہتر پرورش
میں کسی قسم کی کمی نہیں آنے دیتے ۔ |