حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کے دربار میں
جادوگروں کی رسیوں کو سانپ کی صورت دیکھا تو سوچا کہ یہ نظر بندی ہے نظر کا
دھوکہ ہے ، یہ کچھ نہیں مگر جادو اور یہ ایک چال ہے. الله فرماتا ہے کہ
انہوں نے دل میں کچھ خوف محسوس کیا لیکن الله نے فرمایا کہ بیشک آپ ہی غالب
آئیں گے اور پھینک دیں جو آپکے داہنے ہاتھ میں ہے...
انسان کی زندگی میں بہت سی چیزیں رسیوں کی طرح مقابل آتی ہیں ، جو نظر کے
دھوکے کی مانند انسان کو سانپ کی طرح خوف دلاتی ہیں ، وہ کچھ نہیں ہوتا
سوائے دھوکے کے، لیکن مومن انہیں کچھ نہیں سمجھتے کہ ایمان والے کے داہنے
ہاتھ میں الله کی مظبوط رسی ہوتی ہے، جسے الله نے ڈالنے کا حکم حضرت موسیٰ
علیہ السلام کو دیا، شیطان انسان کے سر پر سوار رہتا ہے ، وہ کچھ نہیں کر
سکتا ، شیطان اور رحمٰن کا راستہ دیکھیں تو بہت واضح ہے ، شیطان کچھ نہیں
کرتا ، اسکے اختیار میں کچھ نہیں ، وہ تو صرف انسان پر اپنا داؤں چلاتا ہے،
ہر طرح سے ، سوتے میں ، جاگتے میں، آتے جاتے ، سامنے آنے والی ہر شے کے
بارے میں ، نیکی اور حق کے راستے سے روکتا ہوا بدی کے راستے کی جانب لے
جاتا ہے ، لیکن یہ کوئی اور نہیں لے جاتا ، شیطان نہیں لے جاتا ، شیطان صرف
بہکاتا ہے ، وہ تو انسان پر اپنے بہکاوے کا جادو چلاتا ہے ، جسے نیک انسان
جھٹلاتا ہے ، وہ اسکے داؤں میں نہیں آتا ، پس شیطان کا اختیار کسی شے پر
نہیں ، وہ انسان کو بلاتا ہے ، اسی طرح جیسے الله بھی نیکی کی جانب بلاتا
ہے ، دن میں پانچ وقت فلاح کا پیغام ہر جانب سے سماعتوں تک پہنچتا ہے فرق
یہ ہے کہ کون کس جانب چلتا ہے کون کس کی پکار پر لبیک کہتا ہے ، پس شیطان
انسان کو اپنے جال میں پھنساتا ہے ، بہلاتا ہے ، پھسلاتا ہے ، نہ سمجھنے
والے اسکے کہے میں آ جاتے ہیں ، لیکن جو کرتا ہے وہ شیطان نہیں انسان خود
کرتا ہے ، بدی کی جانب وہ چلتا ہے ، نیکی کی طرف سے منہ وہ موڑتا ہے ،
شیطان تو کچھ نہیں کر سکتا، وہ انسان کے اختیار پر حاوی ہو جاتا ہے.
اسکے برعکس رحمٰن وہ ہستی ہے کائنات کی ہر شے جسکے حکم سے چلتی ہے، وہ
چلاتا ہے ، روکتا ہے ، سنبھالتا ہے ، بہکے ہوؤں کو اپنی جانب آ جانے پر
تھام لیتا ہے ، اسکی پرانی خطاؤں کو درگزر فرما دیتا ہے ، کون ہے اسکے جیسا
رحیم ، کون ہے اسکے جیسا کریم...کوئی نہیں ، نگاہ لا جواب واپس لوٹ آتی ہے
، عقل حیرت کا مرقع بن جاتی ہے ، کہ اسے جھٹلانے کے باوجود ، اسکی راہ پر
نہ چلنے کے باوجود اس نے معاف کر دیا، لیکن وہ معاف کرتا ہے ، الله خود
سورة النساء میں فرماتا ہے" الله اسے نہیں بخشتا کہ اسکا کوئی شریک ٹھہرایا
جائے اور اس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے" اور " جو کوئی
برائی یا اپنی جان پر ظلم کرے اور الله سے بخشش چاہے تو الله کو بخشنے والا
مہربان پائے گا"... الله اکبر...
یعنی یہ الله خود فرما رہا ہے ، انسان کبھی انسان کو معاف کرتا ہے؟ اگر کرے
بھی تو کیا اتنی جلدی کرتا ہے ، کیا وہ برملا اظہار کرتا ہے کہ ایسا کرو تو
معاف کر دوں گا لیکن یہ کون فرما رہا ہے ، الله جو کائنات کا مالک ہے ، جس
نے دنیا میں جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ، جس نے انسان
کو محبت سے سینچا، جس نے اسے تخلیق کیا، اور جس نے داہنی ہاتھ والوں کے
رتبے بلند کیے، یہ داہنا ہاتھ بھی ایک راز ہے. دائیں جانب والے چین کے
باغوں میں ہوں گے...
انسان کا دل اسرار سے بھرپور ہے ، کائنات اپنے اندر اسرار سموئے روزانہ کی
بنیاد پر چل رہی ہے ، الله بھی ایک راز ہے ، الله کا احساس ایک ملائم احساس
ہے، وہ احساس جسکے بعد تمام کائنات کے راز وا ہونے لگتے ہیں ، اس اسرار سے
پردہ اٹھانے کو الله نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ وہ ڈالئے
جو آپکے دائیں ہاتھ میں ہے ، یہ دایاں ہاتھ وہ راز ہے جس میں الله نے ایک
اور راز اپنے معجزے کی صورت میں رکھا، اور وقت آنے پر دنیا کے نام نہاد
سرداروں کے سامنے دکھا دیا کہ الله ہر شے پر غالب ہے. داہنا ہاتھ الله کے
حکم سے ایک سوال کا جواب ہے ، ایک جادو کے برعکس حق ہے ، نظر کے دھوکے کے
سامنے ایک حقیقت ہے ، جادو، سانپ اور رسی ایک دھوکہ تھا فریب تھا ، جس نے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت کم لیکن خوف میں مبتلا کیا...
اس داہنے ہاتھ میں بڑا راز ہے ، انسان کے سامنے دنیا کا رنگ ، رنگینی ،
آسائش ، انسانی تقاضے ، غم اور دکھ کبھی ایک سانپ کی مانند آ کھڑے ہوتے ہیں
، شیطان الله کے راستے سے روکنے کے لئے بہکاوے میں لانے کی کوشش میں لگا
رہتا ہے . وہ مشکلات جسے انسان مشکل سمجھتا ہے ، سانپ کی مانند انسان کا
راستہ روکتی ہیں ، لیکن وہ دراصل مشکل نہیں ہوتی ، انسان کو صرف وسوسے میں
ڈالنے کا ایک درجہ ہوتا ہے ، جسکی اصلی شکل تو رسی کی ہوتی ہے لیکن وہ فریب
نظر کے تحت انسان کو سانپ لگتی ہے. انسان کو پس اسی حکم کے تحت کام کرنا
ہوتا ہے جو الله نے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا کہ وہ ڈالئے جو
آپکے دائیں ہاتھ میں ہے ، انسان کے داہنے ہاتھ میں الله کی مضبوط رسی ہے ،
ایمان کی طاقت ، الله کی رضا کی قوت، اسکی عطاؤں پر شکر ، اسکی رضا میں
جینے کی حوصلہ مندی، اپنے رب کا احساس اور جذبے کی اپنائیت ہے. داہنے ہاتھ
میں اک قربت موجود ہے جو بس حوصلے سے ہاتھ بڑھانے میں پنہاں ہے، اور جب یہ
جذبہ اور قوت آگے بڑھ کر سر راہ میدان میں آ جائے تو دنیاوی سانپ رسی اور
نظر کے فریب سمیت غائب ہو جاتے ہیں ، الله کی جانب سے عطا کی گئی سرفرازی
اور ایمان کی قوت بالا دست ہوتی ہے ، پست وہ ہوتا ہے جسکا خدا پر ایمان نہ
ہو ، اور جو الله کے حکم کے مطابق عمل کرنے پر راضی ہو جائے اسکے لئے دنیا
و آخرت کی سرفرازی منتظر ہے. الله حق کو حق کر دکھاتا ہے ، اور جھوٹ کو سچ
سے غائب کر دیتا ہے.چال، دھوکہ ، پانسہ اور داؤں اپنے تئیں منہدم ہو کر
رہتے ہیں. الله کے پیغام اور مومنوں کی سرفرازی ہمیشہ کے لئے قائم رہتی ہے.
تحریر: قراةالعین اشرف
|