بحر و بر شہر و قری سہل و حزن دشت و چمن
کون سے چک پہ پہنچتا نہیں دعویٰ تیرا
علم مکاشفہ ایک نور کا نام ہے۔ اولیاء و عارفین کو اللہ پاک کی ذات، اس کی
دائمی صفاتِ کمال، اس کے افعال، دنیا و آخرت کی وجۂ تخلیق، آخرت کو دنیا پر
موقوف کرنے کی حکمت، نبوت اور نبی کے معنی، وحی ملائکہ اور شیاطین کی حقیقت،
انسان سے شیطانی قوتوں کی دشمنی کی کیفیت، انسان کے سامنے فرشتوں کی آمد
اور نزول وحی کی کیفیت، آسمانوں اور زمین کے ملکوت کی حالت، فرشتے کے الہام
والقاء اور شیطان کے وسوسوں کا فرق، آخرت، جنت، دوزخ، عذاب قبر، پل صراط،
میزان، حساب اور حشر کے بے شمار امور کی صحیح معرفت اسی نور سے حاصل ہوتی
ہے۔
جب دل برائیوں سے پاک و صاف ہوتا ہے تو یہ علم ظاہر ہوتا ہے ۔ عقل اس کے
ادراک سے عاجز ہوتی ہے۔ یہ وہ باطنی علم ہے جو کتابوں میں نہیں لکھا جاتا۔
یہ وہی پوشیدہ علم ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی
کی مراد ہے۔”بعض علوم ہیئت مکنون کی طرح ہیں۔ جنہیں صرف وہ لوگ جانتے ہیں
جو اللہ کی معرفت رکھتے ہیں، جب وہ ان علوم کا اظہار کرتے ہیں تو صرف وہی
لوگ نہیں سمجھ پاتے ہیں، جو اللہ تعالی کی نسبت مغالطے میں مبتلا ہیں۔“
حضرت عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ ولی کامل اور سادات حسینیہ میں
بڑی عظمت کے مالک ہیں۔آپ صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے۔بچپن سے ہی اللہ تعالی
نے آپ کے قلب و باطن پر بہت سے اسرار و علوم منکشف کر دیے تھے۔ درج ذیل
سطور میں ہم آپ رضی اللہ عنہ کے چند مکاشفات اختصار کے ساتھ سپردِ قلم کریں
گے۔
اللہ تعالی نے آپ پر فرشتوں کی حرکات و سکنات اور انکی گفتگو منکشف فرما دی
تھی۔آپ کشف کے ذریعے انکی باتیں سنتے اور سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے لوگوں
کے پوچھنے پر بتایا کہ جب آپ بارہ سال کی عمر میں مکتب جاتے تھے تو اپنے
اردگرد فرشتوں کو چلتے دیکھتے اور جب وہاں پہنچ جاتے تو فرشتوں کو یہ کہتے
ہوئے سنتے تھے ولی اللہ کو جگہ دو۔
اللہ پاک نے علم لدنی کے ستر دروازے آپ کے لیے کھول دیے۔چنانچہ ایک دفعہ جب
شیخ بزاز رحمۃ اللہ علیہ آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے
فرمایا: اللہ تعالی نے علم لدنی کے ستر دروازے میرے لیے کھول دیے ہیں اور
ہر دروازہ زمین و آسمان کی پہنائیوں سے بھی زیادہ وسیع ہے۔
ایک دفعہ شیخ علی بن ہیتی آپ رضی اللہ عنہ کی زیارت کیلئے حاضر ہوئے ۔ آپ
اس وقت سوئے ہوئے تھے ۔کسی عقیدت مندنے چاہا کہ آپ کو بیدار کریں مگر شیخ
علی نے منع کر دیا اور کہنے لگے واللہ، واللہ، واللہ ،حضرت شیخ عبدالقادر
رضی اللہ عنہ کا کوئی حواری موجود نہیں ہے۔جب حضرت بیدار ہوئے اور باہر
تشریف لائے تو فرمایا :ہم محمدی ہیں اور حواریّین تو حضرت عیسی کے ہوتے
ہیں۔ شیخ علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے ایسی
عارفانہ گفتگو کی کہ میں نے آج تک ایسی گفتگو نہیں سنی ۔
اللہ تعالی کی عطا کی بدولت آپ کشف کے ذریعے لوگوں کی دلی کیفیت پر بھی
مطلع ہوجاتے تھے۔چنانچہ
ایک دن آپ تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک مردِ غیب ہوا میں اڑتا ہوا بغداد کی
فضا سے گزرا۔ جونہی وہ شیخ کی خانقاہ کے نزدیک سے گزرا تو زمین پر آرہا اور
پھر اس نے آپ کو سلام کیا اور دوبارہ ہوا میں تیرنے لگا لوگوں کے استفسار
پر بیان کیا کہ یہ شخص مردان غیب میں سے ہے مگر بڑی بے نیازی سے بغداد سے
گزر رہا تھا۔
آپ رضی اللہ عنہ اپنے کشف سے لوح محفوظ پر لکھی گئی تقدیر کا علم جان لیتے
تھے۔ایک دفعہ آپکے ہم عصر عارف شیخ حمادرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مرید تاجر
کو فرمایا کہ اگر تم اس سال سفر کرو گے تو قتل کر دیئے جاؤ گے اور تمہارا
مال بھی لوٹ لیا جائے گا۔ وہ شخص اپنے مرشد سے مایوس ہوکر آپ رضی اللہ عنہ
کے پاس آیا اور سفر کی کامیابی کے لیے دعا کروائی۔
اس نے سفر شروع کیااور دورانِ سفر ایک حادثہ پیش آیا لیکن وہ محفوظ رہا۔ جب
واپس آیا تو اپنے شیخ و مرشد حماد دباس رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں حاضر
ہوا۔انہوں نے فرمایا کہ پہلے شیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں
حاضری دے اور انکا شکریہ ادا کر، جنہوں نے تیری تقدیر کو دیکھ لیا تھا ،پھر
اللہ سے دعا کی اور تیری تقدیر بدل گئی۔
شیخ خلیفہ شہر ملکی فرماتے ہیں کہ جناب غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کو دنیا کے
تمام اولیاء ابدال اور اقطاب کے احوال و اسرار سپرد کر دیے گئے تھے۔ آپ کی
نگاہ جلال جب کائنات ارضی کے کسی گوشے پر پڑتی تو ساکنان ارضی سطح ارض سے
لے کرتحت الثری تک لرزہ براندام ہوجاتے۔
آپ رضی اللہ عنہ بڑے بلند مقام پر فائز تھے کہ فرماتے ہیں۔ واللہ میں کبھی
کھانا نہیں کھاتا جب تک کہ ہاتف غیبی سے یہ ندا نہیں سن لیتا ۔ حق کی قسم !
اے عبدالقادر تو کھا لے۔ میں کبھی نہیں پیتا یہاں تک کہ مجھ سے کہا جاتا ہے
کہ اے عبدالقادر! تجھے میرے حق کی قسم تو پی لے۔اسی لئے اعلٰیحضرت فاضل
بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں یوں
عرض کرتے ہیں۔
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ ترا چاہنے والا تیرا
آپ رضی اللہ عنہ کی آمد سے بھی پہلے عارفین کے ہاں آپ کا ذکر ہوتا تھا اور
وہ آپ کے ظاہری و باطنی علوم کے معترف تھے۔چنانچہ شیخ ابوبکر بزاز رحمتہ
اللہ علیہ ایک دن غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کا تذکرہ فرما رہے تھے کہنے لگے
کہ عراق میں ایک ایسے بزرگ ظاہر ہونے والے ہیں جو فضل و کرامت میں بڑے بلند
مقام پر فائز ہوں گے ان پر تمام اقطاب کے حالات واضح کر دیئے جائیں گے اور
ان کے سینوں کے تمام علوم ان پر روشن ہوں گے۔
|