بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورج گرہن کو عربی میں ”کسوف“ کہا جاتا ہے۔حضور اکرم ﷺ کی حیات ِمبارکہ میں
بھی سورج گرہن کا واقعہ پیش آیا، آپ ﷺ کے آخری لخت ِجگر پیارے صاحبزادے
حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ پندرہ سولہ مہینے زندہ رہ کر خالق ِحقیقی سے
جاملےاور اتفاقاً اسی دن سورج کو گہن بھی لگ گیا، آپ ﷺ نے جب سورج کو بے
نور ہوتے دیکھا تو خشیت ِالٰہی طاری ہوگئی اور فوراً مسجد تشریف لے گئے اور
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع فرمایا اور انہیں طویل نماز پڑھائی اور
ذکر ودعا میں مصروف رہے، یہاں تک کہ سورج صاف ہوگیا، نماز کے بعد آپ ﷺ نے
لوگوں کو سورج گرہن کا سبب بھی بتایا اور اس سے متعلق جاہلیت کے عقیدہ پر
رد بھی فرمایااور ایسے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف خصوصی رجوع کی تلقین فرمائی۔
لہٰذا سورج گرہن ہو یا چاند گرہن یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ِکاملہ کی ایک بڑی
نشانی ہے جو ایک طرف اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے تو دوسری طرف
اللہ تعالیٰ کی سطوت وطاقت کے سامنے مخلوق کی بے بسی اور لاچاری کی خبر
دیتی ہے، حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
"إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ لَا يَنْكَسِفَانِ
لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَادْعُوا
اللهَ وَصَلُّوا حَتَّى يَنْجَلِيَ".(أخرجه البخاري في صحيحه، رقم الحديث:
1060)
”بےشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان
دونوں کو نہ تو کسی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے اور نہ کسی کی زندگی کی
وجہ سے، پس جب تم سورج یا چاند گرہن دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرو
اور نماز میں مصروف ہوجاؤ، یہاں تک کہ گہن صاف ہوجائے“۔
اور سورج گرہن اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا اک مظہر ہے، اس میں قہر ِالٰہی کے
نزول کا بھی خدشہ ہوتا ہے، اور یہ بھی اندیشہ ہوتا ہے کہ قیامت کی علامات ِکبری
کا ظہور کہیں شروع نہ ہوجائے، اس لیے اللہ تعالیٰ سورج جیسی بڑی مخلوق میں
تغیرات پیدا کرکے اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں اور غافل دلوں کو جھنجھوڑتے ہیں
کہ وہ اس کی نافرمانی کی زندگی کو چھوڑ کر اس کی فرمانبرداری کی زندگی کی
طرف آجائیں۔ اور یہ قیامت کے حادثہ کا ایک نمونہ بھی ہوتا ہے کہ جس طرح
چاند سورج کو قیامت میں بے نور کردیا جائے گا تو یہ بھی ایک عارضی بے نوری
ہوتی ہے جو قیامت کی یاد دلاتی ہے۔لہٰذا اس کا سائنسی سبب کچھ بھی ہوتاہم
شرعاً اس کا مقصد وسبب بندوں کو تنبیہ اور ڈرانا ہےکہ انسان قدرت کے اس
مظاہرہ کو دیکھ کر سنبھل جائے اور خالق ِکائنات سے بغاوت نہ کرے۔حضور اکرم
ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
"إِنَّ اللهَ تَعَالَى يُخَوِّفُ بِهِمَا عِبَادَه".(أخرجه البخاري في
صحيحه، رقم الحديث: 1048)
”بے شک اللہ تعالیٰ چاند اور سورج گرہن کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے“۔
*احادیث وروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن کے وقت درج ذیل اعمال مستحب
ومسنون ہیں:*
1: عذاب ِالٰہی سے ڈرنا اور ہنسی ومزاح ، خوش گپیوں اور نافرمانی سے پرہیز
کرنا ۔(صحیح بخاری: 1059)
2:صدقہ وخیرات کرنا۔(صحیح بخاری: 1044)
3: غلام آزاد کرنا،(صحیح بخاری: 1054) آج کل غلاموں کا دور نہیں، اس لیے
اپنے نفس کو شیطان کے چنگل سے آزاد کرنے کی کوشش کرلی جائے اور یا بے گناہ
مسلمان قیدیوں کی رہائی کی کوشش کرلی جائے تو یہ بھی بہتر ہے۔
4: ذکر واستغفار کرنا(صحیح بخاری: 1059)اور تسبیح، تحمید، تہلیل اور تکبیر
(یعنی سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر) میں مصروف
رہنا۔(صحیح مسلم: 2158)
5: دعا میں مشغول رہنا۔(صحیح بخاری: 1059)
6: خاص طور پر عذاب ِقبر سے پناہ مانگنا۔(صحیح بخاری: 1050)
7: نماز ِکسوف کا اہتمام کرنا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز ِکسوف کا طریقہ نقل کرتے ہوئے
فرماتے ہیں کہ: *”رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ
ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور لگتا نہیں تھا کہ رکوع کریں گے، پھر رکوع کیا
تو لگتا نہیں تھا کہ رکوع سے سر اٹھائیں گے، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لگ
نہیں رہا تھا کہ سجدے میں جائیں گے، پھر سجدہ کیا تو لگ نہیں رہا تھا کہ
سجدے سے اٹھیں گے، پھر سجدے سے اٹھے تو لگتا نہیں تھا کہ دوسرا سجدہ کریں
گے، پھر دوسرا سجدہ کیا اور لگ نہیں رہا تھا اب اٹھیں گے، اور پھر دوسری
رکعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس میں بھی اسی طرح طویل ارکان ادا
کیے“۔*(سنن ابی داود، حدیث نمبر: 1194)
*نماز ِکسوف سے متعلق احکام وآداب درج ذیل ہیں:*
1: نماز ِکسوف کے لیے بالاتفاق اذان و اقامت نہیں (فتح الباری: 2/533) تاہم
جماعت کے وقت کا اعلان کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جماعت
تیار ہے، اہلِ محلہ مسجد تشریف لے آئیں، حدیث میں اس اعلان کے لیے یہ الفاظ
آئے ہیں: "إِنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ".(صحيح البخاري: 1045)
2: نماز ِکسوف سنت ِمؤکدہ ہے، بعض حضرات علماء نے واجب بھی کہا ہے، سنت
ہونا راجح ہے، اس لیے نیت سنت کی کی جائے۔(رد المحتار: 3/80)
3: مردوں کے لیے مسجد میں جماعت سے پڑھنا مستحب ہے اور عورتوں کے لیے گھر
میں تنہا پڑھنا۔(رد المحتار: 3/78، 79)
4: جو عورتیں حیض ونفاس کی وجہ سے نماز نہیں پڑھ سکتیں وہ ذکر ودعا اور
استغفار میں مصروف رہیں۔
5: جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں دو رکعتیں پڑھنا افضل ہے اور تنہا چار
رکعتیں پڑھنا بہتر ہے، زیادہ پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں، جو مرد جماعت
میں شریک نہ ہوسکیں وہ تنہا ہی چار رکعتیں پڑھ لیں ،(رد المحتار: 3/78، 79)
اور اپنا وقت ذکر ودعا اور استغفار میں گزاریں ۔
6: قیام، قراءت، رکوع اور سجدہ طویل کرنا مسنون ہے، اور پورے وقت کو نماز
ودعا میں مصروف رکھنا مستحب ہے(رد المحتار: 3/79) قومہ اور جلسہ کو لمبا
کرنا بھی منقول ہے(سنن ابی داود، حدیث نمبر: 1196) اور پہلی رکعت دوسری
رکعت سے قدرے طویل ہونی چاہیے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1056)
7: رکوع وسجدہ تسبیحات کے بعد ماثور دعائیں یاد ہوں تو وہ بھی پڑھ لیں۔(رد
المحتار: 3/79) اور یا رکوع وسجدے ہی کی تسبیحات بار بار پڑھتے رہیں۔
8: قومہ لمبا کرنے کے لیے "رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ" کا تکرار کرتے رہیں،
اور اگر حدیث میں وارد مختلف تحمید کے صیغے یاد ہوں تو انہیں بھی پڑھ سکتے
ہیں اوران کا تکرار کرتے رہیں۔اور جلسہ میں "رَبِّ اغْفِرْ لِيْ" یا دیگر
وارد دعائیں یاد ہوں تو انہیں پڑھتے رہیں۔
9: با جماعت نماز میں قراءت جہرًا بھی کرسکتے ہیں اور سرا بھی.
10: نماز کے بعد امام دعا کرے اور مقتدی آمین کہیں، قبلہ رخ ہو یا مقتدیوں
کی طرف رخ کرے دونوں طرح درست ہے، مقتدیوں کی طرف رخ کرنا افضل ہے۔(فتح
القدیر: 2/90)11- لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا اور نماز ِکسوف سے متعلق مسائل
واحکام بتانا خواہ نماز سے پہلے ہو یا بعد میں اچھی بات ہے، اور آپ ﷺ کو اس
نماز میں جو امور پیش آئے ان کا بھی تذکرہ کردیا جائے تو بہتر ہے، جیسے جنت
وجہنم کا دیکھنا، بعض اہل ِجہنم اور ان کی سزاؤں کا ذکر، عورتوں کی جہنم
میں کثرت اور اس کی وجہ اور قبر میں سوال وجواب کی کیفیت وغیرہ کا تذکرہ،
یہ سارے امور خشیت ِالٰہیہ میں ممد ومعاون ہیں۔
12: اگر سورج گرہن مکروہ اوقات میں ہو یا درمیان میں مکروہ وقت آجائے تو
نماز نہ پڑھیں، بلکہ ذکر ودعا میں مصروف رہیں۔(رد المحتار: 3/78)
13: نماز ِکسوف کا وقت گرہن شروع ہونے سے لے کر ختم تک ہے، گرہن شروع ہونے
سے پہلے اور ختم ہونے کے بعد پڑھنا سنت نہیں اور وہ نماز ِکسوف نہیں کہلائے
گی۔(رد المحتار: 3/78)فقط، واللہ اعلم بالصواب۔
|