اسلام کا معاشی ضابطہ

علامہ سعید آسوی(نارووال)
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ دولت کمانے سے پہلے تین اُصولوں کو مدِّنظر رکھے۔پہلا:انسان کی پیدائش کا مقصد دولت کمانا نہیں اور نہ ہی انسان ایک معاشی کیڑا ہے بلکہ اس کی تخلیق کا مقصد اﷲ کی عبادت و معرفت ہے۔ جو لوگ اس اصول کو مدِّنظر نہیں رکھتے ہیں وہ کھرب پتی ہونے کے باوجود بھی لالچی اور دل کے غریب ہی رہتے ہیں۔ اور اُن کی آنکھ سے بھوک کبھی نہیں مرتی۔ نبی کریم ا نے فرمایا انسان دولت سے امیر نہیں ہوتا بلکہ امیر وہ ہے جس کا دل امیر ہے(مسلم ) ۔نیز فرمایا کہ امیر لوگ قیامت کے دن غریب ہوں گے(بخاری) ۔دوسرا:جو بھی رزق کمایا جائے حلال طریقے سے کمایا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال نا جائز طریقے سے مت کھاؤ(النساء)۔ حرام لقمہ پیٹ میں ہو تو کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔تیسرا: انسان کو چاہیے کہ اس مال و دولت کا اصلی مالک اﷲ کریم جل شانہٗ کو سمجھے اور اپنے پاس اسے اﷲ کی امانت سمجھے۔ قرآن کہتا ہے ’’اے اﷲ تو ہی مالک الملک ہے‘‘(آلِ عمران)۔

اسلام نے جومعاشی ضابطہ پیش کیا ہے اس کے چند اجزا یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔ (۱)۔ اسلام نے دولت کے ارتکاز اور چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جانے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔(۲)۔ حضورؐ نے فرمایا :امیروں سے لو اور غریبوں کو دے دو(بخاری)۔(۳)۔اسلام کے معاشی نظام میں سود اورسودی نظام کی کوئی گنجائش نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اﷲ سُود کو برباد کرتا ہے اور صدقات کو قوت دیتا ہے(بقرہ)۔جو شخص پہلے ہی قرض لینے پر مجبور ہے اسے سُود کے بوجھ تلے دبانا ظلم ہے۔ لہٰذا اسلام نے سود کو قطعی طور پر حرام قرار دے دیا ہے۔ (۴)۔اجارہ داری(کسی تجارت پر بلا شرکتِ غیر قبضہ)بھی اسلام میں مستحسن نہیں۔ اجارہ داروں کا طریقہ واردات جھوٹی اشتہار بازی (Advertisement) ہے۔ اﷲ کریم کا ارشاد ہے : لوگوں کو انکی چیزیں گھٹا کر مت دو(ھود)۔ ناپ اور تول میں کمی یا گھٹیا چیز کو اعلیٰ بتا کر بیچنا سب اس کے عموم میں شامل ہیں۔ اجارہ داروں کا دوسرا حربہ ارزانی کے وقت ذخیرہ اندوزی ہے۔ نبی کریم ا نے فرمایا: مال کھولنے والے کو رزق ملتا ہے اور ذخیرہ کرنے والے پر لعنت ہے(ابن ماجہ)۔
(۵)۔سٹہ کی ممانعت: غائب مال کی سودا گری کو سٹہ کہتے ہیں۔ کھڑی فصل کا پکنے سے پہلے سودا یا منڈی میں پہنچنے سے پہلے مال راستے میں ہی جا کر خرید لینا اور پھر منڈی میں لا کر مہنگا بیچنا۔ ان طریقوں سے مال کئی ہاتھوں میں سے گزرنے کی وجہ سے مہنگا ہو جاتا ہے۔ اسلام میں اس طریقہ کو منع کر دیا گیا ہے۔ نبی کریم ا نے فرمایا: جو چیز تیرے ہاتھ میں نہیں اس کی کوئی خرید و فروخت نہیں۔(ابن ماجہ)۔ لہٰذا محض بینک بیلنس کے بل بوتے پر اور صرف ٹیلیفون کے ذریعے گھر بیٹھے بٹھائے کاروبار کر لینا ممنوع ہے۔ (۶)۔ فضول خرچی کی ممانعت: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: کھاؤ اور پیو اور فضول خرچی مت کرو(اعراف)۔ نبی کریم ا نے فرمایا: خرچ میں میانہ روی آدھی معاشیات ہے(شعب الایمان )۔ اس حدیث میں نبی کریم ا نے معاشی حکمتِ عملی کی وہ خیرات بانٹی ہے کہ دنیا کے تمام معاشی مریضوں کے درد کا درماں کر چھوڑا ہے۔ اگر مغرب کے تمام معاشی کیڑے اپنے آباء و اجداد کی تفکرات کا مغز نکال لائیں تو اس نبیٔ مکرمؐ کے اس سادہ سے جملے کی نظیر نہ لا سکیں گے۔ (۷)۔سرکاری سطح پر اسلامی حکومت کے ذرائع آمدنی زکوٰۃ ، عُشر ، لگان ، خراج ، جزیہ ، خمس،مالِ غنیمت یا دفینہ( کسی آدمی کی زمین میں سے اگر کوئی کان یا تیل وغیرہ نکلے تو اس کا پانچواں حصہ حکومت لے گی) ، عشور(بیرونی ممالک سے آنے والے مال پر کسٹم ڈیوٹی) ، ضرائب (ہنگامی ٹیکس) ، بیت المال کی زمین کی آمدنی ، محصول چونگی ، ضبط شدہ مال(مثلاً مرتد کا مال ، لاوارث کا مال ، ناجائز کمائی کا مال) ، ذرائع مواصلات کی آمدنی ، بجلی کی آمدنی ، سیاحت وزیارت کی آمدنی ، صنعت کی آمدنی ، تجارت کی آمدنی ، صدقات کی آمدنی اور اوقاف کی آمدنی ہیں۔(۸)۔اگر عوام کی بنیادی ضروریات زکوٰۃ میں سے پوری نہ ہوتی ہوں تو بیت المال کے باقی فنڈ میں سے ان ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کیا جاتا ہے۔ ملک میں ایک شخص بھی بنیادی ضرورت سے محروم نہیں رہتا حتیٰ کہ ایک غیر مسلم بھی بنیادی ضرورت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ سب اخراجات بیت المال کے ذمے ہوتے ہیں۔حدیث شریف میں ہے کہ گھر ، کپڑا ، روٹی اور پانی انسان کی بنیادی ضروریات ہیں (ترمذی)۔ (۹)۔ بیت المال کی جو آمدنی بنیادی ضروریات سے بچ جائے اسے رفاعِ عامہ ، سڑکوں ، پلوں کی تعمیر ، بجلی ، پانی اور سوئی گیس کی فراہمی پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ ملکی اور عوامی اصلاح و ترقی کے لیے ہر وہ کام جائز ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو۔ سرکاری آمدنی و اخراجات کی اس تفصیل کو مغربی اصطلاح میں مالیاتِ عامہ(Public Finance)کہتے ہیں۔ (۱۰)۔مالیاتی پالیسی (Fiscal Policy):طلب اور رسد کے توازن سے قیمت مقرر کرنے میں یہ خامی ہے کہ اگر طلب زیادہ ہو تو مہنگائی بڑھ جاتی ہے اور اگر رسد زیادہ ہو تو ذخیرہ اندوزی شروع ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام قیمتوں کا تعین لاگت پر مناسب منافع لگا کر کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص کثیر منافع خوری سے باز نہ آئے تو دوسرے تاجر اسے اپنے ریٹ کے ذریعے کم منافع لینے پر مجبور کر دیں گے۔ اور اگر تمام تاجر کثیر منافع خوری پر متفق ہو جائیں اور اجارہ داری قائم ہونے لگے تو حکومت اخلاقی طریقہ سے بڑھ کر ڈنڈا بھی استعمال کر سکتی ہے۔ البتہ اگر مہنگائی مصنوعی اسباب کی بجائے قدرتی وجوہات سے پیدا ہو جائے مثلاً قحط پڑ جائے یا پیدائش پر خرچ زیادہ آ رہا ہو تو ایسی صورت میں تاجروں پر پابندی لگانا اور ریٹ مقرر کرنا ظلم ہے۔ ایک مرتبہ قحط پڑا تو نبی کریم ا سے لوگوں نے عرض کیا کہ چیزوں کے ریٹ مقرر فرما دیں۔ آپ ا نے فرمایا اﷲ ایسے کام کے بارے میں مجھ سے پوچھے گا جس کا اس نے مجھے حکم نہیں دیا اور میں اسے اپنی طرف سے رائج کر دوں۔ تم لوگ اﷲ سے قحط ختم کرنے کی دعا مانگو (کنز العمال )۔ (۱۱)۔اسلامی ضابطے میں زکوٰۃ اور ٹیکس دونوں بلا واسطہ(Directly) وصول کیے جاتے ہیں تاکہ اس کا اثر قیمتوں پر نہ پڑے۔ اسلامی نظام میں معیاری قیمت اور بازاری قیمت میں بہت کم فرق ہوتا ہے۔ (۱۲)۔ماتحتوں یاملازموں بارے نبی کریم ا نے فرمایا :تمہارے ما تحت تمہارے بھائی ہیں۔ اﷲ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے۔ جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ خودکھائے اسی میں سے اسے بھی کھلائے۔ جو کچھ خود پہنے اسی میں سے اس کو بھی پہنائے۔ ان کی برداشت سے زیادہ ان سے کام نہ لے۔ اگر کام زیادہ ہو تو اس کا ہاتھ بٹائے(مسلم )۔اسلام کا نظامِ عدل و انصاف ایسا عظیم اور شفاف ہے کہ ایک مزدور ، بادشاہِ وقت کے خلاف بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ فیصلہ جلد اور منصفانہ ہوتا ہے۔ اس سے مزدور کی مشکلات بہت کم ہو جاتی ہیں اور مزدور انجمنوں اور تنظیموں کے ذریعے ہڑتالوں اور نعرہ بازیوں کی نوبت نہیں آتی۔ (۱۳)۔اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام :سرمایہ دارانہ نظام (capitalism)میں زکوٰۃ ، صدقہ اور رحم و کرم نام کی کوئی چیز بلکہ شرافت نام کی بھی کوئی چیز نہیں۔ کاروباری آدمی صرف اور صرف سُود کی زبان میں بات کرتا ہے۔ سٹّہ کا کاروبار مکمل طور پر جائز ہوتا ہے۔ اِن وجوہات کی بنا پر امیر اور غریب کا درمیانی فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ یہ نظام اس وقت امریکہ میں رائج ہے۔ اسلام زکوٰۃ و صدقات کو نافذ کرتا ہے۔ سُود سے منع کرتا ہے اور سٹہ کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ جس سے امیر اور غریب کا درمیانی فاصلہ کم ہو جاتا ہے۔ (۱۴)۔اسلام اور اشتراکیت :سرمایہ دارانہ نظام کی ضد اشتراکیت ہے۔ امیر اور غریب کا امتیاز ختم کرنے کے لیے مادہ پرستانہ دماغ نے یہ سوچ لڑائی کہ ذاتی ملکیت کو ختم کر کے پوری معیشت سرکاری تحویل میں لے لی جائے اور سب لوگوں میں مساوات قائم کر دی جائے۔ ایک انتہا کا جواب دوسری انتہا سے دیا گیا۔ اس کے برعکس اسلام ذاتی ملکیت کو اﷲ کی تقسیمِ رزق کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔: لوگوں میں معیشت ہم نے تقسیم کی ہے(زخرف)۔ ایک اور جگہ فرمایا : اﷲ نے تمہیں ایک دوسرے پر رزق میں فضیلت دی (النحل)۔ معلوم ہوا کہ اشتراکیت کی بھونڈی مساوات اس کائنات کے نظام کی حکمتوں اور مصلحتوں کو نہ سمجھنے کی بنا پر اختیار کی گئی ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ زکوٰۃ ، حج ، قربانی ، فطرانہ ، تقسیم ِمیراث وغیرہ کے مسائل سب کے سب ذاتی ملکیت پر موقوف ہیں لہٰذا اشتراکیت کا بطلان بالکل واضح ہے۔ (۱۵)۔بھیک مانگنا :نبی کریم ا نے فرمایا صرف تین آدمیوں کو سوال کرنے کی اجازت ہے۔ پہلا وہ شخص جو دیت وغیرہ کے بوجھ تلے دب جائے۔ وہ اپنی ضرورت پوری ہونے تک سوال کر سکتا ہے۔ دوسرا وہ شخص جسے کوئی ناگہانی آفت آ پڑے اور وہ اُجڑ جائے۔ یہ بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے تک سوال کر سکتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جس کے حالات ایسے ہو جائیں کہ فاقوں کی نوبت آجائے اور اس کے حالات جاننے والے تین بندے اس کی تنگدستی کی گواہی دیں۔ یہ بھی اپنی ضرورت پوری ہونے تک سوال کر سکتا ہے۔ ان تینوں کے علاوہ جو بھیک مانگتا ہے وہ حرام کھاتا ہے(مسلم )۔یہ باتیں بھیک مانگنے والوں کے پڑھنے اور عمل کرنے کی ہیں۔ اسکے برعکس بھیک دینے والوں کو یہ حکم ہے کہ وہ حسن ظن سے کام لیں۔ اگر کچھ پاس ہو تو دے دیں اگر نہ ہو تو معذرت کر لیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ اے آدم کے بیٹے خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا(مسلم ) ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ کسی کے حالات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا خواہ مخواہ باتیں سنانا غلط ہے۔ بلکہ سیدنا غوث اعظم شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ ’’جو حق دار ہے اس پربھی خرچ کر اور جو حق دار نہیں ہے اس پر بھی خرچ کر ،تا کہ تجھے وہ کچھ بھی عطا ہو جس کا تو حق دار ہے اور وہ بھی عطا ہو جس کا تو حق دار نہیں ہے(جلاء الخواطر)۔ (۱۶)۔مصنوعی غربت :عام طور پر انسان کے لیے دو وقت کی روٹی ، کپڑوں کے ایک یا دو سوٹ ، ایک جوتا اور رہنے کے لیے چھوٹا سا ہوادار گھر کافی ہوتا ہے۔ آج ہم نے تین وقت کا کھانا ، تینوں ٹائم سالن کا استعمال ، کپڑوں کے کئی کئی سُوٹ اور کئی کئی جوتے ، رہائش کے لیے اُونچی اُونچی عمارتیں ، فریج اور ٹی وی کو اپنا بنیادی حق سمجھ کر نہ صرف اپنے اوپر مصنوعی غربت طاری کر لی ہے بلکہ بسیار خوری ، سالن بازی اور ٹھنڈے پانی کے ذریعے اپنی صحت بھی برباد کیے بیٹھے ہیں۔ جن لوگوں نے دین سمجھ کر سادگی اور شرافت کو اختیار نہیں کیا ، آج وہ حالات کے ہاتھوں پریشان ہو کر سادگی اور شرافت کی طرف پلٹنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔

 
Pir Muhammad Tabasum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabasum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabasum Bashir Owaisi: 40 Articles with 69315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.