سورۃ قریش
چار آیتوں پر مشتمل یہ مکی سورت ہے۔
مکہ مکرمہ میں کھیتی باڑی اور باغات نہیں تھے اسلئے قریش کی گزر اوقات کا
ذریعہ صرف تجارت تھی اور عرب میں تجارتی سفر محفوظ نہیں تھے کیونکہ وہاں
لوٹ مار اور قتل وغاری عام تھی،جگہ جگہ ڈاکوؤں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اور وہ
دن دہاڑے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے قریش کو کعبہ کی وجہ
سے ایسی عزت دے رکھی تھی کہ لوگ ان پر ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے،اسلئے وہ امن
وسکون کے ساتھ گرمیوں کے موسم میں شام کے تجارتی سفر پر جاتے کیونکہ وہاں
کو موسم ٹھنڈا تھا اور سردیوں کے موسم میں یمن کے تجارتی سفر پر جاتے
کیونکہ وہاں کا موسم گرم تھا اور اہل مکہ کی خوراک کیلئے غلہ وغیرہ لے
آتے۔اگر اللہ تعالیٰ قریش پر احسان نہ کرتا اور ابرہہ کعبہ کو گرا دیتا تو
عرب میں قریش کا احترام باقی نہ رہتا اور پھر ان کے تجارتی سفر بھی محفوظ
نہ رہتے،لہذا ان دونوں سورتوں میں قریش کو اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد
کرائے جارہے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سفروں کو محفوظ نہ بناتا تو وہ
بھوکے مر جاتے،لہذا انہیں چاہئے کہ وہ ناشکری نہ کریں اور بیت اللہ کے رب
یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں جس نے انہیں کعبہ کی وجہ سے تجارتی سفروں
میں امن وسکون عطا فرمایا اور تجارت کے ذریعے ان کی بھوک کا مداواکیا۔
حضرت واثلہ بن اسقعؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا:بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکی اولاد میں سے حضرت اسماعیل
ؑکو چن لیا اور حضرت اسماعیل ؑکی اولاد میں سے بنی کنانہ کو چن لیا اور بنی
کنانہ سے قریش کو چن لیا اور قریش سے بنی ہاشم کو چن لیاا ور بنی ہاشم سے
مجھے چن لیا۔(ترمذی)
ترجمہ:
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔
قریش کو رغبت دلانے کے سبب سے۔(۱)انہیں جاڑے(یعنی سردی،میں یمن کی طرف)اور
گرمی(میں شام کی طرف)کے(تجارتی) سفر سے مانوس کر دیا۔(۲)پس انہیں چاہئے کہ
اس گھر(خانہ کعبہ)کے رب کی عبادت کریں (تاکہ اس کی شکر گزاری ہو)۔(۳) جس نے
انہیں بھوک(یعنی فقروفاقہ کے حالات)میں کھانا دیا(یعنی رزق فراہم
کیا)اور(دشمنوں کے)خوف سے امن بخشا(یعنی محفوظ ومامون زندگی سے نوازا)۔(۴)
|