حج ایک ایسی عبادت ہے ، جو ہمیں اجتماعیت، اتحادیت کا درس
دیتی ہے، رنگ و نسل کا امتیاز ہو، چاہے ذات پات کا اختلاف ہو، سب کو ختم کر
دیتی ہے۔ اس عبادت کی جہاں بے شمار فضیلتیں ہیں ، وہیں اس میں بے شمار
حکمتیں بھی پوشیدہ ہیں۔
*حج کا لغوی معنی:*
حج کا لغوی معنی ’’القصد‘‘ (ارادہ کرنا) ہے۔
*حج کا اصطلاحی معنی:*
هُوَ عِبَارَةٌ عَنِ الْاَفْعَالِ الْمَخْصُوْصَةِ مِنَ الطَّوَافِ
وَالْوُقُوْفِ فِي وَقْتِهِ، مُحْرَماً بِنِیَّةِ الْحَجِّ سَابِقاً.
’’حج افعال مخصوصہ مثلاً طواف اور وقوف اپنے وقت میں بحالت احرام پہلے سے
ہی حج کی نیت سے ادا کرنے سے عبارت ہے‘‘۔
*حج کب فرض ہوا؟*
حج ۹ ھ کو فرض ہوا، اور یہ اسلام کا پانچواں رکن ہے۔
*•قرآن کریم میں حج کی فضیلت واہمیت:*
☆وَ للہ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ
سَبِیْلاً
’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی
استطاعت رکھتا ہو‘‘۔
آل عمران: 97
☆ أتموا الحج والعمرۃ للہ (البقرۃ۔۱۹۶)
اور اللہ کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو ۔
☆وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ
ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ(۲۷)لِّیَشْهَدُوْا
مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ
مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ
الْاَنْعَامِۚ-فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئسَ الْفَقِیْرَ٘(۲۸)
(سورةالحج)
اور لوگوں میں حج کا عام اعلان کردو ، وہ تمہارے پاس پیدل اور ہر دبلی
اونٹنی پر(سوار ہوکر) آئیں گے جوہر دور کی راہ سے آتی ہیں ۔ تاکہ وہ اپنے
فوائد پر حاضر ہوجائیں اور معلوم دنوں میں اللہ کے نام کو یاد کریں اس بات
پر کہ اللہ نے انہیں بے زبان مویشیوں سے رزق دیا تو تم ان سے کھاؤ اور
مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ۔
*آغاز حج کی منادی:
•حج اور عمرہ کی منادی تعمیر کعبہ کے بعد ہی کردی گئی تھی اور حضرت ابراہیم
علیہ السلام کو حکم دیا کہ لوگوں کو کعبة اللہ کی طرف بلاؤ .
•حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے عرض کیا: ’’اے میرے رب! میں (بیت اللہ کی تعمیر سے) فارغ ہوچکا
ہوں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اب آپ لوگوں میں حج کاا علان فرما دیجیے۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا:’’اے میرے رب! کیا میری آواز تمام
(لوگوں ) تک پہنچ جائے گی ؟‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’آپ اعلان فرمائیے، آواز پہنچانا ہمارا کام ہے۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا:’’اے میرے رب! میں کیسے اعلان کروں؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:آپ یہ کہیں:’’اے لوگو! تم پر بیت عتیق (یعنی بیت
اللہ) کا حج فرض کیا گیا ہے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلان کیا تو آپ کی آواز کو زمین و
آسمان کے درمیان والوں سب نے سن لیا۔ دیکھتے نہیں کہ لوگ زمین کے دُور
دراز علاقوں سے حج و عمرہ کا تلبیہ پڑھتے ہوئے کس طرح جوق در جوق دیوانہ
وار چلے آتے ہیں۔یہ اسی اعلان کا اثر ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوقبیس
پہاڑ پر چڑھ کر یہ اعلان فرمایس (مستدرک حاکم )( تفسیر مظہری ،سورة الحج
،تحت الآیة ٢٧ تا ۲۸)
•منافع کی تفسیر میں مجاہد بیان کرتے ہیں: دنیا اور آخرت کا منافع مراد ہے
۔ ( رفیق المناسک)
*معلوم دنوں سے کیا مراد ہے:*
ا س کے بارے میں دو قول ہیں:
* ان سے ذی الحجہ کے دس دن مراد ہیں ۔ یہ حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبد اللہ
بن عباس ،حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا قول ہے
اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا مذہب ہے ۔
* معلوم دنوں سے قربانی کے دن مراد ہیں ۔ یہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا قول ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد
رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا بھی اسی کے قائل ہیں ۔ ( البحر المحیط،
الحج ، تحت الآیۃ : ۲۸ ، ۶ / ۲۳۸ ، مدارک، الحج، تحت الآیۃ : ۲۸، ص۷۳۷ )
*حدیث شریف میں حج کی فضیلت و اہمیت:*
*افضل عمل*
*☆وعن ابی ھریرة سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ای العمل افضل؟
قال: ایمان باللہ و رسولہ ، قیل : ثم ماذا؟ قال: الجھاد فی سبیل اللہ ، قیل
: ثم ماذا؟ قال: حج مبرور ۔ متفق علیہ*
رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ نے
ارشاد فرمایا ,,اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ،،پوچھا گیا پھر اس کے
بعد کون سا عمل ؟ فرمایا:اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا ۔دریافت کیا گیا پھر
اس کے بعد ؟ فرمایا مبرور حج ۔
*گناہوں سے پاک:*
☆صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں حدیث شریف ہے:
سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِىَ اللهُ
عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ
: مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ
وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اللہ
تعالیٰ کی رضا کے لئے حج کیا اور (حج کے دوران) کوئی فحش کلام کیا نہ فسق
کیا تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کر لوٹے گا جیسے اُس دن تھا جب وہ ماں کے
پیٹ سے پیدا ہوا۔( بخاری، کتاب الحج، باب فضل الحجّ المبرور ، ۱ / ۵۱۲،
الحدیث: ۱۵۲۱)
*حج و عمرہ محتاجی و گناہوں کو دور کرتے ہیں:*
*عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ
فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِى الْكِيرُ
خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ
الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ ۔*
حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور
پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا
’’حج و عمرہ محتاجی اور گناہوں کو ایسے دور کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے ،
چاندی اور سونے کے میل کو دور کردیتی ہے اور حج ِمَبْرُور کا ثواب جنت ہی
ہے۔( سنن ترمذی، کتاب الحج، باب ما جاء فی ثواب الحجّ والعمرۃ ، ۲ / ۲۱۸،
الحدیث : ۸۱۰ )
* حج مقبول کا بدلہ جنت ہی ہے*
*عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ
كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا ، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ
جَزَاءٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ .*
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمائے ہیں کہ ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ کرنے
کے درمیان جتنے (صغیرہ ) گناہ ہوئے ہوں وہ معاف ہوجاتے ہیں اور حج مقبول کا
بدلہ جنت ہی ہے۔ اس کی روایت بخاری اور مسلم نے متفقہ طور پر کی ہے۔
(صحیح بخاری،کتاب العمرۃ، باب وجوب العمرة وفضلها .حدیث نمبر:1773۔صحیح
مسلم،کتاب الحج، باب فى فضل الحج والعمرة ويوم عرفة.حدیث نمبر:3355)
*اللہ کے مہمان:*
سنن نسائی اورشعب الایمان میں حدیث شریف ہے:
۔۔۔ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ : وَفْدُ اللَّهِ ثَلاَثَةٌ :الْغَازِى وَالْحَاجُّ
وَالْمُعْتَمِرُ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے کہ تین شخص اللہ
تعالی کے مہمان ہیں:(1)جہاد کرنے والا (2)حج کرنے والا (3)عمرہ ادا کرنے
والا۔
اس کی روایت نسائی نے کی ہے اور بیہقی نے بھی اس کی روایت شعب الایمان میں
کی ہے۔
(سنن نسائی،کتاب مناسك الحج،باب فضل الحج.حدیث نمبر:2637۔)
*خواتین کے لئے حج کا سفر ہی جہاد ہے:*
صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں حدیث شریف ہے:
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا قَالَتِ
:اسْتَأْذَنْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِى الْجِهَادِ
. فَقَالَ : جِهَادُكُنَّ الْحَجُّ ۔
ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں
کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جہاد پر جانے کی اجازت طلب
کی(کہ اگر آپ حکم دیں تو میں بھی جہاد کے لئے نکلوں)تو حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے (یہ سن کر)ارشاد فرمایا کہ تم خواتین کے لئے حج کا سفر ہی
جہاد ہے (اس لئے تم عورتوں کو جہاد کے لئے نکلنے کی ضرورت نہیں۔)
اس حدیث کی روایت بخاری اور مسلم نے متفقہ طور پر کی ہے۔
(صحیح بخاری،کتاب الجہاد،باب جهاد النساء ،حدیث نمبر:2875۔)
*حج کی حکمت و فلسفہ:*
اللہ کریم نے ہر عبادت میں ہمارے لیے کوئی نہ کوئی حکمت ضرور رکھی ہے جیسے
نماز ہمیں متحد ہونا اور وقت کا پابند بناتی ہے۔
حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں تمام ارکان دینیہ شامل ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس
کے فوائد و ثمرات بھی کئی زیادہ ہیں، اور کیوں نہ ہو اس میں تمام ارکان
دینیہ کی حکمتیں جو یکجا ہوجاتی ہیں ۔
حج میں جب دور دراز سے لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، تو عربی و عجمی کا کوئی
فرق نہیں رہتا ، سب ایک قوم ایک اللہ کے ماننے والے بن جاتے ہیں ، اس
اجتماع سے مسلمانوں میں باہمی محبت و الفت پیدا ہوتی ہے ۔
یاد رکھیے حج میں ایسے اسرار و روموز پوشیدہ ہیں کہ اگر مسلمان سمجھ لیں تو
وہ پھر سے ایک متحد قوم بن کر ابھر سکتی ہے۔
حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں عبودیت کے اظہار کے ساتھ ساتھ نعمت کا شکر بھی
ہے ، عبودیت کا اظہار اسی وقت ممکن ہے جب بندہ اپنے معبود کے سامنے عجز و
انکساری کے ساتھ حاضر ہو، اور حج میں عجز و انکساری کا اظہار ہوتا ہے۔ حج
نعمت کا شکر بھی ہے وہ اس طرح جب بندے کے پاس مال واسباب ہوتا ہے تو وہ حج
کے لیے سفر باندھتا ہے اور جو صحت اسے ملی ہے اسی نعمت کی بدولت اس سفر کی
صعوبتوں کو برداشت بھی کرتا ہے، تو یہ عمل اس کے شکر شمار ہوگا۔
حج ایک ایسی سعادت ہے جس کا اثر سب پر ہوتا ہے۔
(مراجع ، تفسیر ابن کثیر، تفسیر مظہری ، تفسیر در منثور، تفسیر تلخیص تبیان
القرآن ، رفیق المناسک، کیمیائے سعادت، شریعت اسلامیہ کی حکمت و فلسفہ)
|