موبائل فون اور اسکا استعمال ہمارے لیے اس قدر ضروری ہو
گیا ہے کہ جیسے سانس لینا ،جسکو بھی دیکھو جس طرف بھی دیکھوں لڑکے ، لڑکیاں
،دھڑا ،دھڑ سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہوتے ہیں ۔ٹچ موبائل ہاتھوں میں
ہوتا ہے ۔ ہماری شکل چاہے دھوئی ہو یانہ دھوئی ہو ، کپڑے اچھے ہوں یا نہ
ہوں ، جو تا چاہے پھٹا پرانا ہی کیوں نہ ہو ۔ موبائل ٹچ ہونا چاہیے ۔ Face
Book،imo،whats app،messenger،Twittorوغیرہ چلتا ہی رہتا ہے اور تو اور آج
کل تو Tik Tokنے ہر کسی کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے ۔ ان تمام Appsکے ساتھ
ساتھ اپنی تصویرں بھی مختلف انداز و اقسام کی کھینچ کر سوشل میڈیا کی دنیا
میں گند ڈالنا اپنا شیوا بنا لیا ہے۔ ہماری مختصر مدت کی یادداشت میں اکثر
وہ چیزیں محفوظ ہوتی ہیں ۔ جنکو ہمیں زیادہ دیر تک کوئی خاص ضرورت نہیں
ہوتی ۔ جیسے سڑک پر چلنا ، سڑک سے گزتا ہوا نیلے رنگ کا رکشہ یا سڑک پر
دھوڑتی ہوئی پیلے رنگ کی ایک خوبصورت سی ٹیکسی ، اسکے علا وہ ہمارے آگے
پیچھے دوڑتے ہوئے سائن بورڈ یا پھر دیدہ زیب چمکتے دمکتے اشتہارات ، یہ سب
شارٹ ٹرم میموری میں آتے ہیں ۔ کیونکہ یہ ہماری نظروں کے سامنے پل بھر میں
یعنی چشم زدن میں گذر جاتے ہیں اور پھر ہمیں یاد بھی نہیں رہتے ۔ ان سب کو
ہم شارٹ ٹرم میموری کہتے ہیں۔ جو تھوڑے وقت کیلئے ہمارے دماغ صرف سیلفی
لینے اوراسکے بعد اس سیلفی کو اپنی فیس بک آئی ڈی پر اورمختلف گرو پس میں
شیئر کر دیتے ہیں اورباقی دنیا جہان کے کام بھول جاتے ہیں ۔
افریقی ملک کا نگو میں ہے ۔ ’’ویر نگوا نیشنل پارک ‘‘ جہاں ہزاروں جانور
محفوظ اور آزاد زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان میں گوریلے بھی شامل ہیں۔ا یک
خبرکے مطابق یہ گوریلے اپنے نگرانوں کے ساتھ خوشی خوشی تصاویریں بنواتے ہیں
بلکہ انکی سیلفی میں شامل ہوتے ہوئے پوز بھی دیتے ہیں ۔ ڈارون کے نظریے کے
مطابا گوریلے انسانوں کے اسلاف ہیں تو پھر انہیں بھی آج انسانوں کی طرح
سیلفی کا شوق کیوں نہ ہو؟ سیلفی کا سلسلہ موبائل فون میں کیمرے کی سہولت
سمانے کے بعد سے شروع ہوا ۔ اسمارٹ فون نے ’’سیلفیانے ‘‘ کے شوق کو جنون
میں بدل ڈالا ، آئینے کے بارے میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ یہ سچ
بولنا ہے حالاں کہ صرف وہی آئینہ سچ بولتا ہے جودوسرا دکھائے اور اس سچ
بولتے آئینے کو دیکھ کر دیکھنے والے کا خون کھولتا ہے ۔ جو آئینہ خود دیکھا
جائے اس میں خود کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے لوگ اپنے حُسن سے بے خود ہو جاتے
ہیں ۔ سیلفی کی دوقسمیں ہیں ایک وہ ’’سیلفیش ‘‘سیلفی ہوتی ہے ۔ جس میں صرف
صاحب سیلفی کا رُخ روشن کی طرح نظر آرہا ہو اور اس کے سوا سب کو ڈرا اور یہ
عبرت دلا رہا ہوتاہے کہ] خود کو قریب سے دیکھنا کتنا خوف ناک ہوتا ہے ۔د
وسری قسم کی سیلفی ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ‘‘ کی عکا
سی ہوتی ہے ۔ یہ لکھتے ہوئے ہمارے ذہن میں بی بی قندیل بلوچ کی وہ سیلفی
نہیں جس میں مفتی قوی صاحب اپنے سارے تقوے کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اور نہ
ہی حریم شاہ کی وہ سیلفیاں ہیں جو اُس نے تحریک انصاف کے وزیروں اور مشیروں
کے ساتھ لیں ہیں ۔
سیلفی لینا بعض لوگوں کے لئے سانس لینے کے مترادف ہے ۔ لگتا ہے کہ ان
خواتین و حضرات کو کسی پر اعتبار ہویا نہ ہو اپنے ذاتی منہ پر ذرا اعتبار
نہیں ۔ خیر بات ہو رہی تھی سوشل میڈیا کی اگر ہٹلر کے دور میں سوشل میڈیا
ہوتا تو کیساہوتا؟
یہ ہٹلر صاحب بھی عجیب ہیں اتنے عجیب تو وہ تھے ہی کہ خود کو مع مبینہ اہل
اور دوسروں کے عیال تباہ کر لیا ۔ مگر یوں بھی عجیب ہیں کہ دنیا ان سے نفرت
کرتی ہے لیکن انکا تذکرہ بھی ہوتا رہتا ہے ۔ ان سے نفرت کرنے والوں کے ساتھ
ایسوں کی بھی کمی نہیں جو فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم دیکھ کر کہہ اُٹھتے
ہیں ۔ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد ۔کچھ عرصہ قبل موصوف کانام نامی مشہور
زمانہ والٹ ڈزنی کمپنی کے CEOبوب ایگر کی زبان پر آیا ہے ۔ جو کہتے ہیں کہ
’’ریڈولف ہٹلر اگر ہوتا تو سوشل میڈیا سے محبت کرتا ۔ کیوں کہ یہ اُسکے
انتہا پسند انہ افکار پھیلانے کا ایک ذریعہ بنتا ہے ۔
ذرا سوچئے ! ہٹلر کے دور میں سوشل میڈیا ہوتا یا سوشل میڈیا کے دور میں
ہٹلر ہوتا تو کیا ہوتا تو کیا ہوتا ؟ہٹلر کے حامی فیس بک پر اس قسم کی
پوسٹیں کر رہے ہوتے ۔’’ہم نہیں ہمارے بعد ……ایڈولف ایڈولف جب آپ اس پوسٹ کو
شیئر کریں گے تو شیطان آپکو روکے گا۔ نازی پارٹی کے ارکان ایسی تصویریں
ہٹلر کی ٹوئیٹر اورفیس بک پر سامنے لاتے کے دیکھنے والوں پر رقت طاری ہو
جاتی ہم جیسے حساس لوگ تو دھاڑیں مار کر رونے لگتے ۔ کسی تصویر میں ہٹلر
صاحب فٹ پاتھ پر سوتے نظر آتے تو سکی میں اُنکے کوٹ کا سوراخ انکی دیانت
داری کا ثبوت پیش کر رہا ہوتا اور کسی تصویر میں وہ اپنی بیویوں کے متعلق
چھوڑ جانے پر افسردہ نظر آتے ۔
جرمنوں کو انگریزوں یا فرانسیسیوں کے خلاف اُکسانے کیلئے ’’ جاگ جرمن جاگ‘‘
تیری پکھ نوں لگ گیا داغ ۔جیسے نعرے سماجی میدیا کی زینت بن رہے ہوتے ہیں ۔
ہٹلر کے دور میں جرمن مہنگائی پر بلبلا اُٹھتے تو اُس کی طرف اداروں کی پو
سٹیں کچھ یوں ہوتیں ۔
’’مہنگائی پر واویلا کیوں ‘‘ چور لٹیرے حکمرانوں سے عوام کا پیسہ بچانے
کاطریقہ یہی ہے کہ عوام کے پاس کچھ بھی نہ رہے ۔ ہٹلر کے جیالے ، متوالے
اور کھلاڑی اُسے امن کا سفیر قرار دیتے ہوئے بھی نہ شرماتے اورسماجی ویب
سائٹس پر یہ کہتے نظر آتے کہ ۔قوم کے عظیم قائد محترم عزت مآب جناب ایڈولف
ہٹلر جنگ سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔ اس لیے وہ اپنے ہر مخالف کو مٹا دینا
چاہتے ہیں تاکہ جنگ کا کوئی امکان ہی نہ رہے ۔ ۔نازی افوا ج کی روس پر حملے
میں بد ترین ناکامی اور تباہی پر اس قسم کے ٹوئٹس دیکھنے کو ملتے ’’ واہ
ہمارے قائد کی دانش ، فوجیوں کی تعداد گھٹا کر دفا عی اخراجات کم کرنے کا
اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہو سکتا تھا ۔ معاملہ صرف ستائش تک نہ رہتا بلکہ
ہٹلر پر تنقید کرنے والوں کو اسکے چاہنے والے سوشل میڈیا پر ہر گالی سے
نواز رہے ہوتے ۔ نازی حکومت سے متعلق منفی خبریں دینے والے صحافی دشمنوں کے
ایجنٹ اور غداری کے القاب پا رہے ہوتے ۔ بات صرف گالیوں اور الزامات تک نہ
رہتی ۔ بلکہ فیس بک کی پوسٹ گیس ، چیمبر کا ہوسٹ بنا دیتی ۔
|