جمعہ نامہ: غریب و سادہ و رنگیِں ہے داستانِ حرم

امسال حج کی تصاویر اور ویڈیوز حیران کن تھیں ۔کسی نے سوچا نہ تھا کہ یہ ہوسکتا ہے لیکن ہوگیا مگریقین ہے کہ پھر سے ایسا نہیں ہوگا۔ وقت بدلے گا ۔ اللہ کا شکر ہے کورونا کی وبا کے باوجود فریضۂ حج بخیر خوبی ادا ہوگیا۔ مملکتِ سعودیہ کے اندر مقیم 160 ممالک کے شہریوں کو اس سال یہ سعادت نصیب ہوئی ۔ان میں سے 70 فیصد کا تعلق بیرون ملک سے تھا جبکہ 30 فیصد مقامی باشندے تھے۔ حکام نے صحت عامہ کے پیش نظر اسلامی تعلیمات کے مطابق سماجی فاصلہ اور دیگر ضروری اقدامات کو یقینی بنایا۔حرمین شریفین کے معروف محقق محی الدین الہاشمی کے مطابق ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو کعبے کی خدمت یعنی بیت اللہ کو کھولنا ، بند کرنا ، صاف کرنا ، غسل دینا ، اس کا غلاف چڑھانا و درست کرنا ، مقامِ ابراہیم کی نگرانی اور بیت اللہ کے زائرین کا استقبال کی ذمہ داری سونپی تھی۔ حضرت اسماعیلؑ کی وفات کے بعدیہ کام جرہم قبیلے سے خزاعہ تک پہنچا اور بالآخر قصی بن کلاب یعنی اسماعیلؑ کے خاندان میں لوٹ آیا ۔ ان کے تین بیٹوں میں سے سب سے بڑے عبدالدار یعنی بنو شیبہ کے جد امجد کو انہوں نے کلید بردار بنایا اور عبد مناف یعنی رسول اللہ ﷺ کے جدِّ امجد کو کعبے کی خدمت اور دیگر متعلقہ ذمے داریاں جیسے زائرین کو پانی پلانے اور کھانا کھلانےکا کام سونپ دیا۔

دورِ نبوتؐ میں موروثی طور پر کلید برادری عثمان بن طلحہ تک پہنچی ۔ عثمان بن طلحہ ؓ فرماتے ہیں کہ ’’ایام ِ جاہلیت میں ہم پیر اور جمعرات کے روز خانہ کعبہ کا دروازہ کھولتے تھے۔ ایک روز رسول اللہ ؐ لوگوں کے ساتھ کعبے کے اندر داخل ہوئے تو میں اللہ کے نبی کو زبردستی باہر لے آیا‘‘۔اس وقت انھو ں نے مجھ سے فرمایا ’’ اے عثمان ایک روز تُو اس چابی کو میرے ہاتھ میں دیکھے گا‘‘۔ روایات میں آتا ہے کہ : عثمان نے کہا: ’’یہ تب ہوگا، جب قریش ہلاک اور ذلیل ہوجائیں گے‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ناممکن ہے ۔ آپؐ نے فرمایا:نہیں! بلکہ اس دن قریش زندہ ہوں گے اور عزت پائیں گے‘‘۔ اس کے بعد آپؐ خانہ کعبہ میں داخل توہوگئے مگر یہ بات عثمان کے دل میں جم گئی اور انہیں یقین ہوگیا چونکہ آپؐ نے فرمایا دیا اس لیے ہوکر رہے گا۔ ہجرت سے قبل رسولؐ نےعثمان بن طلحہ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے جواب دیا تھا اے محمدؐ ! تعجب ہے کہ آپؐ چاہتے ہیں کہ میں آپ ؐ کی پیروی کروں ، حالاں کہ آپؐ نے اپنی قوم کے دین کی مخالفت کی ہے اور ایک نیا دِین لےآئےہیں لیکن وقت نے پلٹا کھایا ۔صلح حدیبیہ کے بعد عثمان بن طلحہؓ ، عمرو بن العاص ؓاور خالد بن ولید ؓ کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوگئے تو آپ ؐ نے صحابہ سے فرمایا آج مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے حوالے کر دیئے ہیں۔

مکہ فتح ہوا تو آپ ؐنے فرمایا: عثمان ! چابی لاؤ ۔ چابی حاضر کی گئی۔ آپؐ نے وہ چابی اپنے ہاتھ میں لی،پھر یہ کہتے ہوئے واپس کردی کہ : یہ چابی لو، یہ ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی۔ اگر کوئی تم سے چھینے گا تو وہ ظالم ہوگا۔ حضرت عثمانؓ مڑے تو، آپؐ نے فرمایا:’’ کیا وہ بات نہیں ہوگئی، جو میں نے کہی تھی ۔‘‘ عثمان بن طلحہ ؓ نے کہا : ’’جی ہاں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اﷲ کے رسولؐ ہیں‘‘۔بیت اللہ کی کلید آج بھی بنو شیبہ کےشیخ ڈاکٹر صالح بن زین العابدین الشیبی کے پاس ہے۔ بابری مسجد کے مقام کو فی الحال اسی طرح بت خانہ بنایا جارہا ہے جیسے کسی زمانے میں خانۂ کعبہ کو بنادیا گیا تھا ۔ سنگھ پریوار کی خام خیالی ہے کہ اب وہاں ہمیشہ بت پرستی ہوگی یہی گمان عثمان بن طلحہ کو بھی تھا۔ آج مسلمانوں کوبابری مسجد میں عبادت کرنے سے اسی طرح روک دیا گیا جیسے نبی کریم ﷺ کو روکا گیا تھا لیکن نبی کریمؐ کے ایمان و توکل اتنا مستحکم تھا کہ آپ بددل یا مایوس نہیں ہوئے ۔ آپ ؐ کو یقین تھا کہ یہ دین غالب ہوگا اس لیےہر آزمائش میں صبر و استقامت سے ڈٹے رہے،اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ کی نصرت اور فتح مبین نے قدم چوم لیے۔ یہی وعدہ امت کے لیے بھی ہے لیکن ہمیں بھی شاہراہ اسلام پر حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت حسین ؓ کی طرح ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ؎
غریب و سادہ و رنگیِں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعِیلؑ
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448573 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.