اسلام کی تاریخ شہداء کے خون سے معنون ہے ، تاریخ اسلام
کا کوئی باب ایسا نہیں جو شہید کے خون سے رنگین نہ ہو ۔اسلامی سال کا آغاز
ہی شہادتوں سے ہوتا ہے اور یہ ہجری کیلنڈر اسلام کے متوالوں کو شہیدوں کی
قربانیوں سے روشناس کراتا ہوا قربانی پر جا کر ختم ہوتا ہے ۔
محرم الحرام جو اسلامی سال کا ماہ اول ہے اس کی پہلی تاریخ امیر المومنین
حضرت سیدنا فاروق اعظم ؓ کے بہتے ہوئے خون کی شہادت دیتی اور دس محرم نواسۂ
رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ،جگر گوشہ بتولؓ حضرت سیدنا حسینؓ اور ان کے بے بس و
بے کس اعوان وانصار کمسن شیر خوار بچوں راج دلارے بیٹوں کی کربلا کے
ریگزاروں میں مظلومانہ شہادت کو اپنے دامن میں پنہاں کیے ہوئے ہے ۔حضرت
حسینؓ کی شہادت بھی دوسرے صحابہؓ کی شہادت کی طرح اہل ایمان کیلئے درس حیات
ہے ، اہل سنت والجماعت ،اہل بیت اور اصحاب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم دونوں کی
محبت وعقیدت کے بندھن سے بندھے ہوئے ہیں۔اصحابؓ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم واہل
بیت کے عشق مؤدت کو حرز جان سمجھتے ہیں ۔اور ان کے عشق کو نجات و مغفرت کا
ذریعہ اور ان کی عداوت ونفرت کو تباہی وخسران کا راستہ ……انکی محبت کو
ایمان ،ان کی دشمنی کو کفر سمجھتے ہیں ۔
نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ،جگر گوشہ بتولؓ سیدنا حسین ابن علی ؓ 5شعبان
4ھ مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے اور دہن حسینؓ میں مقدس ’’لعاب نبوت‘‘ڈالا
حسین نام رکھا ’’گودِزہرا رضی اﷲ عنہا ‘‘ میں آنکھ کھولی آغوش مصطفیٰ میں
کھیلے ، شیر خدا کی نظروں میں تربیت کے مراحل طے کئے ۔حسن وجمال شرم
وحیا،جرأت وشجاعت، علم وحلم، جودوسخا، تسلیم ورضا، فہم ودانش تمام خصائل
حمیدہ اوصاف حسنہ ،وراثت میں ملے ۔آپ شبیہ مصطفیٰ تھے اور رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی محبت کا محور ومرکز اور جری وبہادر تھے ۔
مشکوٰہ شریف میں ہے ’’اذن اذینھما‘‘ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کے
کانوں میں آذان دی ۔ منہ میں لعاب دہن ڈالا اور آپ کیلئے دعا فرمائی پھر
ساتویں دن آپ کانام حسینؓ رکھا اور عقیقہ کیا ۔ حضرت حسینؓ کی کنیت ابو
عبداﷲ او رلقب سبط رسول وریحانۃ الرسول ہے ۔حدیث شریف میں ہے رسول کائنات
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کے نام
شبر اور شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا نام انہیں کے نام پر حسن
وحسینؓ رکھا ہے اسی لیے حسنین کریمین کو شبر وشبیر کے نام سے بھی یاد کیا
جاتا ہے ۔سریانی زبان میں شبر وشبیر اور عربی زبان میں حسن وحسین دونوں کے
ایک معنی ہیں ۔ایک حدیث میں آیا ہے ’’الحسن والحسین اسمان من اھل الجنۃ
‘‘حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں، عرب کے زمانہ جاہلیت میں یہ
دونوں نام نہیں تھے ۔ ابن الاعرابی حضرت مفضل سے روایت ہے کرتے ہیں کہ اﷲ
تعالیٰ نے یہ نام مخفی رکھے یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے
نواسوں کے نام حسن اور حسین رکھے ۔حضرت ام الفضل بنت الحارث رضی اﷲ عنہا
یعنی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی چچی حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ کی
زوجہ محترمہ ایک دن حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور
عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! آج میں نے ایک ایساخواب دیکھا ہے جس
سے میں ڈر گئی ہوں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے کیا دیکھا ہے ؟
انہوں نے عرض کیا وہ بہت سخت ہے جس کے بیان کی میں اپنے اندر جرات نہیں
پاتی ۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو تو انہوں نے عرض کیا میں
نے یہ دیکھا ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا کاٹ کر
میری گود میں رکھا گیا ہے ۔ارشاد فرمایا: رایت خیرا ‘‘تمہارا خواب بہت اچھا
ہے ۔اس کی تعبیر یہ ہے میری لخت جگر فاطمہؓ کے ہاں بیٹا پیدا ہوگاوہ تمہاری
گود میں دیا جائے گا ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرت حسینؓ پیدا ہوئے اور حضرت ام
الفضلؓ کی گود میں دیئے گئے اور ام فضل گود میں لے کر بارگاہ رسالت صلی اﷲ
علیہ وسلم میں پہنچی ۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں حضرت حسنؓ سینہ سے لے کر سر مبارک تک
سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشابہ تھے اور حضرت حسینؓ قدموں سے لے
کر سینہ مبارک تک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔
امام بخاریؒ نے ابن ابی نعیم سے روایت نقل کی ہے کہ ایک عراقی نے حضرت
عبداﷲ بن عمرؓ سے حرم میں مکھی مار ڈالنے کے بارے میں پوچھا تو میں نے
انہیں یہ جواب دیتے ہوئے اپنے کانوں سے سنا کہ اہل عراق مجھ سے مکھی کے قتل
کا مسئلہ پوچھتے ہیں ، حالانکہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹی
کے فرزند کو قتل کرڈالا ، جس کے بارے میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا:ریحانتنی من الدنیا الحسن والحسین حسن وحسین دنیا میں دونوں میرے
پھول ہیں ۔
ترمذی شریف میں ہے :’’اللھم انی احبھما فاحبھما‘‘ حضور علیہ السلام نے حسنؓ
وحسینؓ کو دیکھ کر فرمایا : اے اﷲ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی
ان سے محبت فرما ،ایک مرتبہ حضورﷺ نے نطق نبوت سے اعلان فرمایا : من سرہ ان
ینظرمن اھل الجنۃ فلینظر الی حسینؓ ابن علیؓ(ابن حبان ،ابن سعد، ابن عساکر)
جس کو کسی جنتی کے دیکھنے کی خواہش ہو وہ حسینؓ ابن علیؓ کو دیکھ لے ۔
حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں حضور علیہ السلام نے فرمایاآج ایک فرشتہ جو اس سے
پہلے کبھی زمین پر نہیں آیا۔ اس نے اپنے رب سے اجازت مانگی ہے کہ مجھے سلام
کرے اور یہ خوشخبری سنائے کہ فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسنؓ اور
حسینؓ نوجوانان جنت کے سردار ہیں ۔(ترمذی)عظمت کے مینار ، رفعت وقسمت کے
تاجدار خانوادۂ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم 55 سال کی عمر میں 10محرم
الحرام 61ھ کوکربلا کے لق ودق صحرا میں اپنے بہتر 72رفقاء کے ساتھ جام
شہادت نوش کیا ۔سبط ابن جوز لکھتے ہیں ۔ایک بوڑھا آدمی حضرت حسینؓ کے قتل
میں شریک تھا وہ اچانک آنکھ کی بینائی سے محروم ہوگیا ۔لوگوں نے سبب پوچھا
تو اس نے کہا میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آستین
چڑھائے ہوئے ہیں ۔ ہاتھ میں تلوار ہے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے
چمڑے کا وہ فرش ہے جس پر کسی کو قتل کیا جاتا ہے ۔اور اس پر قاتلان حسینؓ
میں سے دس آدمیوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں ۔اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے مجھے ڈانٹا اور خون حسینؓ کی سلائی میری آنکھوں میں ڈالی صبح میں بیدار
ہوا تو آنکھوں کی بینائی ختم ہوچکی تھی ۔(اسعاف الراغبین)ابن جوزی لکھتے
ہیں جس شخص نے حضرت حسینؓ کے سر کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا تھا اس
کے بعد اس کو دیکھا گیا اس کا منہ تارکول کی طرح سیاہ ہوگیا ، لوگوں نے
پوچھا ارے تم تو بڑے خوش رو آدمی تھے ،تمہارے چہرے کو کیا ہوگیا؟ اس نے کہا
جس دن سے میں نے سرِ حسینؓ کی بے حرمتی کی جب بھی ذرا سوتا ہوں دوآدمی مجھے
بازوؤں سے پکڑتے ہیں اور مجھے ایک دہکتی ہوئی آگ پر لے جاتے ہیں وہ بدبخت
اسی حالت میں چند دن بعد مرگیا ، قاتلانِ حسینؓ ارضی وسماوی آفات وبلیات کا
شکار ہوکر اپنے انجام کو پہنچ گئے ایک ایک شریک جرم، قاتل ، عبرت کا نمونہ
بن گیا ،جس نے حضرت حسینؓ کو تیر مارا اور پانی نہ پینے دیا اس پر اﷲ نے
ایسی پیاس مسلط کردی کہ کسی طرح اس کی پیاس نہ بجھتی تھی ۔ کتنا ہی پانی
پیتا پیاس سے تڑپتا رہتا،یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹا اور وہ مرگیا۔عمرہ بن
حجاج زبیدی پیاس اور گرمی میں بھاگا پیاس کی وجہ سے بے ہوش ہوکر گر پڑا
۔ذبح کردیا گیا ۔شمرذوی الجوش جو حضرت حسینؓ کے بارے میں سب سے زیادہ شقی
اور سخت تھا اس کو قتل کرکے لاش کتوں کے سامنے ڈال دی گئی۔
|