جمعہ نامہ: جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے

ارشادِ ربانی ہے :’’اور عاد و ثمود کو ہم نے ہلاک کیا، تم وہ مقامات دیکھ چکے ہو جہاں وہ رہتے تھے‘‘۔ قوم عاد کے کھنڈر عمان سے لے کر حضر موت اور یمن تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ان لوگوں نے اپنی رہائش کے لئے بڑے بڑے شاندار محلات تعمیر کررکھے تھے۔ ہر طرح کی جسمانی و مادی نعمتوں سے مالامال یہ قوم قوت و شوکت کے نشہ میں ڈینگ مارتی تھی :’’کون ہے ہم سے زیادہ زور آور؟‘‘۔ کیونکہ :’’ اُن کے اعمال کو شیطان نے اُن کے لیے خوشنما بنا دیا اور انہیں راہِ راست سے برگشتہ کر دیا حالانکہ وہ ہوش گوش رکھتے تھے‘‘۔ کسی خوشحال کا بہک جانا سہل تر ہے۔ امت کو خبردار کر کے نبی کریم ؐنے فرما یا : مجھے تو تم پر سب سے زیادہ خوف اس وقت کا ہے کہ دنیا تمہارے قدموں میں اپنا تمام سازو سامان ڈال دے گی۔ اپنی برکتیں تم پر الٹ دے گی‘‘۔ اہل ایمان کے لیے یہ خطرہ اس قدر شدید ہے تو دوسروں کا کیا کہنا۔ اس کی وجہ انسان کی دنیا کے مال و اسباب کی بابت غلط فہمی ہے۔

ارشادِ ربانی ہے :’’واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سر و سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے ‘‘۔ اس مقصدِ آزمائش سے غافل ہونے والاکافرظلم و جبر کا بازار گرم کردیتاہے اور مظلوم اہل ایمان مرعوب ہوکر انہیں رشک و حسد سے دیکھنے لگتے ہیں ۔ ایسے میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے :’’ دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالےیہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے، پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے‘‘۔ انسان اگر اس بات کو یاد رکھے کہ یہ دنیا اور اس کا عیش آرام ایک دن فنا ہوجائے گا تو وہ نہ اس پر اترائے گا اور نہ اسے محرومی کا قلق ہوگا۔ فرمانِ ربانی ہے: ’’ اور نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو دُنیوی زندگی کی اُس شان و شوکت کو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے‘‘ ۔ کیونکہ رزق حلال کا صحیح استعمال دائمی اجر آخرت کا سامان بن جاتا ہے ۔

انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جو نعمت اسے حاصل ہوتی ہے اس کی ناقدری کرتا ۔ رب کائناتاہل ایمان سے فرماتا ہے:’’ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں، اور تمہیں قرآن عظیم عطا کیا ہے‘‘ ۔ قرآن حکیم جیسی عظیم نعمت سے بہرہ ور ہونے پر خوشیان منانے کی سورۂ یونس میںتلقین کی گئی :’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ جب تک اہل ایمان قرآن حکیم جیسی نعمت عظمیٰ کی قدر دانی نہیں کریں گے اس وقت تک ان کے لیے اس حکم کی بجا آوری ممکن نہیں ہوگی کہ : ’’ تم اُس متاع دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے، اور نہ اِن کے حال پر اپنا دل کڑھاؤ انہیں چھوڑ کر ایمان لانے والوں کی طرف جھکو ‘‘۔

اس حکم کی تعمیل میں جب ہم رسول اکرم ﷺ کی احادیث سے رجوع کرتے ہیں تو بہترین رہنمائی میسر آتی ہے۔ حدیث قدسی ہے:’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم میری عبادت کے لئے فارغ ہوجا میں تیرا سینہ امیری اور بےنیازی سے پر کردوں گا۔ تیری فقیری اور حاجت کو دور کردوں گا اور اگر تو نے یہ نہ کیا تو میں تیرا دل اشغال سے بھر دوں گا اور تیری فقیری بند ہی نہ کروں گا‘‘۔فقر و بے نیازی کے خزانے کی کنجی آپ ؐ نے یہ بتائی کہ:’’ جس نے اپنی تمام غور وفکر اور قصدوخیال کو آخرت سے باندھ لیا اور اسی میں مشغول ہوگیا اللہ تعالیٰ اسے دنیا کی تمام پریشانیوں سے محفوظ کرلے گا۔ اور جس نے دنیا کی فکریں پال لیں یہاں کے غم مول لے لئےتو اللہ کو اس کی مطلقا ًپروا نہیں، خواہ وہ کسی حیرانی میں ہلاک ہوجائے‘‘۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218643 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.