مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب ؒ المعروف ’’علی
میاں‘‘ نے اسلامی تاریخ پر متعدد کتابیں تحریر کی ہیں۔ تاریخ دعوت و عزیمت
کی داستان کی دوسری جلد میں شیخ السلام احمد تقی الدین ابن تمییہؒ اور ان
کے تلامذہ کے حالات بیان کیے ہیں۔ابن تمییہؒ نے اُس کے زمانے کے حالات کا
جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں در آیا
تھا۔صلیبیوں نے پے در پے حملے شروع کر دیے تھے۔ ایک نام نہاد اسلامی
فرقہ’’باطنیہ‘‘اسماعیلی،دوروزی اورنصیری کی شا خیں لیے پیدا ہوا۔جو مجوسی
عقائد، افلاطونی تصورات اور خطر ناک سیاسی اغراض کا مجموعہ تھا۔مسلمانوں کے
خلاف غیر مسلموں کی حمایت کرتا تھا۔آٹھوں صدی ہجری میں تا تاریوں نے اسلامی
دنیا پر حملہ کیا تو اِنہوں نے کھل کر ان کا ساتھ دیا۔ انہوں نے چنگیز خان
کو اسلامی ممالک پر حملہ،ہلاکو کے بغداد پر تسلط ،حلب کی بربادی اور صالحیہ
کی غارت گری کا سبب قرار دیا۔ ابن تمییہؒ نے ان کے عقائد اور عمل پر فکر پر
کاری ضرب لگائی۔ ان کے سیاسی عزاہم کو اشکار کیا۔
لکھتے ہیں کہ ابن تمییہؒ نے اپنے والد کی وفات کے بعد پہلا درس دیا، تو اس
وقت ان کی عمر صرف ۲۲ سال تھی۔درس میں دمشق کے مشہور فضلاء و عمائد شریک
تھے۔ اس درس میں علمی اور فکری کلام کی تعریف کی۔۶۹۹ھ میں چنگیز کے پڑپوتے
قازان، جس کا اسلامی نام محمود تھا جو امیر تورزن ؒ کی تبلیغ سے مسلمان ہوا
تھا۔دمشق کے باہر ناصرسلطان مصر سے لڑائی کی۔سلطان مصرکو اس لڑائی میں شکست
ہوئی ۔سلطان مصر نے فوجوں سمیت مصر کا رخ کیا۔ بڑے بڑے علماء بھی مصر کی
طرف کوچ کر گئے۔ مگرابن تمییہؒ نے تا تاریوں کے جبار بادشاہ قازان سے
بہادری سے ملاقات کر کے دمشق کے لیے پروانہ امن حاصل کیا۔رجب ۷۰۲ھ میں
تاتاری پھر دمشق پر حملہ کیا۔ابن تمییہؒ سلطان مصر کے ساتھ خود جنگ میں
شریک ہوئے۔ لوگوں کو جہاد پر تیار کیا۔ علماء نے کہا کہ تاتاری بھی تو
مسلمان ہیں۔ ان سے جہاد کیسا۔ ابن تمییہ ؒ نے ثابت کیا کہ یہ تاتاری خوارج
ہیں۔ ان سے جہا د فرض ہے۔خوارج نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ ؓ سے جنگ کی
تھی۔ اس سے علماء کواطمینان ہو گیا، اور پھر لوگ ڈٹ کر لڑے۔ سلطان مصر
کوفتح اور تاتاریوں کو شکست ہوئی۔
لکھتے ہیں اس کے بعد ابن تمییہ ؒ نے درس و تدریس ، اشاعت سنت اور بدعات کو
ختم کیا۔۷۰۵ھ میں باطنیہ فرقے کے خلاف جنگ کرنے نائب سلطنت کے ساتھ
گئے۔رفاعیوں نے نائب سلطنت کو کہا کہ ابن تمییہ کو احکام جاری کرنے سے روک
دیا جائے۔ شعبدہ بازی اور کرتب کرتے ہوئے، نائب سلطنت سے کہا کہ ہم پر آگ
اثر نہیں کرتی، اس لیے ہم حق پر ہیں۔ابن تمییہؒ نے کہا کہ یہ کرت کرتے ہیں
شعبدہ باز لوگ ہیں۔ ان کو پہلے نہلایا جائے پھر یہ کرتب کریں۔ اس موقعہ پر
رفاعیوں کے ایک صوفی شیخ صالح کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا کہ ہمارے کرتب
تا تاریوں کے ہاں چلتے ہیں۔ شریعت کے مقابلے میں نہیں چلتے۔ اس کے بعد دمشق
میں ابن تمییہؒ کی دینی سیادت قائم ہو گئی۔ سلطان مصر ناصر، ابن تمییہؒ کے
علم و فضل،جہاد اور خلوص کا معتقد اور ہمدرد تھا۔
لکھتے ہیں کہ ایک ایساوقت آیا کہ سلطان مصر ناصرنے حکومت رناچھوڑ دیا۔ اس
کے بعد رکن الدین بیبرس تخت پر بیٹھا۔ اس کا روحانی سرپرست شیخ نصرالمنبجی
تھا۔یہ ابن تمییہؒ کا مخالف تھا۔ ایک دفعہ ابن تیمییہؒ کو دمشق سے اسکندریہ
بلا کر ایک بار پھر قید کر دیا۔ اﷲ کا کرنا کہ ایک ہی سال بعد ناصرسلطان
مصر نے دوبارہ سلطنت پر قبضہ کیا اور ابن تمییہؒ کو عزت کے ساتھ رہا کر
دیا۔ابن تمییہؒ کا خاندان پشتوں سے حنبلی چلا آ رہا تھا۔لیکن بعض اوقات
ائمہ اربعہ کے مذاہب میں اس بات کوترجیح دیتے، جس کے دلائل زیادہ قوی ہوتے۔
لکھتے ہیں آخر میں ایک بار پھر ۷؍ شعبان ۷۲۶ھ کو زیارت قبر نبوی ؐپر سترہ
سالہ پرانے فتویٰ پر قلعہ دمشق میں قید کر دیے گئے۔ ابن تمییہ ؒ قلعہ دمشق
میں درس تدریس و تصنیف میں مشغول ہو گئے۔مسئلہ زیارت پر سلطنت کے قاضی سے
اختلاف کی بنیاد پر، ان سے ان قلم دوات واپس لے لیا گیا۔ مرض وفات شروع ہوا
تو حاکم دمشق عیادت کو آئے اور معذرت اور معافی کی درخواست کی۔پھر ۲۲؍ ذی
القعدہ ۷۲۸ھ کی شپ ۶۷ سال کی عمر میں وفات پائی۔ ۶۰ ہزار لوگ جنازے میں
شریک ہوئی۔کسی نے بلند آواز سے کہا کہ سنت کے پیشوا کا جنازہ اس شان کاہوتا
ہے۔اکثراسلامی ممالک میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ ابن تمییہؒ اپنے دور
میں علوم اسلامیہ میں مجتہدانہ مقام رکھتے تھے۔شجاعت ، دلیر اور جہادی
تھے۔کبھی بھی حکومتی عہدہ قبول نہیں کیا۔ ابن تمییہؒ نے عقیدہ توحید کی
تجدید اور مشرکانہ عقائد و رسوم کا ابطال کیا۔قبر پرستی سے منع کیا۔شعار
اسلام کی وکالت کی۔غیر اﷲ سے دعائیں مانگنے سے روکا۔کسی ولی اور بزرگ کے
واسطہ کی بجائے اﷲ سے رجوع کرنے کی تعلیم دی۔فلسفہ یونا ن و منطق کو کتاب
وسنت کے تابع کیا۔رد ِعسائیت کو دلائل سے ثابت کیا۔ردِ شیعیت میں ایک معاصر
شیعہ عالم، ابن المطر الحلی کی کتاب منہاج الکرامۃ فی معرفتہ الامامہ‘‘ کے
رد میں ’’ منہاج السنہ‘‘ لکھی جو ان کی کتب میں امتیازی شان رکھتی ہے۔ ابن
تمییہؒ کا سب سے بڑا کارنامہ فکر اسلامی کا احیا ہے۔
ایک سلیم الطبع انسان کے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاصرین متاخرین نے
ابن تمییہؒ جو کمال درجہ کے عالم تھے مخالفت کیوں کی گئی۔مختصریہ کہ ابن
تمییہؒ کی طبیعت میں تیزی، منفرد انداز اور بعض دفعہ ترجیحات میں ائمہ
اربعہ سے بھی الگ نظر آتے۔جس وجہ سے لوگ مخالف ہوجاتے تھے۔ شیخ السلام شاہ
ولی اﷲ دیلویؒ نے ان کا پر زور دفاع کیا۔وہ ابن تمییہؒ کو سنی العقیدہ،سلفی
المسلک، شریعت کے بڑے ترجمان اور کتاب السنت کے مخلص خاد م مانتے ہیں جو
صدیوں پیدا ہوتے ہیں۔
لکھتے ہیں کہ ابن تمییہؒ کے شاگردوں میں حافظ ابن قیمؒ کو امتیاز و خصوصیت
حاصل ہے وہ کسی دوسرے کے حصہ میں نہیں آئی۔ ابن قیم زہد و عبادت میں
نمائیاں مقام رکھتے تھے۔اپنے استاد کی طرح وہ بھی ابتلا و آزمائش اور مجا
ہدات کے منازل سے گزرے۔ استاد کے ساتھ انہیں بھی قلعہ دمشق میں قید کیا گیا
تھا۔ استاد کی موت کے بعد رہا کیے گئے ۔پھر۲۳؍رجب ۷۹۱ھ میں انتقال کیا۔
ابن تمییہؒ کے شاگردوں میں ابن قیم کے علاوہ ابن الہادی، ابن کثیر، اور ابن
رجب خاص امتیا اور شہرت رکھتے ہیں۔ ابن الہادی نے چالیس سال سے بھی کم عمر
پائی۔ شمس الدین محمدنام، ابن الہادی کے نام سے مشہور ہوئے۔ حدیث اور فنون
حدیث اور مذاہب میں تفقہ حاصل کیا۔عمادالدین اسماعیل بن عمرنام اور ابن
کثیر کے نام سے شہرت پائی۔ شہر بصرہ کے نواح میں، گاؤں جمدل میں ۷۰۶ھ میں
پیدا ہوئے۔ ابن السویدی،قاسم بن عساکر اور علامہ مزی سے حدیث فقہ ، تفسیر،
اور نحو میں تعلیم حاصل کی۔باوجود شافی ہونے کے ابن تمییہؒ کے گرویدہ تھے۔
ان سے تلمذ بھی ہے۔ ان کی ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ مشہور کوئی، گو کہ اس میں
اسرائیل روایا ت بھی موجود ہیں۔کافی کتب کے مصف ہیں۔ ایک اور
شاگردعبدلرحمان نام ،حافظ ابن رجب کے نام سے مشہور ہوئے ابن رجب اگرچہ ابن
تمیییہؒ کے شاگرد نہیں۔ لیکن وہ ابن قیم جو ابن تمییہؒ کے شاکرد ہیں ان سے
متاثر ہیں۔ کئی کتب کے مصنف ہیں۔
صاحبو! یہ ہمارے اسلام کی تاریخ دعوت اور عزیمت کی داستان ہے۔ ان کی وجہ سے
دین اسلام تروتازہ تھا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کی تیسری جلد پر تبصرہ
آیندہ کسی وقت۔ ان شاء اﷲ۔
|