استاد پریشاں تعلیم پریشاں

آجکل یہ جملہ زبان زدِ عام ہے کہ تعلیم ایک مالِ تجارت( پراڈکٹ) ہے...لیکن اِس سے کہیں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ استاد ایک مالِ تجارت ہے جو طلبا کے آگے آزمائشی( ڈیمو) کلاسز میں پیش کیا جاتا ہے_ یہی وہ مرحلہ ہے جب طلباء کی نفسیات میں استاد ایک کم مایہ و بےحیثیت شخص کے طور پر شامل ہو جاتا ہے اور وہ خود کو صاحبِ اختیار سمجھنے لگتے ہیں_ استاد کے انتخاب کا یہ طریقہ تعلیم کے لئے زہرِ قاتل ہے_طلباء میں یہ سوچ رچ بس چکی ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو اپنے تئیں 'غیر تسلی بخش' اندازِ تعلیم کے سبب محض ایک مشترکہ شکایتی خط کے ذریعے نوکری سے برخاست کروا سکتے ہیں_اس رویے کا سبب حکومت کا دہرا معیار ہے_ ایک طرف تعلیم کو اشیائے عامہ کے طور پر لینا اور نفع و نقصان سے بالا ہونا ہے...دوسری طرف نجی تعلیمی اداروں کو خود رو پودے کی مانند پھلنے پھولنے دینا ہے_

حکومتی تعلیمی اداروں کے اساتذہ اِس قدر بے اماں و بےوقعت نہیں _چند غیر مطمئن یا ناراض طلباء کی شکایت ناکافی ہے_ اِلزام کا ثابت ہونا لازمی ہے_ مزید یہ کہ اساتذہ کی تنظیم کا ایک مضبوط ڈھانچہ ہے لہذا دفاع میں عدالت کا رخ کرنا آسان اور کارگر ہے_

نجی تعلیمی اداروں کا وجود جہاں معاشرے میں فروغِ علم کا سبب بنا ہے وہیں چند منفی اثرات کا بھی موجب ہوا ہے جن میں اساتذہ کے گوناگوں مسائل شاملِ خاص ہیں_ بیشتر نجی اداروں کا مقصد بہرحال منافع کا حصول ہے جو کہ ان کا حق بھی ہے_ راہِ کاروبار میں وہ طلباء اور والدین کے دباؤ کا مقابلہ نہیں کر پاتے _ اِس موڑ پر وہ ڈگمگا جاتے ہیں اور انصاف کا دامن چھوڑ دیتے ہیں کہ کہیں گاہک ہاتھ سے نکل نہ جائے_ الغرض تحقیق سے کام کم ہی لیا جاتا ہے_ یک طرفہ فیصلے تھوپ دئے جاتے ہیں_یوں استاد بےبسی و بےدلی کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے_

ان رویوں کے اساتذہ پر نہ صرف معاشی بلکہ نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں مثلا وہ طلباء سے ڈرنے لگے ہیں...خوشامد کو ہتھیار بنایا جانے لگا ہے...اپنی توہین پر اکثر چپ سادھ لیتے ہیں_ادارے کی بے جا خواہشات اور مانگ کو پورا کرنے پر مجبور و معمور نظر آتے ہیں_جب یہ ماحول ہو تو معیارِ تعلیم کے گیت الاپنا دیوانے کے خواب کے سوا کیا ہے_

یہ بھی ایک امرِ واقعہ ہے کہ سوشل میڈیا نے طلباء سے محنت اور لگن چھین لی ہے...وہ تن آسان ہو گئے ہیں_ بے ادبی و سرکشی کو بالکل نارمل لیتے ہیں_اِس پر مستزاد نجی تعلیمی ادارے ان کی من مانیوں کے لئے پناہ گاہ ثابت ہو رہے ہیں_اِس سلسلے میں ایک انتہائی تجربہ کار کامیاب استاد کا یہ تبصرہ دعوتِ فکر دے رہا ہے..."اب دوبارہ ٹریننگ لینا پڑے گی پڑھانےکےلئے!!!"_فاعتبروا يا اولي الالباب_

یہ حقیقت ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کو مقصود منافع مسائل کی جڑ ہے اور اِس سے مفر نہیں_ ایسی صورتِ حال میں مفادِ عامہ کی خاطر حکومت کی جانب سے اِن اداروں کو مالی معاونت فراہم کرنا اور احتساب کا نظام قائم کرنا ہے از حد ضروری ہے_
 
Hamdi Shah
About the Author: Hamdi Shah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.