جمعہ نامہ :دنیا سے عقبی تک نور علیٰ نور

قرآنِ حکیم میں عہدِ الست کا ذکر کچھ اس طرح ہے کہ :’’اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا "کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟" انہوں نے کہا "ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں" ۔ ابتدائے آفرینش کےاس عہد و پیمان کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ :’’یہ ہم نے اس لیے کیا تاکہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ہم تو اس بات سے بے خبر تھے،‘‘۔ ملائے اعلیٰ میں طے پانے والے اس عہدو پیمان کی پابندی کا امتحان لینے کی خاطر ہر نفس کو آزادی سے نواز کر ایک وقت مقررہ پر جہان فانی میں بھیج دیا جاتاہے۔ ارشادِ ربانی ہے :’’ کیا وہ شخص جو پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو؟‘‘۔ یعنی عہد الست کے بعد جب اولادِ آدم کوایک محدود مدت خاص کے لیےحیاتِ دنیا سے نواز ہ گیا تو ان کی ہدایت کے لیے انبیائے کرام کے ذریعہ ہدایت کی روشنی کا اہتمام بھی فرما دیا گیاتاکہ وہ سوچ سمجھ کر اپنی راہ متعین کریں دیکھ بھال کر اپنی زندگی کا سفر طے کرسکیں ۔

اس کے باوجود عوام الناس دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ۔ ایک تو ہدایت الٰہی کے مطابق زندگی گذارنے والے اور دوسرے اس سے روگردانی کرنے والے ۔لوگوں نے اپنے درمیان تفریق و امتیاز کے بے شمار پیمانے وضع کرلیے ہیں مثلاً گورا یا کالا، امیریاغریب ، خوبرو یابدصورت اور عالم و جاہل وغیرہ حالانکہ ان میں سے بیشتر پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے لیکن قرآن حکیم میں جو منفرد کسوٹی پیش کی گئی ہے وہ پوری طرح اختیاری ہے۔ انسان خود جان بوجھ اپنی زندگی کی ڈگر طے کرتا ہے اور اس لیے اپنے انجام کے لیےخود ذمہ دار ہوتا ہے۔ایسے میں کتاب الٰہی سوال کرتی ہے کہ کیا ان دونوں کا انجام یکساں ہوسکتا ہے؟ عقل عام گواہی دیتی ہے کہ نہیں ، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے ۔ اس کے باوجود اپنے انجام بد سے بے نیاز بندگان نفس دنیامیں اپنے خالق ومالک سے بغاوت کرتے نظر آتے ہیں ۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ :’’ کافروں کے لیے ان کے اعمال خوشنما بنا دیئے گئے ہیں‘‘۔قرآن کریم میں شیطان کا مقصدِ حیات یہی بتایا گیا ہے: ’’خدا کی قسم! ہم نے آپ سے پہلے کئی امتوں کی طرف رسول بھیجے ہیں پس شیطان نے ان کے (برے) اعمال خوشنما کرکے انہیں دکھائے سو وہی آج ان کا سرپرست ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘۔

شیطان کے چکر میں پڑ کر جو لوگ راہِ حق سے بھٹک جاتے ہیں ان کی بابت کتاب الٰہی کہتی ہے:’’اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائیں‘‘۔ ایسا کرنے والے اس زعم میں مبتلا ہوتے ہیں کو دوسروں کو اپنے دامِ فریب میں گرفتار کررہے ہیں لیکن اس کے برعکس حقیقت یہ ہوتی ہے کہ: ’’ دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر اُنہیں اس کا شعور نہیں ہے‘‘۔ ایسے میں اہل ایمان کو یہ تلقین فرمائی گئی ہے کہ :’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو ۔ وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے، وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے ‘‘۔رب کائناتکی شفقت ورحمت کا لامتناہی سلسلہ دنیوی زندگی کے بعد بھی جاری وساری رہتا ہے ۔ ان سعید روحوں سے وعدۂ حق ہے کہ :’’ جس روز وہ اس سے ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہو گا اور اُن کے لیے اللہ نے بڑا با عزت اجر فراہم کر رکھا ہے‘‘۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450678 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.