آپ خود بھی استخارہ کرسکتے ہیں

ایک مقتدی نے پوچھا:امام صاحب!آپ استخارہ کرتے ہیں؟دوسرے مقتدی کاکہناتھا:میں آن لائن سروس کے ذریعے کراتاہوں،یہ ایک فاسٹ سروس ہے اورایک ہی دن کے اندرجواب مل جاتاہے۔

یہ صرف ان دومقتدیوں کی بات نہیں ،اکثرمسلمانوں کایہ حال ہے خودکوتواس قابل نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے مسئلے میں خیرطلب کرسکیں،جس سے راہ فرار''کسی سے استخارہ کراکر''حاصل کرتے ہیں،حالاں کہ یہ فردکاانفرادی اورذاتی معاملہ ہے کہ وہ اپنے رب سے خیراوربہترراہ کی طرف رہنمائی طلب کرے۔براہوپیٹ کے پجاریوں اورموقع پرست''گندم نماجوفروشوں''کا،جوبجائے عوام کالانعام کی درست سمت رہنمائی کرنے کے،اس عمل کواپنے پیٹ کی آگ بجھانے کاذریعہ سمجھتے اورمختلف ''استخارہ سینٹرز''کھول کرخوب مال بنانے میں رات،دن مصروف ہیں ۔ذیل میں عوام کی درست سمت رہنمائی کی غرض سے مستندعلمائے کرام کی کتب سے استخارے کے حوالے سے ضروری تفصیلات درج کی جارہی ہیں ،تاکہ صحابہ کرام اورپچھلے ادورکے عوام کی طرح عوام اس عمل کو،جوحددرجہ آسان وسہل نیزسراسرخیرہی خیرہے،خودکرنے لگیں۔مفصل رہنمائی کے لیے بازارمیں عام دستیاب اس موضوع پر علمائے کرام کی کتب ورسائل ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ،ہمارے استاذمحترم داعی قرآن حضرت مولانامفتی عتیق الرحمن شہید کااس موضوع پرایک انتہائی آسان،مختصراوردل نشیں رسالہ ہے،جوجامعہ بنوریہ عالمیہ میں ان کے صاحبزادے وخلف الرشیدمولانامفتی جمال عتیق سے مفت طلب کیاجاسکتاہے۔لیجیے!اب ضروری تفصیلات ملاحظہ فرمائیے:

استخارہ کا مسنون اورآسان طریقہ :سنت کے مطابق استخارہ کاسیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کامکروہ وقت نہ ہو) دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں ' نیت یہ کریں کہ میرے سامنے یہ معاملہ یامسئلہ ہے' اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو' اﷲ تعالیٰ اس کا فیصلہ فرمادیں۔

سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے' یہ بڑی عجیب دعاہے 'کوئی گوشہ زندگی کا اس دعا میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے چھوڑانہیں' اگرعام انسان ایڑی چوٹی کا زور لگالیتا تو بھی ایسی دعاکبھی نہ کرسکتا جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی' اگرکسی کو دعا یاد نہ ہوتوکوئی بات نہیں' کتاب سے دیکھ کر یہ دعا مانگ لے' اگر عربی میں دعامانگنے میںدقت ہورہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا مانگے ' بس! دعا کے جتنے الفاظ ہیں وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں' وہ الفاظ یہ ہیں:
استخارہ کی مسنون دعا:اللھم انی استخیرک بعلمک واستقدرک بقدرتک واسألک من فضلک العظیم فانک تقدر ولااقدروتعلم ولا اعلم وانت علام الغیوب اللھم ان کنت تعلم ان ھذالامرخیرلی فی دینی ومعاشی وعاقبة امری وعاجلہ واٰجلہ فاقدرہ لی ویسرہ لی ثم بارک لی فیہ،وان کنت تعلم ان ھذا الامرشرّ لی فی دینی ومعاشی وعاقبة امری وعاجلہ وٰاجلہ فاصرفہ عنی واصرفنی عنہ واقدر لی الخیرحیث کان ثم ارضنی بہ۔(بخاری' ترمذی)
دعاکرتے وقت جب''ھذا الامر'' پر پہنچے اگر عربی جانتاہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی''ھذا الامر'' کی جگہ اپنے کام کانام مثلاً'' ھذاالسفر'' یا ''ھذاالنکاح'' یا''ھذہ التجارة'' یا''ھذا البیع'' کہے اور اگرعربی نہیں جانتا تو''ھذا الامر'' ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے' جس کیلئے استخارہ کررہاہے۔

بہتر یہ ہے کہ استخارہ تین سے سات دن تک پابندی کے ساتھ متواترکیاجائے'اگراس کے بعد بھی تذبذب اور شک باقی رہے تو استخارہ کا عمل مسلسل جاری رکھے ' جب تک کسی ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے' اس موقع پر اتنی بات سمجھنی ضروری ہے کہ استخارہ کرنے کیلئے کوئی مدت متعین نہیں ' حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جو ایک ماہ تک استخارہ کیاتھا توایک ماہ بعد آپ کو شرح صدرہوگیاتھا' اگرشرح صدر نہ ہوتا تو آپ آگے بھی استخارہ جاری رکھتے۔

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:''دعائے استخارہ کامطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے دعائے خیر کرتا رہے' استخارہ کرنے کے بعد ندامت نہیں ہوتی اوریہ مشورہ کرنا نہیں ہے' کیونکہ مشورہ تو دوستوں سے ہوتاہے' استخارہ سنت عمل ہے' اس کی دعامشہور ہے' اس کے پڑھ لینے سے سات روز کے اندر اندر قلب میں ایک رجحان پیدا ہوجاتاہے اورخواب میں کچھ نظر آنا' یا یہ قلبی رجحان حجت شرعیہ نہیں ہیں کہ ضرور ایسا ہی کرناپڑے گا اوریہ جو دوسروں سے استخارہ کرایاکرتے ہیں' یہ کچھ نہیں ہے' بعض لوگوں نے عملیات مقرر کرلئے ہیں' دائیں طرف یا بائیں طرف گردن پھیرنایہ سب غلط ہیں' ہاں دوسروں سے کرالینا گناہ تونہیں لیکن اس کے الفاظ ہی ایسے ہیں کہ خودکرناچاہئے '' ۔(مجالس مفتی اعظم)

حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ استخارہ کا صرف اتنااثرہوتاہے کہ جس کام میں تردد اور شک ہو کہ یوں کرنابہتر ہے یا یوں؟یایہ کرنابہترہے یا نہیں؟تواستخارے کے مسنون عمل سے دو فائدے ہوتے ہیں:دل کا کسی ایک بات پر مطمئن ہوجانا۔اوراس مصلحت کے اسباب میسرہوجانا۔تاہم اس میں خواب آناضروری نہیں۔ (اصلاح انقلاب امت)

استخارہ میں صرف یکسوئی کاحاصل ہونا استخارہ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے' اس کے بعد اس کے مقتضاپرعمل کرے ' اگر کئی مرتبہ استخارہ کے بعد بھی یکسوئی اور کسی ایک جانب اطمینان نہ ہو تو استخارہ کے ساتھ ساتھ استشارہ بھی کرے' یعنی اس کام میں کسی سے مشورہ بھی لے لیکن استخارہ میں ضروری نہیں کہ یکسوئی ہواہی کرے۔ (الکلام الحسن)

بعض حضرات کا یہ کہناہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خود انسان کے دل کا رجحان ایک طرف ہوجاتاہے ' بس جس طرف رجحان ہوجائے وہ کام کرلے اوربکثرت ایسا رجحان ہوجاتاہے ' لیکن بالفرض اگرکسی ایک طرف رجحان نہ بھی ہو' بلکہ دل میں کشمکش موجود ہو تو بھی استخارہ کا مقصد حاصل ہوگیا' اس لئے کہ بندہ کے استخارہ کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ وہی کرتے ہیں جواس کے حق میں بہترہوتاہے' اس کے بعد حالات ایسے پیداہوجاتے ہیں پھر وہی ہوتاہے جس میں بندے کیلئے خیر ہوتی ہے اوراس کو پہلے سے معلوم بھی نہیں ہوتا' بعض اوقات انسان ایک راستے کو بہت اچھا سمجھ رہاہوتاہے لیکن اچانک رکاوٹیں پیداہوجاتی ہیں اوراﷲ تعالیٰ اس کواس بندے سے پھیر دیتے ہیں لہٰذا اﷲ تعالیٰ استخارہ کے بعد اسباب ایسے فرمادیتے ہیں کہ پھر وہی ہوتاہے جس میں بندے کیلئے خیر ہوتی ہے۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 280690 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More