کھیل ' حیا اور زیر جامہ

راقم کے سکولنگ کی دور کی بات ہے چونکہ میٹرک کے طلباء سکول میں سینئر ہوتے ہیں اس لئے زیادہ تر کھیلوں پر ان کی بدمعاشی ہوتی ہے ' راقم فٹ بال کیساتھ ساتھ ہاکی کے کھیل میں بھی تھا اسی طرح متعدد کھلاڑی دونوں کھیلوں میںیکساں طور پر کھیلتے تھے ' ایک دن فٹ بال کے گول کیپر کو ہاکی کے گرائونڈ میں بغیر حفاظتی کٹس کے کھڑا ہونا پڑا. حالانکہ اس وقت گلبز اور دیگر سامان دیا گیا لیکن فٹ بال کا گول کیپر ہاکی کے بال کو بھی فٹ بال سمجھ رہا تھا ' اور پھر یوں ہوا کہ گرائونڈ کے ڈی میں ہی مخالف ٹیم کے کھلاڑی نے گول کرنے کیلئے بال کو ہٹ کیا اور پھر...

کھیل صحت مند معاشرے کی تکمیل کیلئے ضروری ہے کسی بھی معاشرے کے نوجوان جتنے صحت مندانہ اور مثبت سرگرمیوں میں سرگرم عمل ہونگے اتنی ہی اس معاشرے میں غلط اور منفی چیزیں نہیں ہونگی کھیلوں کی جانب بچوں کو راغب کرنے میںوالدین کی مرضی سمیت مختلف اداروں کا تعاون بھی ضروری ہے تاکہ وہ ایسا انوائرمنٹ قائم ہوسکے جس کی بناء پر نہ صرف والدین کا اعتماد ہو کہ ان کے بچے ہر طرح سے محفوظ ہیں اوروہ نہ صرف جسمانی طور پر مثبت سرگرمیوں میں ملوث ہیں بلکہ ان کی سوچ بھی مثبت ہیں -
بچوں کو مثبت اور صحت مندانہ سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے میں دیگر سٹیک ہولڈر میں متعلقہ اداروں ' میڈیا اور خود بچوں کا بھی بڑا کردار ہے .بچوں کی کھیلوں کی سرگرمیوں میں ملوث ہونا بچوں کا اپنا رجحان بھی شامل ہیں.اگر بچے مثبت اور صحت مندانہ سرگرمیوں میں دلچسپی نہ لیتے ہوں تو پھر انہیں لاکھ والدین ' ادارے اور میڈیا کے ذریعے آگاہی دی جائے کوئی بھی انہیں کھیلوں کی میدان میں لانے کا باعث نہیں بن سکتا.
کمپیوٹر اور ان ڈور گیمز کے اس دور میں ہر چیز تبدیل ہوکر رہ گئی ہیں حتی کہ ہمارے کلچر و ثقافت سمیت لوگوں کی ذہن اور سوچ بھی تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں -جس چیز پر آج سے تیس اور بیس سال پہلے والدین یا کھیلوں کے کوچز بچوں کو ڈانتے یا پھر مارتے تھے آج اس ایشو پر مکمل طور پر خاموشی ہے -دنیا' پیسہ اور نام کمانے کے چکر نے والدین کو مصروف کردیا ہے تو بچوں کی جانب سے ان کی توجہ بھی ہٹ گئی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کل کے بچے اپنی مرضی سے سب کچھ کررہے ہیں اور یہ سب کچھ کھیلوں کے میدان میں بھی ہورہا ہے.اتنی لمبی تمہیدلکھنے کے بعد بھی راقم کے سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس طرح اس ایشو کو لکھوں جس کی وجہ سے آج کھیلوں کے میدان میں عجیب سی صورتحال ہے.
تقریبا 1988 میں راقم اپنے سکول کے ہاکی اور فٹ بال ٹیم کا فل بیک رہا ' اس وقت سکول میں کھلاڑیوں کو شوز بھی ملا کرتے تھے ٹریک سوٹ بھی ملا کرتا تھا تاہم انڈر وئیر / زیر جامہ کھلاڑی اپنے لئے خود لیتے تھے ' راقم کو یاد ہے کہ ایک دفعہ صرف ا س بنیاد پر کئی کھلاڑیوں کو سکول کے ٹورنامنٹ میں کھیلنے سے منع کیا گیا کہ انہوں نے ٹریک سوٹ کے نیچے زیر جامہ ' انڈ ر وئیر نہیں پہنا تھا جس پر کھلاڑیوں نے اعتراض کیا تو پھر مجبورا سکول کے ٹورنامنٹ میں ان کھلاڑیوں نے شلوار پہن کر میچ میں حصہ لیااور وہ بھی بڑے منت سماجت کے بعد ' ان دنوں میں والدین کے پاس بھی بچوں کیلئے وقت ہوتا تھا اپنے بچو ں کی جسمانی نشو و نما سمیت ان کی سرگرمیوں پر نظر ہوتی تھی اسی طرح سکولوں کے اساتذہ جو کھیلوں کے انچارج ہوا کرتے تھے ان معاملات میں بہت حسا س اور سخت ہوا کرتے تھے ...
آج سے تقریبا ڈیڑھ ماہ قبل پشاور میں ہی ہاکی کے گرائونڈ میں پنجاب سے آئے ہوئے کھلاڑیوں کو انعامات دینے کی تقریب ہورہی تھی تقریب میں بڑے مہمان آئے ہوئے تھے جب تقریب ختم ہونے لگی تو کھلاڑیوں نے اپنے کوچ کو کندھے پر اٹھا کر ڈانس کرنا شروع کردیا ' بدقسمتی سے دوسری ٹیم کے ساتھ راقم موجود تھا کہ کھلاڑیوں نے اپنے کوچ سے یہ کہا کہ جب ہماری باری آئیگی تو ہم بھی آپ کو کندھوں پر اٹھائیں گے تو جواب میں کوچ نے جو جواب کھلاڑیوں کو دیا ' اسے سننے کے بعد مجھے افسوس بھی ہوا اور شرمندگی بھی ' کیونکہ کوچ نے اپنے کھلاڑیوں کو کہہ دیا کہ برائے مہربانی مجھے کندھوں پر مت اٹھانا ' کیونکہ میں نے انڈر وئیر نہیں پہنا ' ساتھ ہی وہ ہنس بھی پڑا. تاہم اس کے باوجود کھلاڑیوں نے ٹریک سوٹ/ کٹس پہنے اپنے کوچ کو کندھوں پر اٹھا دیا اور ڈانس کرنے لگے.یہ ایک واقعہ ہے لیکن راقم یہ سوچ کر افسوس کررہا تھا کہ جس طرح یہ کوچ خود ہے اسی طرح اسی کے کھلاڑی بھی ہونگے.
راقم کے سکولنگ کی دور کی بات ہے چونکہ میٹرک کے طلباء سکول میں سینئر ہوتے ہیں اس لئے زیادہ تر کھیلوں پر ان کی بدمعاشی ہوتی ہے ' راقم فٹ بال کیساتھ ساتھ ہاکی کے کھیل میں بھی تھا اسی طرح متعدد کھلاڑی دونوں کھیلوں میںیکساں طور پر کھیلتے تھے ' ایک دن فٹ بال کے گول کیپر کو ہاکی کے گرائونڈ میں بغیر حفاظتی کٹس کے کھڑا ہونا پڑا. حالانکہ اس وقت گلبز اور دیگر سامان دیا گیا لیکن فٹ بال کا گول کیپر ہاکی کے بال کو بھی فٹ بال سمجھ رہا تھا ' اور پھر یوں ہوا کہ گرائونڈ کے ڈی میں ہی مخالف ٹیم کے کھلاڑی نے گول کرنے کیلئے بال کو ہٹ کیا اور پھر...
ان واقعات کو بتانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ کھیلوں کے میدانوں کی طرف آنیوالے کھلاڑی خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی اپنے آپ کو اپنے جسم کو محفوظ رکھیںکیا کھیلوں کے میدان میں آنے سے ہمارے مرد و خواتین کھلاڑیوں کی اخلاقیات ختم ہو کر رہ گئی ہیں یا پھرآج کے دورمیں ہم سب حیا کے اس معیار کو بھول گئے جس میں کہا گیا کہ حیا ایمان کا حصہ ہے. کیا یہ سبق بچوں کو ان کے والدین سکھاتے بھی ہیں یا نہیں ' کیا مختلف کھیلوں کے مختلف کوچز اس بات کو اپنے کھلاڑیو کو بھی بتا اور سکھا رہے ہیں کہ صحت مند جسم کیساتھ ساتھ حیا بھی ضروری ہے.اگر جسم صحت مند ہو اور حیا نہ ہو تو پھر ایسے جسم کا کیا فائدہ .
آج کھیلوں کے بیشتر میدانوں میں جا کر دیکھ لیں . کھلاڑی خود و لڑکے ہو یا لڑکیاں چست ٹریک سوٹ/پہنے نظر آتے ہیں- کچھ نام نہا د اور اپنے آپ کو بولڈ صحافی کہنے والوں کو یہ باتیں بری بھی لگتی ہیں کہ کھلاڑیوں کو اخلاقیات کے بارے میں بتایا جائے کیونکہ انہیں نظر بازی کا شوق ہے اوروہ اپنے اور اپنے بچوں کیلئے الگ قانون چاہتے ہیں اور دوسروں کے بچوں کیلئے الگ قانون ' وہ سمجھتے ہیں کہ ا ن موضوعات پر بالکل نہ لکھا جائے کیونکہ وو سمجھتے ہیں کہ یہ منفی چیزیں ہیں تاہم کیا مثبت رپورٹنگ کے چکر میں ہم ان چیزوں پرآنکھیں بند کرلیں جو نہ صرف کھیلوں کے میدان ' کھلاڑیوں کو متاثر کررہی ہیں بلکہ کھیلوں کے میدان میں آنیوالوں کیلئے نیا ٹرینڈ متعارف کروا رہی ہیںکہ بغیر زیر جامہ کے کھیلوں کے میدان میں کھیلا جائے.
کیا زیر جامہ پہننا کھلاڑیوں کیلئے ضروری نہیں.یہ وہ سوال ہے جو کہ کھیلوں سے وابستہ ماہرین سے کیا گیا ' اور اس بارے میں گوگل پر متعدد رپورٹس بھی موجود ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ زیر جامہ /انڈر وئیر نہ پہننا کتنا نقصان دہ ہے ' کیونکہ اس کے بغیر متعدد عوارض پیدا ہوتے ہیں جو کہ بعد میںعمر گزرنے کے بعد کھلاڑیوںکے مستقل روگ بن جاتیہیں ..
ان بیماریوں سے بچنے سمیت حیاکو برقرار رکھنے کیلئے کھیل کے میدان میں آنیوالے کھلاڑیوں سمیت انکے کوچز او ر والدین کی بھی ذمہ دای ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو صرف اس صورت میں کھیلوں کے میدان میں کھیلنے کیلئے چھوڑدیں جب وہ مکمل طور پر " یونیفارم میں ہوں"یعنی صرف ٹریک سوٹ اور شوز پہن کر کسی بھی کھیل میں حصہ نہ لیں بلکہ زیر جامہ بھی پہن کرآئیں.اور اس بارے میں تمام کھیلوں کے ماہرین ' اداروں کے ذمہ دار افراد اور کوچز بشمول صحافی بھی اپنی ذمہ داری پور ی کریں تبھی بہت ساری چیزیں ٹھیک ہونگی ورنہ دنیا گول ہے...

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420398 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More