پاکستان سپرلیگ سکس کا انعقاد شہرکراچی کے لئیے جہاں
خوشیاں لایا وہاں بہت سارے منفی عوامل کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے
آتشبازی،ڈانس ٹھمکے۔نصیبولال کا اذیت دیتا پی ایس ایل کاعظیم سفارشی طرزفکر
سے مزین گیت۔رونقیں عروج پر طویل عرصے بعد شہرقائدمیں کرکٹ کی رونقیں بحال
ہورہی تھیں خوشی بھی ہورہی تھی لیکن اسکے ساتھ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی
ناقص روایتی نااہلی غیرمتاثرکن ویژن کی بھی بہت فکرتھی کہ ماضی گواہ ہے کہ
ہر طرح کی انتظامی امورمیں ان کی بدترین نااہلی کی داستانیں تاریخ میں بے
شرمی کی سیاہی سے لکھی جاتی رہی ہیں دونوں صوبائی وفاقی حکومتوں ایک دوسرے
پر طعنے تشنے کس کرعوام کومصروف رکھتی ہیں مطلب کہ بیوقوف بنائے رکھتی ہیں
جبکہ مقابلہ بہترین کارکردگی کانہیں ہوتابلکہ بدترین کارکردگی کاہوتاہے جس
میں دونوں جانب سے ابتک مقابلہ جاری وساری ہے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ
پاکستان سپرلیگ شہرقائد کے لیئے پریشان سپرلیگ بنتی جارہی ہے اسٹیڈیم کے
اطراف میں دوبڑے اسپتال لیاقت نیشنل اور آغاخان ہیں ایک اندازے کے مطابق
200کے قریب روزانہ کی بنیادپر ایمرجنسی کیس آتے ہیں اس بدترین کارکردگی کی
وجہ سے ان مریضوں کوکس قدر ذہنی اذیت کا سامنا کرناپڑتاہے اس کااندازہ یہ
بے حس ارباب اختیار کیاجانے گے 23 فروری بروز منگل پشاور زلمی بمقابلہ
ملتان سلطانز26 فروری لاہور قلندرز بمقام ملتان سلطانز بروزجمعہ، پشاور
زلمی بمقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے میچز ہوتے رہے اور اہلیان شہرقائد
بہترین انتظامی کارکردگی کو ترستا رہا اور دوسری جانب گھرکے چراغ بجھتے رہے
میں صحت مند شہریوں کے ساتھ آنے جانے والے مریضوں نے نہ جانے ان سب کا کیا
بگاڑا تھا جو انکو یہ اذیت دی گئی متبادل راستوں کی بھیک دینے سے طویل
راستوں کی وجہ سے ایمرجنسی کیس نہ جانے کب تعزیتی کیس میں تبدیل ہوجاتے ہیں
پیٹ بھرے مستی خوروں کویہ سمجھ میں نہیں آئیگا پاکستان سپرلیگ کا انعقاد
بہت شاندار ہے عوامی امنگوں کے مطابق ہے لیکن اس موقعے پر ایک ڈائیلاگ یاد
آرہا ہے کہ (جب پال نہیں سکتے ہو تو پیدا کیوں کرتے ہو)جب پی ایس ایل
انتظامی امور سنبھال نہیں سکتے توکیوں کرواتے ہو یہ لیگ؟)شہرکراچی میں دنیا
کو دکھانے کے لئیے کہ یہاں امن ہی امن ہے ذہنی اذیت اور راستے بند کرواکے
ہی جو انتظامی غفلت ،نااہلی،نالائقی ،کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے اسکا
کون جواب دے گا ؟شہرقائد میں جاری پی ایس ایل کی صورت میں جہاں رونقیں
نظرآرہی ہیں وہاں گھرمیں صف ماتم بھی بچھ چکی ہے ۔کمسلح ڈاکوئوں نے ہنستا
بستا گھر اجاڑ دیا ایڈووکیٹ حنیف بندھانی کے پوتے اردو یونیورسٹی کے شعبہ
تصنیف و تالیف اردو یونیورسٹی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر جمیل بندھانی
کابھتیجا 20 سالہ نوجوان اسامہ سعید بندھانی تھے سماعت کی کارروائی میں
شامل ہونے کے لیے ایڈووکیٹ حنیف بندھانی درخواست دائر کی اور کہا ان کا
پوتا اسامہ سعید، جسے ڈکیتی کی وارت میں گولی مار کر زخمی کردیا گیا تھا ،
سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے وقت پراسپتال نہیں پہنچایا جاسکا اور زیادہ خون
بہنے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔سب خوشیاں چلتی رہیں گی دادا نے پوتے
کو ،ماں باپ نے جگر کے گوشے کو،چچا نے اپنے پیارے کو ،دوستوں نے اپنے پیارے
دوست کو جاتے ہوئے دیکھ لیا اسمبلی کے فلور پر کھڑی نصرت سحر عباسی نے آغا
سراج درانی سے اس جانب درد بھرے لہجے میں کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن اسپیکر
نے کہا کہ دعا کیجئے ،،،،پھر راقم الحروف کو آواز آئی کہ کیوں اتنادکھ میں
ہے کیوں یہ تحریر لکھ رہا ہے جانے والا چلاگیا پی ایس ایل ہونے دے شہرقائد
میں امن ہی امن ہے یہ کیسا امن ہے جو ایک ہی پل میں ایک گھرانے سے انکے
پیاروں کو چھین لیتا ہے پھریہ کہا جاتا ہے اسامہ سعید بندھانی کی موت ایسے
ہی لکھی تھی بالکل یہ درست ہے کہ اسامہ بندھانی کی موت ایسے ہی لکھی تھی
اسی وجہ سے ہم ٹریفک سمیت سیکورٹی کے انتظامات درست نہیں رکھتے کیونکہ ہم
اگر یہ سب پلان درست کر بھی لیتے تو کیا ہوجاتا ۔۔ اسامہ بندھانی کی موت
ایسے ہی لکھی تھی،بات یہ بھی درست ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے پی ایس ایل کے
دوران سٹرکیں بند کرنے پر محکمہ داخلہ سندھ، ایس پی ٹریفک کیخلاف توہین
عدالت کی درخواست پر ایس پی ٹریفک ایسٹ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا لیکن ہم
سب جانتے ہیں کہ یہ کاروائی ان آنسوئوں کو خشک کرنے کا سبب نہیں بنے گی جو
اسامہ کے والدین کی آنکھوں سے خون بنکرنکلے ہونگے سڑکوں کی بندش کا فیصلہ
بھی درست تھا سیکورٹی کا سوال تھا لیکن یہ سب سڑکیں کھلی بھی ہوتی تو کیا
ہوجاتا سکون کے ساتھ پنجاب میں بھی میچز ہوجاتے ہیں شہرقائد کی تمام سڑکیں
کھلی ہوئی ہوتی تو کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ اسامہ بندھانی کی موت ایسی ہی
لکھی تھی ،پاکستان سپرلیگ جوشہرکراچی کے لیئے پریشان سپرلیگ بنتی جارہی ہے
کیونکہ وفاق اور صوبائی حکومتوں دونوں کی نااہلی انتظامی بنیادوں پر ایک
دوسرے پر سوائے کیچڑ اچھالنے کے کوئی دوسرا کام نہیں ہے لیکن سوال پھر یہی
پیدا ہورہا ہے کہ اگر یہ سب ملکر سکون کے ساتھ تمام مافیا ز کا مقابلہ بھی
کرجاتے ،چھینا جھپٹی کی وارتوں کے لئیے کوئی مضبوط لائحہ عمل تیار بھی
کرلیتے تو کونسا بڑا کام ہوجاتا کیونکہ ان سب کاوشوں کے بعد بھی اسامہ
بندھانی کی موت ایسی ہی لکھی تھی کیوں اتنی سیکورٹی ہونے کے باوجود عام
شہری ان ظالموں سے بچ نہیں سکتے ،یہ کہنا بہت آسان ہے ہوتا ہے کہ ہم حالت
جنگ میں ہیں لیکن اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حالت جنگ میں صرف عام انسان
ہیں بڑے اشرافیہ کی موت بھی اسکے اہل خانہ کو ورثے میں ارباب اختیار ہونے
کی سند تحفہ میں دے کرجاتی ہے ناکارہ نااہل سوچوں کے ساتھ طفل مکتب طرز
فکرنے میرے وطن کو تختہ مشق بنادیا ہے نہ ناجانے کب تک ان آزمائشوں کا
سامنا شہرکراچی کو کرنا پڑے گا امید کے ساتھ دعائیں بھی ہیں،اللہ تبارک
تعالی ایسے تمام نوجوانوں سمیت اسامہ سعید بندھانی کو جنت الفردوس میں اعلی
مقام اور اہل خانہ کو یہ درناک صدمہ برداشت کرنے ہمت وتوفیق عطا
فرمائے(آمین)
|