غیر منافع بخش سپورٹس ایسوسی ایشنز ' چیریٹی کمیشن اور وزیراعلی کا امتحان
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر پختونخواہ میں سوائے کیوکشن کائی آرگنائزیشن جو کہ سال 2004 میں رجسٹرڈ ہے اور یہ ادارہ ہیلتھ ' ایجوکیشن 'ا ور یوتھ کی آگاہی کیلئے کام کررہا ہے کوئی بھی کھیلوں کی تنظیم بشمول حال ہی میں نئی متعارف ہونیوالی ٹیگ با ل کا کھیل جسے باقاعدہ طور پر ہنگری کی حکومت سپورٹ کررہی ہیں اور پچپن کے قریب ٹیگ بال کے ٹیبل جس میں ایک کی قیمت چھ لاکھ روپے ہے بشمول ماہانہ کی بنیاد پر پانچ سو روپے یورو کی فنڈنگ شامل ہیں ابھی تک کسی بھی سرکاری ادارے کیساتھ رجسٹرڈ بالکل بھی نہیں |
|
وفاقی حکومت نے این پی او )غیر منافع تنظیموں( کیلئے سال 2019 چیریٹی ایکٹ کو لاگو کیا جو کہ خیبر پختونخواہ میں میں چیریٹی کمیشن کے نام سے قائم کیا گیا اس چیریٹی ایکٹ جو کہ 2019 میں لاگو کیا گیا کے تحت خیراتی تنظیموں اور اداروں کیلئے لازمی قرار دیا گیا ہے وہ اپنی رجسٹریشن سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن کے تحت کروائینگی صوبے میں کام کرنے والے تمام غیر سرکاری ادارے جو کہ گرانٹس پر چلتی ہیں کی رجسٹریشن کیلئے 9 ستمبر سے لیکر 8 مارچ 2021 کا دورانیہ دیا گیا جس کے تحت صدقات ' عطیات اور گرانٹس لینے والے اداروں کی نگرانی او ر فنڈز کی ترسیل میں شفافیت یقینی بنانا ہے ساتھ ہی منی لانڈرنگ کے مسئلے کا مکمل خاتمہ بھی ہے .اس بارے میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخواہ نے باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کیا اخبار میں اشتہارات بھی دئیے گئے- جس میں بتایا گیا کہ اگر کو چیریٹی ایسوسی ایشن کی رجسٹریشن نہیں کرسکتی تو پھر ان اداروں کے خلاف اسسٹنٹ کمشنر ایف آئی آر درج کرسکے گا اور یہ اختیار بھی ضلعی انتظامیہ کو دیا گیالیکن..
صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے دی جانیوالی مدت جو کہ لگ بھگ 180 دن گزر گئی لیکن کھیلوں سے وابستہ غیر منافع بخش ایسوسی ایشنز جن کی تعداد خیبر پختونخواہ میں پینتیس کے قریب ہیں نے اپنی رجسٹریشن نہیں کروائی -قانونا جس ادارے کو بھی حکومت گرانٹ اینڈ ایڈیا ڈونیشن دیتی ہے اسے چیریٹی میں شمار کیا جائیگا خواہ وہ صدقات ' زکواة بھی لے اس پر لازم ہے کہ وہ چیریٹی ایکٹ کے تحت اپنی رجسٹریشن لازمی کروائے گی .چونکہ کھیلوں کے ادارے بھی غیر منافع بخش ادارے ہیں ان کے سوشل مقاصد ہیں ممبر شپ فیس لیتے ہیں ' باقاعدہ آئین کے تحت چلتے ہیں کیونکہ ایسوسی ایشن بھی ایک ہی ایجنڈے پر کام کرتی ہیں اور سپورٹس کی ایسوسی ایشنز ایک ہی مقصد کے حصول کیلئے کام کرتی ہیں تو ان حالات میں ان غیر منافع بخش ایسوسی ایشن کی رجسٹریشن کہاں پر ہیں. انہیں ریگولیٹ کون کرے گا ' ان کی چیکنگ کی اتھارٹی کونسی ہوگی یہ اور ان جیسے متعدد سوالات ہیں جو خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کرنے والے غیر منافع بخش ایسوسی ایشنزسے کرنیکی ضرورت ہے.
سپورٹس کے فروغ کے دعوے کرنے والے غیر منافع بخش ایسوسی ایشنز سے یہ سوال بھی کرنیکی ضرورت ہے کہ آپ کونسے قانون کے تحت کام کررہے ہیں ' کتنے آپ کے ممبران ہیں' کتنے سرکاری ملازمین ان چیریٹی ایسوسی ایشنز کے اندر کام کررہے ہیں 'ان کی ایگزیکٹو باڈی میں کون کون ہیں ' ان کا انتخابی طریقہ کار کیسا ہے ان کے دفاتر کہاں پر ہیں یہ وہ سوالات ہیں جنہیں سپورٹس کی وزارت کے کرتادھرتائوں سے کرنیکی ضرورت ہے -ْجنہیں صوبائی وزارت کھیل ہر سال فنڈنگ کی مد میں رقم فراہم کرتی ہیں-اسی طرح دیگر اداروں سے کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کے نام پر فنڈنگ بھی لیتی ہیں-
اٹھارھویں ترمیم کا بنیادمقصد بھی یہی تھا کہ صوبے اپنے قوانین کے تحت اداروں کی رجسٹریشن کریں مختلف مقاصد کے حصول کیلئے کام کرنے والے ادارے بشمول غیر منافع بخش سپورٹس ایسوسی ایشنز جنہیں فنڈنگ اگر حکومت سے ملتی ہے تو پھر حکومت کس قانون کے تحت انہیں فنڈنگ فراہم کررہی ہیں- اور اگر بین الاقوامی ادارے ان کی فنڈنگ کرتی ہیں تو پھر اکنامک افیئر ڈویژن کے ذریعے فنڈنگ آئیگی اورپھر مخصوص ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے رقم رجسٹرڈ ادارں کو فراہم کی جائیگی جنہیں باقاعدہ این او سی بھی جاری کیا جائیگا- لیکن ..
ْخیبر پختونخواہ میں سوائے کیوکشن کائی آرگنائزیشن جو کہ سال 2004 میں رجسٹرڈ ہے اور یہ ادارہ ہیلتھ ' ایجوکیشن 'ا ور یوتھ کی آگاہی کیلئے کام کررہا ہے کوئی بھی کھیلوں کی تنظیم بشمول حال ہی میں نئی متعارف ہونیوالی ٹیگ با ل کا کھیل جسے باقاعدہ طور پر ہنگری کی حکومت سپورٹ کررہی ہیں اور پچپن کے قریب ٹیگ بال کے ٹیبل جس میں ایک کی قیمت چھ لاکھ روپے ہے بشمول ماہانہ کی بنیاد پر پانچ سو روپے یورو کی فنڈنگ شامل ہیں ابھی تک کسی بھی سرکاری ادارے کیساتھ رجسٹرڈ بالکل بھی نہیںجبکہ کھیلوں کے فروغ کیلئے پینتیس سے زائد تنظیمیں اس وقت سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے سالانہ کی بنیاد پر فنڈنگ لے رہی ہیں-لیکن ان کا آڈٹ بھی برائے نام ہیں- متعدد ایسی ایسوسی ایشنز جو کھیلوںکے میدان میں ہیں جن کے ممبران کا انتخاب گذشتہ کئی سالوں سے بالکل نہیں ہوا ' نہ ہی ان کے دفاتر موجود ہیں ' نہ ہی وہ باقاعدگی سے اپنی رپورٹس جمع کراتے ہیں نہ ہی انکے آڈٹ ریگولر ہیں 'مگر یہ تنظیمیں کھیلوں کے فروغ کے نام پر سالانہ فنڈنگ ضرور لیتی ہیں -
سوچنے والی اور سچی بات تو یہ ہے کہ جس طرح خواتین ' اور بچوں کے حقوق اور آگاہی پھیلانے کے دعویدار این جی اوز نے بعض معاملات میں آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ایک ہی شخصیت متعدد جگہوں پر غیر سرکاری اداروں میں گھسے ہوئے ہیں تقریبا یہی صورتحال سپورٹس کے غیر منافع بخش ایسوسی ایشنزکی بھی ہے ' بعض سرکاری افسران و اہلکاروں سمیت ایک ہی شخص متعدد عہدوں پر کام کررہا ہے بعض ایسوسی ایشنز نے باوردی افسران ان غیر منافع بخش ایسوسی ایشنز میں اہم عہدوں پر بٹھائے ہوئے ہیں تاکہ ان سے آڈٹ کا پوچھا نہ جائے 'اور اگر کہیں یا کسی سے رقم کا مطالبہ کرنا پڑے تو متعلقہ ادارے ان باوردی افسران کے ڈر سے بھی سپانسرشپ / گرانٹ اینڈ ایڈ فراہم کرے-سچی بات تو یہ ہے کہ جس طرح دیگر این جی اوز کے لوگوں کی بڑی بڑی کوٹھیاں اور گاڑیاں ہیںیہی صورتحال اس کھیل سے وابستہ غیر منافع بخش ایسوسی ایشنز کی بھی ہیں جن کی طرف ابھی تک انٹی کرپشن ' نیب ' پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کی توجہ نہیں گئی.
ان تمام حالات میں صوبائی وزیر کھیل محمود خان جو کہ عمران خان کے وژن کے مطابق کام کرنے کے دعوے بھی کرتے ہیں کیا وہ کپتان کے وژن کے مطابق کام کرینگے یا پھر اس معاملے میں بھی چلا چلائو والا کام کرینگے اور غیر منافع بخش سپورٹس کی ایسوسی ایشنز پر آنکھیں بند کرکے کام چلاتے رہینگے . یا ان کی رجسٹریشن کیلئے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو کوئی احکامات دینگے یا پھر ان کیلئے الگ قانون سازی کرینگے-
|