چیکلو

سندھ کا قدیم کھیل جو اب متروک ہورہا ہے

”چیکلو“ ،سندھ کا ایسا کھیل ہے، جس کے لیے زیادہ سازوسامان کی ضرورت نہیں پڑتی ۔یہ مویشیوں کے باڑے اور گاؤں کے بیچ لگا ہوا ملتا ہے، جس پر صبح سے شام تک بچوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔”چیکلو“ نامی یہ سادہ سا جھولا ’’وادی سندھ کی تہذیب ‘‘ کی ہزاروں سال پرانی ایجاد ہے۔سندھ میں بچوں کے جو کھیل نایاب ہوتے جا رہے ہیں ،ان میں سے ایک’’چیکلو‘‘بھی ہے۔اسے بدین اور ٹھٹہ اضلاع میں ”چیچڑو“ اور ”چینگھو“ کہتے ہیں۔ یہ وادی سندھ ، خصوصاً دیہاتی بچوں کا من پسند کھیل رہا ہے۔کچھ لسانی ماہرین کاکہناہے کہ لفظ’’ سرکل‘‘ اور ’’سائیکل‘‘ اسی چیکلو سے ماخوذ ہیں۔”چیکلو“ دو مضبوط لکڑیوں کا جوڑ ہے، جن میں سے ایک کو مقامی زبان میں ”منی“ یا ”کیرو“ اور دوسری لکڑی کو ”لاٹن“ کہا جاتا ہے۔ اسےبنانے کی ترکیب بہت آسان ہے۔ ایک مضبوط لکڑی، جسے ”منی“ یا ”کیرو“ کہا جاتا ہے۔ اس کا اوپر والا سرا نوکدار بناکر زمین میں اس طرح پیوست جاتا ہے کہ زمین سے کم سے کم تین فٹ اوپر ہو اور اوپر والی لکڑی یعنی ”لاٹن“ چھ سے سات فٹ لمبی ہوتی ہے۔ اس لکڑی کے بیچ گول کھانچا بناکر نیچے گاڑی ہوئی منی کے اوپر ٹکا کر رکھا جاتا ہے اور اوپر والی لکڑی کے بیچ بنا کھانچا نیچے والی لکڑی کی اوپری نوک میں بالکل جم کر بیٹھ جاتا ہے۔اس کے بعد ایک بچہ اوپر والی لکڑی یعنی ”لاٹن“ کے ایک طرف اور دوسرا بچہ دوسری طرف کچھ اس طرح بیٹھتا ہے جیسے اونٹ، گھوڑے یا گدھے پر سواری کے لیے بیٹھا جاتا ہے۔ اس ترتیب سے ”چیکلو“ کے اوپر بیٹھنے کے بعد ایک بچہ نیچے ہوگا تو سامنے بیٹھا بچہ اوپر ہوگا۔ یوں اوپر نیچے ہوتے کچھ دیر ’’جھوٹے‘‘ کھانے کے بعد دونوں بچے پہلے پیروں کے زور سے گول گول گھومنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور پھر جب ”چیکلو“ ہوا کے دوش پر آتا ہے، مطلب کہ بہت تیز چلنے لگتا ہے تو دونوں بچے پاؤں بالکل اوپر کر دیتے ہیں اور ”چیکلو“ چیں چیں کی آوازوں کے ساتھ ایک مخصوص ترتیب کے ساتھ گول گھومتا رہتا ہے۔اس طرح ایک ساتھ دو بچے اس کھیل سے محظوظ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی دو دو بچے جوڑیوں میں بیٹھ کر بھی اس کھیل سے محظوظ ہوتے ہیں،جن کے ہم وزن ہونے کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ منی کے اوپر والی لکڑی کا توازن برقرار رہے اور بچے گرنے نہ پائیں۔

”چیکلو“ صرف ایک کھیل نہیں اس ایجاد کی اصل وجہ جانوروں کو لگنے والی ایک وبا بتایا جاتا ہے، جسے مقامی زبان میں ”سامھاڑو“ کہتے ہیں۔ اس بیماری میں بڑے جانور کو تو کچھ نہیں ہوتا ،پر مال مویشیوں کے کم عمر بچے مر جاتے ہیں۔ روایات عام کے مطابق ”چیکلو“ کی ”چیں چیں“ کی مخصوص آواز سے یہ مرض ختم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”چیکلو“ اکثر و بیشتر مویشیوں کے باڑے میں پایا جاتا ہے۔

 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223235 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.