سکواش ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ، چیری اور چیف سیکرٹری
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
قیوم سپورٹس کمپلیکس پشاور میں کھیلوں کی سرگرمیوں کا ایک مرتبہ پھر آغاز ہوگیا ، کرونا کی تیسری لہر کے باعث کھیلوں کی سرگرمیاں مکمل طور پر بند تھی - جس کے باعث کھلاڑیوں کی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی تھی بیشتر کھلاڑیوں نے دیگر سرگرمیوں میں اپنے آپ کو مشغول کرلیا- تاہم خیبر پختونخواہ کے سرکاری بینک کی جانب سے سکواش کے کھلاڑیوں کیلئے تین سالہ پروگرام شروع کیا گیا جس کے اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز تھے. اس سے پہلے بھی کرونا کے دوسری لہر کے بعد ڈاکٹر کاظم نیاز نے قیوم سپورٹس کمپلیکس میں باقاعدہ کھیلوں کی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا جبکہ گذشتہ روز بھی انہوں نے اختتامی تقریب میں شرکت کرکے ایک طرح سے کھیلوں کی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا جس کے بعد ان ڈور سرگرمیاں بھی اوپن ہوگئی ہیں. سرکاری بینک کی جانب سے اس پروگرام کو مخصوص لوگوں کے ذریعے مشتہر کیا گیا تھا اسی باعث اتنی پذیرائی ابتداءمیں سکواش کے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کو نہیں ملی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈائریکٹر جنرل اسفندیار خٹک اور دیگر نے مسلسل ٹیلنٹ ہنٹ سکیم کے ذریعے آنیوالے کھلاڑیوں کے کھیل کو دیکھا تاہم اختتامی تقریب بھی کچھ عجیب سی رہی ، پروگرام کے بارے میں تین بجے بتایا گیاتھا تاہم چیف سیکرٹری خیبر پختونخواہ چار بجے ہی آئے ، شائد ایک گھنٹہ لیٹ آنا ان کی مجبوری ہو ، میٹنگ اور ضروری کام بھی ہوسکتے ہیں تاہم دوسرے لوگوں کو بھی کام ہوسکتے ہیں دوسرے بھی اتنے فارغ نہیں ہوتے کہ ایک گھنٹے تک انتظار کرتے رہے . شائد یہ بھی بیورو کریسی کا ایک خاصہ ہے ، عوام اور خاص میں فرق تو ہونا چاہئیے.لیکن ان کی آمد کا ایک گھنٹہ غریب کلاس فور ملازمین کو سخت مشکل میں ڈال گیا تھا. ہر پانچ منٹ بعد صفائی کی صورتحال نے اس گرمی میں کلاس فور کے ملازمین کا بیڑہ غرق کردیا. انہی ملازمین جو آج بھی خیبر پختونخواہ حکومت کی اپنی ہی اعلان کردہ اکیس ہزار روپے کے بجائے پندرہ ہزار روپے میں کام کررہے ہیں لیکن بہت سارے لوگوں کو ان غریبوں کی یہ مجبوریاں نظر نہیں آتی . لیکن خیر.. چیف سیکرٹری نے بیڈمنٹن ہال کا افتتاح بھی کردیا جسے سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے حال ہی میں از سر نو تعمیر کیا تھا بعدازاں انہوں نے سکواش کورٹ کا دورہ کیا اور انہوں نے سکواش کے کھلاڑیو ں کے کھیل کو دیکھا تاہم سب سے عجیب بات جو دیکھنے میں آئی کہ سرکاری بینک کے اہلکار جو اس پروگرام کے سپانسر تھے آخری وقت میں جب چیف سیکرٹری نے آنا تھا نے اپنے تیار کردہ ٹی شرٹ لڑکوں اور لڑکیوں میں تقسیم کرنا شروع کردئیے اور ساتھ میں ہدایات بھی دینا شروع کردئیے کہ اسے پہن لیں کیونکہ مہمان خصوصی نے آنا ہے ساتھ میں میڈیا بھی ہے تو انہیں کوریج بھی ملے گی. لڑکوں نے سکواش کورٹ میں کھڑے کھڑے پہن لی لیکن سکواش کی کھلاڑی لڑکیوں نے ٹی شرٹ لے لئے لیکن اتنے جم غفیر میں پہننا .. یہ بڑے دل گردے کا کام ہے سرکاری بینک کے اہلکار سے اس بارے میں پتہ کیا تو پتہ چلا کہ کچھ کلر کا مسئلہ تھا اس لئے دوبارہ پرنٹنگ کیلئے بھیجے گئے تھے اس لئے لیٹ ہوگئے. لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر کئی دنوں سے ٹورنامنٹ چل رہا تھا ایسے میں آخری وقت میں ٹی شرٹ دیکھنے کی کیا تک تھی. اور کیا یہ پروگرام جلدی میں شروع کیا گیا تھا کہ ٹی شرٹ تیار نہیں ہوئے تھے. لیکن شائد یہ سرکار کے کام ہیں اس لئے سرکار ہی بہتر جانے.. کسی بھی پروگرام کی کوریج میڈیا کی ذمہ داری اور موجودہ حالات میں کمزوری بھی ہے قیوم سپورٹس کمپلیکس میں ہونیوالی اس اختتامی تقریب کوابتداءمیں تو " چیری " والوں چھپا کر صرف اپنے تک محدود رکھنے کی کوشش کی لیکن جب سب میڈیا کو پتہ چلا اور میڈیا کوریج کیلئے پہنچ گیا تو حال ہی میں تبدیل ہوکرقیوم سپورٹس کمپلیکس آنیوالے ایک صاحب نے یہ اعتراض کردیا کہ " کھلاڑیوں سے زیادہ میڈیا والے" آئے ہیں حالانکہ بقول ایک صاحب کے ایک سو بیالیس کھلاڑی آئے تھے جن میںان کے والدین بھی شامل تھے ایسے میں اگر " مخصوص " میڈیا کے علاوہ کوئی اور کوریج کیلئے آگیا تو اس میں برا ماننے کی بات نہیں.حالانکہ سرکاری ملازمین کے علاوہ میڈیا کی پانچ سے چھ ٹیمیں آئی ہوئی تھی.صاحب لوگوں کو خوش ہونے کی ضرورت ہے کہ تبدیلی کی اس دور میں بھی کچھ نہ کچھ مثبت دکھایا جارہا ہے. حالانکہ دکھانے کیلئے اور بھی بہت کچھ ہے. چیف سیکرٹری خیبر پختونخواہ ڈاکٹر کاظم نیاز نے کھیل اور کھلاڑیوں کے بارے میں میڈیا سے باتیں تو کم کی البتہ انہوں نے کرونا کے حوالے سے خوب باتیں کی-نصیحتیں بھی کیں اور ساتھ میں یہ بھی تجویز پیش کی کہ موبائل گاڑی لائی جائے جو کہ سپورٹس سرگرمیاں کرنے والے کھلاڑیوں کی ویکسینشن کا عمل کرائے انہوں نے اس معاملے میں ڈی جی سپورٹس کو اقدامات اٹھانے کی ہدایت بھی کی. تاکہ کھلاڑیوں کو سہولت بھی ہو اور ساتھ میں کرونا کے خطرے سے بھی بچا جاسکے. سرکاری بینک نے انتظامات تو کسی حد تک بہتر کئے تھے لیکن چیف سیکرٹری کو کان میں ایک صاحب نے کان میں کہہ دیا کہ اتنے کھلاڑی آئے ہوئے ہیں یہی صاحب پورے پروگرام پر چھانے کی کوشش کرتے رہے کہ کس طرح فیتہ کاٹنا ہے ، کس طرح چیف سیکرٹری نے کتنی معلومات دینی ہے ، حتی کہ میڈیا کو" کیو" بھی وہ صاحب ہی دیتے رہے.سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے " گڈ بک" میں شامل یہی صاحب بھی سرکار کے ہی ملازم ہے .لیکن انہوں نے یہ طریقہ سیکھا ہے کہ اپنی "زبان " اور "چیری "کا استعمال انہوں نے کہاں پر اور کیسے کرنا ہے.. شائد سرکاری بینک کے ملازمین چیف سیکرٹری کو بریف نہیں کرسکے تھے البتہ بینک کی ایک اچھی کاوش جو کہ انہوں نے کی تھی کہ فرسٹ ونرز کیلئے ساٹھ ہزار روپے کا چیک بنایا تھا اسے سب کے سامنے چھ ہزار کا کہا گیا تاہم بعد میں تصیحح کروائی گئی. کھیلوں کے فروغ کیلئے خیبر پختونخواہ حکومت کی کاوشیں کتنی اہم ہیں اور موجودہ حکومت اس حوالے سے کتنی اچھی اقدامات اٹھا رہی ہیں اس کا اندازہ گذشتہ دنوں راولپنڈی میں ہونیوالی ایک پروگرام میں ہوا جس میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی اور پنجاب سپورٹس بورڈ کے ملازم نے یہ کہہ کر حیران کردیا کہ خیبر پختونخواہ حکومت کی کھلاڑیوں کی پروموشن کیلئے کی جانیوالی کوششیں بہترین ہیں اور اگلے پانچ سے دس سالوں میں اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اچھے کھلاڑی صوبے سے نکل سکیں گے . گذشتہ روز سکواش ٹیلنٹ ہنٹ کے پروگرام میں یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی کہ ایک کھیل کی طرف تو توجہ ہوگئی ہے لیکن خدارا ! اس معاملے میں میرٹ کا خیال رکھا جائے کہ مستقبل میں عام لوگ" کوچ "بن کر یورپ کیلئے " اڑنچھو"نہ ہو جائے..
|