ہم آخر فرقہ واریت کی آگ میں کیوں مبتلا ہیں۔

کیا خوب کہا ہے اقبال نے!
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے یہی باتیں ہیں

چند مہینے پہلے کی بات ہے کہ ہمارے کوچنگ سینٹر(Coaching centre) میں نیو ایڈمیشن(New admission) آیا تھا- ہمارے کوچنگ کے قریب ایک مسجد ہے جہاں نماز کے وقت تمام طلباء نماز پڑھنے کے لیے جاتے ہیں۔ وہ لڑکا ماشاءاللہ پڑھائی کے لحاظ سے بہت ذہین تھا،اور ایک دینی مدرسے کا طلب علم بھی تھا۔ چند دن بعد معلوم ہوا کہ کوچنگ کے قریب جو مسجد ہے وہاں وہ نماز پڑھنے نہیں جارہا، بلکہ اپنے محلے میں نماز پڑھنے جاتا۔ چونکہ ان کے محلے میں جو مسجد تھی وہ ان کے مسلک کی تھی اور جو مسجد کو چنگ کے قریب تھی وہ ان کے مخالف مسلک کی تھی اس لیے وہ نماز پڑھنے کے لیے اپنے علاقے کے مسجد میں جاتا، لہٰذا ہمارے استاد جی نے ان سے پوچھا کہ جب قریب ہی مسجد ہے تو آپ یہاں نماز کیوں نہیں پڑھتے اور اپنے علاقے میں پڑھتے ہو اس کی کیا وجہ ہے تو اس لڑکے نے جواب دیا کہ یہ مسجد ہمارے مسلک کی نہیں ہے اور ہمارا نظریہ الگ ہے اس لیے میں اپنے مسلک کی مسجد میں نماز پڑھتا .

مندرجہ بالا واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم کس قدر فرقہ واریت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ ٹھیک ہے ہمارے نظریات میں اختلافات ہیں مگر ان اختلافات کا مطلب ہرگز یہ نہیں کے ہم ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہ پڑھیں۔ بے شک فرقے ہوں گے کیوں کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 72 فرقے ہوں گے۔ اب جو بات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائی ہوئی ہو وہ بات غلط نہیں ہو سکتی، مگر بات کہنے کی یہ ہے کہ ہم نے اپنے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے جو نفرتیں پیدا کیے ہیں یہ نفرتیں امت مسلمہ اور مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ہمارے فرقے مختلف ضرور ہیں، مگر ہم ایک ہی اللہ کو ماننے والے ہیں، اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ ہمارا دین اور مذہب ایک ہی ہے۔ ہم ایک ہی قرآن کو ماننے والے ہیں۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اخوت کا درس دیا ہے۔ ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اتحاد اور اتفاق کے ساتھ رہیں، اور آپس کے اختلافات کو بھول جائیں۔

میں سب کو نہیں کہہ رہا بلکہ ان کو کہہ رہا ہوں جو اس فرقہ واریت کی آگ میں مبتلا ہیں۔ میرا مقصد کسی بھی فرقے کو برا بھلا کہنے کا نہیں ہے، ہر کسی کو اپنے فرقے پر بالکل ثابت قدم رہنے کا پورا حق ہے۔ ہمارے نظریات میں جو اختلافات ہیں ہم ان اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو برا بھلا بالکل بھی نہیں کہہ سکتے، اور سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ جن معاملات میں ہمیں اختلافات ہیں ہم ان اختلافات کو تو دیکھتے ہیں، مگر جن معاملات میں ہم اتفاق رکھتے ہیں ان معاملات پر ہم غور نہیں کرتے۔ ایسا آخر کیوں ہے؟

میں کسی بھی مسلک کو برا بھلا نہیں کہہ رہا بلکہ میں تمام مسلک کے علمائے کرام کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور ان کی جن باتوں پر مجھے اتفاق ہو میں ان باتوں کو مان لیتا ہوں ہوں اور جن باتوں پر مجھے اختلاف ہو ان باتوں کی بنا پر میں ان کو برا بھلا نہیں کہتا۔

ہم سب کا مقصد ایک ہی ہے۔ ہم سب کو نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ختم نبوت پر ہم سب کا ایمان ہے۔ آخرت پر ہم سب کا ایمان ہے۔ فرشتوں کے وجود پر ہم سب کا ایمان ہے۔ تمام انبیاء کرام پر ہم سب کا ایمان ہے۔ جنت اور دوزخ پر ہم سب کا ایمان ہے۔ اللہ تعالی کی واحدانیت پر ہم سب کا ایمان ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالی کی آخری کتاب ہے اس پر ہم سب کا ایمان ہے جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اس پر ہم سب کا ایمان ہے۔ ہمارا قبلہ ایک ہی ہے جس کی طرف رخ کر کے ہم نماز پڑھتے ہیں اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن پر تمام مسالک کا اتفاق ہے تو پھر چند مسئلوں پر ہم کیوں ایک دوسرے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

ان سب باتوں سے ہمیں ایک امت بننے کا سبق ملتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم فرقہ واریت کو چھوڑ کر ایک امت بن جائیں۔

اپنی تحریر کا اختتام علامہ اقبال کی ایک بند سے کرتا ہوں۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
 
Jasim Baloch
About the Author: Jasim Baloch Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.