فہمیدہ مرزا کے نام کھلاڑیوں کا خط
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کیا ایک ہی جم خانے کو جو کاغذات میں پاکستا ن سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ کی ملکیت میں ہو ، اور اسے بجلی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ خیبر پختونخواہ فراہم کرتی ہو . اس سے حاصل ہونیوالی آمدنی اب کس کی ملکیت میں شمار ہوگی .یہ وہ سوال ہیں جو آپ کو بطور وزیر خود اپنے سٹاف سے کرنے کی ضرورت ہے.کہ اس بے قاعدگیوں میں کون ملوث ہیں اور اس سے فائدہ کس کو حاصل ہورہا ہے . |
|
آپ کی بطور آئی پی سی وزارت پر ہم بہت خوش تھے کہ کم از کم کھیلوں کو فروغ حاصل ہوگا اور حق دار کو حق ملنے کے ساتھ ساتھ جھوٹے اور فریبی لوگوں سے نجات ملے گی . جوجعلی ڈاکومنٹیشن اور میڈیکل بل جمع کرکے لاکھوں روپے اڑاتے تھے.لیکن اب ہم کھلاڑی مایوسی کا شکار ہوگئے ہیں. ہم ان چند کھلاڑیوں میں شامل ہیں جو کہ پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر پشاور میں کھیلتے تھے ہم سے ہر ماہ فیس کی مد میں رقم بھی وصول کی جارہی ہیں لیکن ہمیں کھیلنے نہیں دیا جارہا - یہ صرف ہمارے سکواش کے کھلاڑیوں کے ساتھ نہیں بلکہ بیڈمنٹن ، جوڈو اور آرچری کے کھلاڑیوں کیساتھ بھی ہورہا ہے . کروڑوں روپے کی زمین پرگذشتہ تین ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا ہے ہم فیسیں بھی جمع کرا رہے ہیں لیکن ہمیں کھیلنے کے مواقع فراہم نہیں کئے جارہے اور بہانہ یہ کیا جارہا ہے کہ ان ڈورگیمز بند ہے پہلے ہمیں یہ کہا جاتا تھا کہ خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹوریٹ جس طرح کی پالیسی اپنائے گی اس طرح کی پالیسی ہماری بھی ہوگی ، لیکن اب تو کرونا کی تیسری لہر بھی ختم ہوگئی ہیں اور خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹوریٹ میں کھیلوں کی انڈور اور آوٹ ڈور سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں لیکن پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر پشاور میں کھیلوں کی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہیں. اور بہانہ کیا جارہا ہے کہ اسلام آباد سے پالیسی آئیگی تو ہم اس پر کام کرینگے لیکن ... صرف ایک ان ڈور گیم کیلئے جم خانہ کھلا ہے جو نہ صرف کرونا کے دوران کھلا تھا بلکہ رمضان المبارک کے دوران بھی اس میں تربیتی سیشن ہوتے رہے اور متعدد کھلاڑیوں نے اپنے لائیو ویڈیو کی ریکارڈنگ کرکے اپنے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پر ڈال دی ہیں- حالانکہ اس جم کی کوئی قانونی حیثیت ہی نہیں ، کیونکہ اسے بجلی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ نے فراہم کی ہیں جبکہ اس کی بلڈنگ پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ کی ہیں . ایسے میں کیا پرائیویٹ افراد یہاں پر جم خانہ کھول سکتے ہیں یہ وہ سوال ہیں جو آپ بطور وزیر آئی پی سی کرسکتی ہیں- کیا ایک ہی جم خانے کو جو کاغذات میں پاکستا ن سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ کی ملکیت میں ہو ، اور اسے بجلی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ خیبر پختونخواہ فراہم کرتی ہو . اس سے حاصل ہونیوالی آمدنی اب کس کی ملکیت میں شمار ہوگی .یہ وہ سوال ہیں جو آپ کو بطور وزیر خود اپنے سٹاف سے کرنے کی ضرورت ہے.کہ اس بے قاعدگیوں میں کون ملوث ہیں اور اس سے فائدہ کس کو حاصل ہورہا ہے . محترمہ فہمیدہ مرزا صاحبہ! ہم کسی کھیل کے خلاف نہیں ، نہ ہی کسی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں لیکن کیا یہ ہمارا حق نہیں کہ ہم کھیل سکیں ، پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر کھلاڑیوں کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے بڑا ادارہ ہے جس کے چاروں صوبوں میں بڑے بڑے دفاتر اور بلڈنگ موجود ہیں جہاں پر کھیلنے کیلئے کھلاڑی آتے ہیں اسی طرح ہاسٹل کی سہولت بھی میسر ہیں لیکن اس سے کھلاڑیوں کو کتنا فائدہ ہورہا ہے اس بارے میں آپ ہی بہتر جان سکتی ہیں. ایک زمانے میں ہمارے سکواش کے کھلاڑیوں کیلئے پی ایس بی اسلام آباد کی انتظامیہ کٹس اور دیگر سامان تک فراہم کرتی تھی جس میں بھی گھپلے اسلام آباد والو ں نے کردئیے اور اس میں رگڑا ہمیں ملا کیونکہ ہمیں بطور کھلاڑی کھیلنے کیلئے سامان ملتا تھا لیکن خرد برد کی نشاندہی کے بعد کھلاڑیوں کو سامان کی فراہمی بھی بند کردی گئی ، حالانکہ کھیلوں کا سامان فراہم کرنے سے ہم جیسے بہت سارے غریب کھلاڑیوں کی مشکلات ہو جاتی . لیکن .. چونکہ آپ آئی پی سی کی وزیر ہیں اس لئے ہماری یہ درخواست آپ کے پاس آئیگی آپ ہی اس بات کی انکوائری کریں کہ پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر پشاور میں کھلاڑیوں کیساتھ جانبداری کا سلوک کیوں کیا جارہا ہے کھلاڑیوں سے ماہانہ فیسوں کی وصولی کے باوجود انہیں کھیلنے کیلئے مواقع فراہم نہ کرنا کیا کھیلوں اور کھلاڑیوں کیساتھ زیادتی نہیں. اور کیااس کی بھی کوئی انکوائری ہوگی . اور کیا اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہو سکے گی ..
شکریہ متاثرہ کھلاڑی
|