سالانہ گرانٹس، کھیلوں کی ایسوسی ایشنز اور صحافیوں کی ایسوسی ایشن کیلئے الگ قانون. چہ معنی

خدارا.قانون سب کیلئے یکساں کریں، یہ عمران خان کے وژن بھی ہے کہ وہ کھیلوں کے فروغ کیلئے کوششیں کرینگے اور کسی بھی غلط اقدام کے خلاف کاروائینگے اب صوبائی وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود جو کھیلوں کے نگران وزیر ہیں کا بھی امتحان ہیں کہ جو قانون فنڈز کے حوالے سے ایسوسی ایشنز پر لاگو ہیں کیا کھیلوں کی کوریج کرنے والے مخصوص نیم چہ صحافیوں پر لاگو نہیں.. اگر ہے تو آڈٹ کدھر ہے.اور اگر نہیں تو پھر یہ منافقوں کی طرح کھیلوں میں شفافیت اور احتساب کے نعرے بند کئے جائیں
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے پاس اس وقت کم و بیش پینتالیس کے قریب کھیلوں کی ایسوسی ایشنز ہیں جنہیں سالانہ گرانٹس کی مد میں لاکھوں روپے ملتے ہیں یہ رقم کھیلوں کے مختلف مقابلوں کے انعقاد کیلئے ملتی ہیں تاہم ان میں بیشتر ایسوسی ایشنز کی کوئی قانونی حیثیت ہی نہیں، کیونکہ نہ تو یہ کسی سرکاری ادارے کے پاس رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی ان میں پورے صوبے سے نمائندے شامل ہیں جبکہ حال ہی میں صوبے میں ضم ہونیوالے قبائلی اضلاع کو ان ایسوسی ایشنز میں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے -جبکہ بعض ایسوسی ایشنز باپ بیٹے، بھائی، بھائی سمیت رشتہ داروں کے مابین مل بیٹھ کر کام کرنے پر چل رہی ہیں.یہ ایسوسی ایشنز کھیلوں کے گرانٹس کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے درخواست کرتی ہیں اور انہیں سالانہ بنیاد پر گرانٹس ملتی ہیں جو آڈٹ کے بعد جاری ہوتی ہیں تاہم آج تک کسی کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ ان ایسوسی ایشنز کی قانونی حیثیت اوران کے ممبران پر سوال اٹھائے. حتی کہ وزیراعلی خیبر پختونخواہ جو کھیلوں کے وزارت کے نگران وزیر بھی ہیں اور کھیلوں کے فروغ کے متعدد منصوبے ا ن کی دلچسپی کی وجہ سے چل رہے ہیں تاہم اس معاملے میں یا تو وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے پاس وقت نہیں، یا پھر انہوں نے اس معاملے کو سپورٹس سیکرٹری اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ پر چھوڑدیا ہے کہ وہ اس معاملے میں کچھ کرینگی تاہم یہ معاملہ وزیراعلی کے نگران وزیر کھیل بننے کے باوجود بھی اندھیرے میں ہی ہیں اور لگتا یہی ہے کہ اندھیرے میں ہی رہیں گے.
.
کرونا کے باعث گذشتہ دو سالوں سے بند کھیلوں کی سرگرمیوں نے جہاں کھیلوں کی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے وہیں پر کھلاڑی بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں لیکن مجال ہے کہ سپورٹس ایسوسی ایشنز کے کسی بھی عہدے میں کوئی تبدیلی آئی ہو، کوئی انتخاب ہوا ہو حتی کہ کھیلوں کی سرگرمیوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی تنظیم بھی گذشتہ تین سالوں سے بغیر انتخابات کے چل رہی ہیں ایسے میں اگر کوئی صحافی سوال اٹھاتا ہے تو ایسوی ایشنز بھی یہی سوال آٹھاتی ہیں کہ صحافی کونسے قانون پسند ہیں اپنے لئے الگ قانون ہے اور ہمارے ایسوسی ایشنز کیلئے الگ قانون ہیں اس لئے اس معاملے میں کوئی کھل کر بولنے کی ہمت نہیں کرپاتا.سال 2020سے لیکر جون 2021 تک چند مخصوص کھیلوں کے علاوہ کسی بھی کھیل کے ایسوسی ایشنز نے کھیلوں کے مقابلے نہیں کروائے، نہ ہی اپنے کھیلوں کے کیلنڈر جاری کروائے ہیں اور کرونا کے باعث بیشتر ایسوسی ایشنز کے عہدیدار گھر بیٹھ گئے تھے تاہم نئے مالی سال کی آمد کے ساتھ نہ صرف کھیلوں کے ایسوسی ایشنز کے عہدیدار بلکہ صحافیوں کی نام نہاد تنظیم بھی فنڈز کیلئے نکل آئی ہیں.

سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر سرپرستی چلنے والے چند ایک کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کی چند مخصوص سرگرمیاں اور ٹورنامنٹ ہوئے تاہم قومی سطح کے ان مقابلوں میں "چپڑی چپڑی اور دو دو"کے مصداق صوبائی سطح کے مقابلے بھی کروائے گئے اور یوں ایک ہی تیر سے دو شکار کرتے ہوئے یہ ظاہر کیا گیا کہ کھیلوں کی مختلف سرگرمیاں ہوئی ہیں بعض ایسوسی ایشنز نے مالی سال کے اختتام پر سالانہ گرانٹس کی خاطر جلدی جلدی نام نہا د الیکشن بھی کروا دئیے تاکہ ان کا کام چلتا رہے اور سرکار کی جانب سے انہیں سالانہ گرانٹس بھی ملے.تاہم بیشتر ایسوسی ایشنز کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے یہ کہہ کر فنڈز دینے سے معذرت کرلی ہے کہ کرونا کے باعث کھیلوں کی سرگرمیاں تو اول صوبے میں ہوئی ہی نہیں پھر انہیں سالانہ گرانٹس کس کھاتے میں دی جائے.

اس بات کی تصدیق سال 2020 سے لیکر اب تک کھیلوں کی مقابلوں سے کروائی جاسکتی ہیں کہ سوائے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے چند مقابلوں کے کوئی مقابلے ہی نہیں کروائے گئے جبکہ جن ایسوسی ایشنز کے مقابلے بھی ہوگئے انہوں نے اپنے قومی سطح کے مقابلوں میں صوبائی سطح کے مقابلوں بھی اندرون خانہ کروا کر فنڈز کو حلال کرنے کی کوشش کی.جبکہ نئے مال سال کی آمد کے پیش نظر ایسے ایسوسی ایشنز جن کی سرگرمیاں تو کیا تو ان کا وجود بھی نہیں تھا جون سے قبل ہی مارکیٹ میں ظاہر ہوگئیں اور گرانٹس کیلئے درخواستیں بھی دیدی-انہیں رقم ملے گی یا نہیں یہ تو آنیوالے دنوں میں پتہ چلے گا.

دوسری طرف خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈائریکٹر جنرل اسفندیار خٹک نے گذشتہ روز ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران اس بات کی تصدیق کی کہ چونکہ یہ پبلک منی ہے اور گرانٹس کی شکل میں مختلف ایسوسی ایشنز کو سالانہ بنیاد پر ملتی ہیں لیکن چونکہ کرونا کی وجہ سے گذشتہ دو سالوں سے کوئی ٹورنامنٹ نہیں ہوا اس لئے اب میرٹ کی بنیاد پر یہ رقم ادا کی جائیگی اور اگر کوئی میرٹ پر اس رقم پر انہیں اترا تو یہ رقم واپس صوبائی حکومت کو سرنڈر کی جائیگی.ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ کی باتیں سرآنکھوں پر، لیکن اس پر عملدرآمد کون کروائے گا اور کتنا ہوگا یہ وہ سوال ہے جب اس بارے میں سپورٹس ایسوسی ایشنزکے بعض افراد کا موقف ہے کہ اگر فنڈز ایسوسی ایشنز کو نہیں ملتا تو پھر صحافیو ں کی ایسوسی ایشنز کو کیسے ملتا ہے.

یہ وہ سوال ہے جو یقینا ٹھیک اور سو فیصد درست بھی ہے کیا سپورٹس کی کوریج کرنے والے ایسوسی ایشن نے کوئی کوریج کی ہے، اگر کرونا کی وجہ سے مقابلے نہیں ہوئے تو پھر کوریج کس بات کی ہوئی ہے اور انہیں فنڈز کس کھاتے میں ملی ہیں، ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں کا یہ موقف بھی ٹھیک ہے کیونکہ جس لاٹھی سے ایسوسی ایشن کو ہانکا جاتا ہے یہی لاٹھی صحافیوں کی تنظیم پر بھی عائد ہوتی ہیں -ایک ایسی تنظیم جس پر پریس کلب پشاور میں بھی اعتراض اٹھایا گیا، جس کی اپنی کوئی قانونی حیثیت ہی نہیں، نہ ہی پشاور پریس کلب اور خیبر یونین آف جرنلسٹس نے اس تنظیم کو مانا ہے پھر ایسی تنظیم کس کھاتے میں صوبائی حکومت سے فنڈز لیتی ہیں اور اگر لیتی بھی ہے تو پھر یہ فنڈز چند بارہ افراد کے جیبوں میں جانے کے بجائے ساڑھے پانچ سو صحافیوں کو کیوں نہ دی جائے جو ہر طرح سے کھیلو ں کی سرگرمیوں کی کوریج کرتے ہیں - صحافی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی قانون سے بالاتر ہے. اور کیا ایسے ایسوسی ایشن کی کوئی قانونی حیثیت ہے جس کے ایسے ممبران ہوں جو سرکار کے ملازم ہوں. اور ایسے ممبر بھی ہوں جن کے فارم ب بھی نہیں بنے لیکن وہ کوالیفائیڈ صحافی بن گئے ہوں..

خدارا.قانون سب کیلئے یکساں کریں، یہ عمران خان کے وژن بھی ہے کہ وہ کھیلوں کے فروغ کیلئے کوششیں کرینگے اور کسی بھی غلط اقدام کے خلاف کاروائینگے اب صوبائی وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود جو کھیلوں کے نگران وزیر ہیں کا بھی امتحان ہیں کہ جو قانون فنڈز کے حوالے سے ایسوسی ایشنز پر لاگو ہیں کیا کھیلوں کی کوریج کرنے والے مخصوص نیم چہ صحافیوں پر لاگو نہیں.. اگر ہے تو آڈٹ کدھر ہے.اور اگر نہیں تو پھر یہ منافقوں کی طرح کھیلوں میں شفافیت اور احتساب کے نعرے بند کئے جائیں

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420536 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More