کھیلوں پر چھائی سیاست ' ضم اضلاع اور صحافی

نئے ضم ہونیوالوں قبائلی اضلاع کا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کہاں پر ہے اور اب تک جاری ہونیوالوں فنڈز کی آڈٹ کسی نے کی ہے ' سٹیٹ بینک سے چادروں میں رقم لیکر آنیوالے ضم اضلاع کا فنڈز کس طرح جاتا ہے کبھی محکمہ انٹی کرپشن ' نیب سمیت کسی بھی سیکورٹی ادارے نے اس حوالے سے کوئی چیکنگ کی ہیں .کہ آخر کروڑوں کے فنڈز جو چادروں میں لائی جاتی ہیں ' غائب ہو جاتی ہیں کسی نے اس با رے میں انکوائری کی .کتنے کروڑکی رقم کی ٹرافیاں پلاسٹک والی قبائلی اضلاع کیلئے لائی گئی ' کتنے شوز اور کٹس لائے گئے ان کی کوالٹی کیا تھی اور مقابلے ہوئے وہ ٹرافیاں ' کٹس کہاں پر ہیں اور کلیئرنس کے باوجود بھی ایسے افراد کو ادائیگی کیسی کی گئی . کتنے کھلاڑی قبائلی علاقوں سے نکلے ہیں ' سوائے کرکٹ کے کھیل کے ' کسی بھی دوسرے کھیل میں ضلع خیبر اور مہمند کے علاوہ دوسرے ضم ہونیوالے اضلاع سے کتنے کھلاڑی مختلف کھیلوں میں آج قومی یا صوبائی سطح کے مقابلوں کی نمایاں پوزیشن پر ہیں. ضم ہونیوالے اضلاع میں کتنے ٹورنامنٹ اور مقابلے کروائے گئے اس کا آڈٹ جاننے کی کبھی وزیراعلی خیبر پختونخواہ ' محکمہ انٹی کرپشن ' نیب سمیت کسی بھی ادارے نے کوشش کی..

پاکستان میں کھیلوں کے میدان میں کھیلوں پر سیاست کرنے والے وہ سیاستدان ہیں جن کے سامنے پاکستانی سیاستدانوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں .پاکستانی سیاستدان مفت میں بدنام ہیں ورنہ کھیلوں کی دنیا میں تو ایسے ایسے نادر نمونے موجود ہیں کہ اگر ان کے کارہائے نمایاں سامنے نظر آئیں تو یقینا اس ملک کے ہر ایک شہری کو سیاستدان کھیلوں کے میدان میں سیاست کرنے والوں کے مقابلے میں بونا ہی نظر آئے گا.قانون کے نظروں سے بچنے کیلئے قانونی خامیوں سے فائدہ کھیلوں کے شعبے سے وابستہ یہ لوگ ایسے اڑاتے ہیں کہ دیکھنے والابھی حیران و پریشان رہ جاتا ہے.

پاکستان میں کھیلوں کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن اولمپک ہی ہے لیکن اس اولمپک ایسوسی ایشن پر بیٹھے افراد کب سے ان عہدوں پر ہیں اس بارے میں لکھنے والے بھی خاموش ہیں ' ہر ایک اپنے آپ کو قانون کی نظر میں رائٹ مین ہی ظاہر کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اولمپک میں پاکستان کی مختلف کھیلوں میں پوزیشن کیا ہے ' یہ وہ سوال ہے جو اس ملک کے ہر ایک شہری کو کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ گذشتہ کئی سالوں سے تو صرف مانگے کے کارڈز پر پاکستانی کھلاڑی اولمپک کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں. جبکہ کارکردگی کا یہ حال ہے کہ اس بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں کہ اولمپک میں پاکستا ن کے کتنے مقابلے جیتے ہیں اور کب آخری مقابلہ جیتا تھا .اور آخری جیت ہماری کس کھیل میں ہوئی تھی اس بارے میں سوائے چند افراد کے جو کہ اب مافیا کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں کسی کو معلوم ہی نہیں ' اولمپک مقابلوں میں جیتنے والوںکو رقم کتنی آتی ہے اور یہ کس طرح آتی ہے اس بارے میں بھی خاموشی چھائی ہوئی ہیں. اگر کسی کو اس بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے تو پھر " گوگل" سے مدد حاصل کریں اور پاکستان کی اولمپک مقابلو ں میں پوزیشن گذشتہ چار دہائیوں سے دیکھ لیں. اندازہ ہو جائے گا کہ اس مملکت خداداد میں کھیلوں کیساتھ کھلواڑ میں چند مخصوص افراد ہی ٹاپ پوزیشن پر ہیں جس پر بات کرنا ' سوال کرنا بھی بڑی بات ہے کیونکہ یہی لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اس ملک میں کھیلوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں اور یہ ان کی ازلی اور ابدی پوزیشن ہے کہ وہ مخصوص سیٹوں پر براجمان رہیں اور اپنی من مانی کرتے رہیں.مزے کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے آتے ہی سیاستدان میں میدان میں بڑے بڑے برج الٹ دئیے بہت سارے ایسے افراد جوشعبہ سیاست میں اپنے آپ کو وقت کا فرعون سمجھتے تھے اب " ممی والے فرعون" بن چکے ہیں لیکن کھلاڑی کی حکومت میں بھی کھیل کی بہتری کیلئے کوئی کوشش نہیں کی گئی.

خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کی وزارت صوبائی وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان کے پاس ہی ہے ' اور یہ وزارت دوسری مرتبہ ان کے حصہ میں آئی ہیں لیکن اس میںان کی دلچسپی صرف اتنی ہے کہ انہیں جو کچھ تیاربیورو کریسی سے ملتا ہے وہ سوشل میڈیا پر ڈال اپنی حکومت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں کبھی انہوں نے کھیلوں کے میدانوں کی حیثیت جاننے کی کوشش ہی نہیں کی ' صوبے میں کتنے سپورٹس کمپلیکس ہیں ' نئے ضم ہونیوالے قبائلی اضلاع میں کتنے گرائونڈز ہیں جنہیں کمپلیکس کا نام دیا جاتا ہے ویسے سپورٹس کمپلیکس میں کتنے گیمز کھیلے جاتے ہیں اس کے بارے میں بہت ساروں کی معلومات بھی "ایویں " ہی ہے. نئے ضم ہونیوالوں قبائلی اضلاع کا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کہاں پر ہے اور اب تک جاری ہونیوالوں فنڈز کی آڈٹ کسی نے کی ہے ' سٹیٹ بینک سے چادروں میں رقم لیکر آنیوالے ضم اضلاع کا فنڈز کس طرح جاتا ہے کبھی محکمہ انٹی کرپشن ' نیب سمیت کسی بھی سیکورٹی ادارے نے اس حوالے سے کوئی چیکنگ کی ہیں .کہ آخر کروڑوں کے فنڈز جو چادروں میں لائی جاتی ہیں ' غائب ہو جاتی ہیں کسی نے اس با رے میں انکوائری کی .کتنے کروڑکی رقم کی ٹرافیاں پلاسٹک والی قبائلی اضلاع کیلئے لائی گئی ' کتنے شوز اور کٹس لائے گئے ان کی کوالٹی کیا تھی اور مقابلے ہوئے وہ ٹرافیاں ' کٹس کہاں پر ہیں اور کلیئرنس کے باوجود بھی ایسے افراد کو ادائیگی کیسی کی گئی . کتنے کھلاڑی قبائلی علاقوں سے نکلے ہیں ' سوائے کرکٹ کے کھیل کے ' کسی بھی دوسرے کھیل میں ضلع خیبر اور مہمند کے علاوہ دوسرے ضم ہونیوالے اضلاع سے کتنے کھلاڑی مختلف کھیلوں میں آج قومی یا صوبائی سطح کے مقابلوں کی نمایاں پوزیشن پر ہیں. ضم ہونیوالے اضلاع میں کتنے ٹورنامنٹ اور مقابلے کروائے گئے اس کا آڈٹ جاننے کی کبھی وزیراعلی خیبر پختونخواہ ' محکمہ انٹی کرپشن ' نیب سمیت کسی بھی ادارے نے کوشش کی.. نہیں . کیونکہ سب کچھ "نعروں پر چلتا ہے" اور ڈھول کی تھاپ پر ڈانس کرنے والوں کو صرف ڈھول اور نعرے ہی دیکھنے میں او ر سننے میں آتے ہیں اور کچھ نہیں آتا.

بے خبر ی اور صرف اپنے مقصد کے حصول کے اس کھیل میں ذمہ داری صرف اولمپک پر عائد نہیں ہوتی ' نہ ہی حکمران اور ان کے ادارے صرف ذمہ دار ہیں بلکہ کھیلوں کی تباہی میں مخصوص صحافیوں کابھی بڑا ہاتھ ہے جنہیں صرف اپنے پیٹ اور اپنے بچوں کا غم کھائے جاتا ہے انہیں قوم کے بچوں کا غم نہیں ' اگر کھیلوں کے میدان میں سیاست کرنے والوں نے بڑے بڑے بنگلے اور گاڑیاں خرید لی ہیں تو پیٹ بھرنے اور بھرانے کی اس بے مقصد کھیل میں مخصوص صحافیوں نے بھی اپنی جیبیں بھر لی ہیں اور بغیر ڈکار لئے ایسے ایسے کام کئے ہیں جن کے بارے میں سوچنا بھی بڑے دل گردے کی بات ہے ' کیا اب تک کھیلوں کے میدان سے وابستہ کسی صحافی نے کسی خامی کی نشاندہی کی ہے ' یہ صر ف خیبر پختونخواہ تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک کے اس شعبے سے وابستہ صحافیوں کا ڈیٹا چھان لیجیے جب وہ اس شعبے میں آئے تھے تو ان کی حیثیت کیا تھی اور اب ان کی حیثیت کیا ہے' گزشتہ چالیس سالوں کا ریکارڈ چیک کیجئے ' کتنے صحافی اس ملک سے اس کھیل کی آڑ میں فرار ہوگئے ' اور انہیں فرار کروانے والے کون تھے. کیا ان سب کا احتساب بشمول صحافیوں کے کھلاڑی کے اس حکومت میں ممکن ہے.. یہ وہ سوال ہیں جو پوری قوم کھلاڑی سے جاننا چاہتی ہیں.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 498524 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More