#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالنُور ،
اٰیت 1 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیات !!
سورة
انزلنٰہا و
فرضنٰہا و
انزلنا فیھا
اٰیٰت بینٰت
لعلکم تذکرون 1
ھم نے اپنے تمام جہان کو اپنے تمام اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُورانی جاۓ پناہ
بنا دیا ھے اور ھم نے اپنے تمام جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُرانی قانُون
بنا کر اُس قانُون کو اپنے جُملہ جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک ایسا قانُونِ
راہ بنا دیا ھے جو ھمارا ایک مُفصل بیانیہ ھے اور ھم نے اپنے اِس بیانیۓ کا
یہ اہتمام اِس لیۓ کیا ھے کہ شاید تُم اِس قدیم قوم کے اِس قدیم اور فطری
قانُونِ جہان کو اپنے خیال میں لاسکو اور شاید تُم اِس قدیم اور فطری
قانُونِ جہان سے اپنے موجُودہ زمان و مکان میں ایک مُتمدن انسانی معاشرہ
بنا سکو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
ھم اِس سُورت کے کلمہِ تَمہید میں عرض کر چکے ہیں کہ عُلماۓ روایت نے اِس
نُورانی سُورت کے بارے میں اپنی ایک ظُلماتی شانِ نزُول کے عُنوان سے جو
تین ظُلماتی باتیں مشہُور کر رکھی ہیں اُن تین مشہُور باتوں میں سے پہلی
مشہُور بات یہ ھے کہ اِس سُورت کی دُوسری اٰیت میں "زنا" کا جو لفظ آیا ھے
اُس سے مُراد مرد و زَن کا وہ ناجائز جنسی تعلق ھے جو ہر انسانی معاشرے میں
ہمیشہ ہی ایک مُجرمانہ و قابلِ سزا عمل رہا ھے ، عُلماۓ روایت نے اِس سُورت
کی اسی روایتی شانِ نزُول کے اسی حوالے سے جو دُوسری بات مشہُور کر رکھی ھے
وہ یہ ھے کہ جو مرد و زَن اِس جُرم کا ارتکاب کرتے ہیں اُن کی کم سے کم سزا
اُن کو سرِ عام 100 تازیانے لگانا اور اُن کی زیادہ سے زیادہ سزا اُن کو
سرِ عام پَتھر مار مار کر ہلاک کر دینا ھے اور عُلماۓ روایت نے اِس سُورت
کی اسی روایتی شانِ نزُول سے جو تیسری بات مشہُور کر رکھی ھے وہ یہ ھے کہ
سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے میں بعض منافقینِ زمانہ نے سیدنا محمد
علیہ السلام کی اہلیہ سیدہ عائشہ صدیقہ پر بھی اسی جنسی جُرم کا یہی الزام
عائد کیا تھا اور اللہ تعالٰی نے اُن منافقینِ زمانہ کے اِسی بُہتان کو رَد
کرنے کے لیۓ اپنے نبی اور سیدہ عائشہ کے شوہر سیدنا محمد علیہ السلام پر یہ
سُورت نازل کی تھی تاکہ نبی کی اہلیہ پر لگاۓ گۓ منافقین کے اِس بُہتان کی
تردید کی جاۓ لیکن قُرآن کے اپنے بیانیۓ کے مطابق اِس سُورت میں انسان کی
اُس قدیم قابلِ تعریف انسانی معاشرت کا ذکر ہوا ھے جو قدیم قابلِ تعریف
معاشرت اپنے زمانے میں انسانی ھدایت کا ایک ذریعہ رہی ھے اور جو قدیم
معاشرت سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے میں پُہنچ کر ہر سابقہ زمانے کی ہر
سابقہ معاشرت سے زیادہ مثالی معاشرت بن کر ظاہر ہوئی ھے اور مُنکرینِ قُرآن
نے اپنی شیطانی روایات کے ذریعے سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے کی اُسی
نُورانی معاشرت کو ایک ظُلماتی معاشرت ثابت کرنے کے لیۓ اِس سُورت کی ایک
جعلی شانِ نزُول کے حوالے سے وہ تین باتیں مشہُور کی ہیں جن تین باتوں کا
ھم نے اپنے کلامِ سابق و موجُود میں حوالہ دیا ھے ، اِس مضمونِ کلام کے
حوالے سے مُحوّلہ بالا تین باتوں میں سے پہلی دو باتوں کا تعلق چونکہ اِس
سُورت کی دُوسری اٰیت کے ساتھ ھے اِس لیۓ ھم اُن دونوں باتوں کو اِس سُورت
کی اُس دُوسری اٰیت پر اُٹھا رکھتے ہیں اور اِن تین باتوں میں سے تیسری بات
کا تعلق چونکہ پہلی اٰیت کے تَمہیدی مضمون کے ساتھ مُتعلق ھے اِس لیۓ اِن
سطُور میں ھم پہلے اُسی تیسری بات کو ذکر کرتے ہیں اور ھم اِس ذکر سے پہلے
ہی یہ بات بھی عرض کردیتے ہیں کہ اہلِ روایت نے اِس سُورت کی جو ظُلماتی
شانِ نزُول وضع کی ھے اُس ظُلماتی شانِ نزُول کی بُنیاد سیدنا محمد علیہ
السلام کے ساتھ اُن کی دُشمنی ھے اور اُنہوں نے اپنی اُسی شیطانی دُشمنی کے
لفظی اظہار کے لیۓ روایات کا یہ شیطانی جال بنایا اور بچھایا ھے اور پھر
اپنے اُس شیطانی جال کا ہر ایک سرا سیدہ عائشہ کے حوالے سے سیدنا محمد علیہ
السلام کی ذاتِ گرامی تک پُہنچایا ھے اور اُن کے اُس شیطانی جال کا پہلا
سِرا بخاری کی کتاب النکاح کی حدیث 50 77 کا یہ مضمون ھے کہ { عن عائشة
قالت : قلت یا رسول اللہ ، ارءیت لو نزلت وادیا وفیه شجرة قد اکل منھا
ووجدت شجرا لم یؤکل منھا فی ایھا کنت ترتع بعیرک ؟ قال : فی التی لم یرتع
منھا } یعنی سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے آنحضرت سے پُوچھا کہ اگر
آپ جنگل میں جائیں اور وہاں پر ایک ایسا درخت پائیں جس کو اُونٹ چَر گۓ ہوں
اور پھر ایک ایسا درخت دیکھیں جو ہرا بھرا ہو اور کسی جانور نے نہ چرا ہو
تو آپ اپنے اونٹ کو کس درخت سے چرائیں گے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں اپنے اونٹ
کو اُس درخت سے چراؤں گا جس کو کسی اور جانور نے نہ چَرا ہو ، اگر سیدہ
عائشہ نے آپ سے یہ سوال نکاح و رخصتی کے بعد کیا ہوا ہو تا تو یہ ایک بے
مقصد سوال ہوتا لیکن امام بخاری نے اِس مضمون کو بیان کرنے کے لیۓ { نکاح
الاَبکار } کا عُنوان قائم کیا ھے جس کا معنٰی ایک کم سن بچی کا نکاح ھے ،
اِس حدیث اور اِس عُنوانِ حدیث سے امام بخاری نے جو بات ثابت کرنے کی کوشش
کی ھے اِس بات پر ھم کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے لیکن اِس باب کی اِس پہلی
حدیث کے بعد اسی باب کی جو دُوسری حدیث 5078 ھے وہ یہ ھے کہ { عن عائشة
قالت : قال رسول اللہ اریتکِ فی المنام مرتین اذا رجل یحملک فی سرقة حریر
فیقول : ھٰذهٖ امراتک ، فاکشفھا فاذا ھی انت : فاقول : ان یکن ھٰذا من
عنداللہ یمضهٖ } یعنی سیدہ عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت نے مُجھے
بتایا کہ میں نے دو بار تُجھے خواب میں اِس طرح دیکھا کہ ایک شخص تُجھ کو
حریر کے ایک ٹُکڑے میں لپیٹ کر اُٹھاۓ ہوۓ ھے اور کہتا ھے کہ یہ تُمہاری بی
بی ھے ، میں نے وہ کپڑا کھول کر دیکھا تو اندر سے تُم نکلیں ، میں نے سوچا
کہ اگر یہ خواب اللہ تعالٰی کی طرف سے ھے تو ضرور سَچ ثابت ہو گا ، امام
بخاری اپنی اِس حدیث شریف کو بھی اپنے بناۓ ہوۓ اسی عُنوان "نکاح الابکار"
کے زیرِ عُنوان لاۓ ہیں اور یہ ظاہر کرنے کے لیۓ لاۓ ہیں کہ سیدِ عالَم نے
یہ خواب بھی سیدہ عائشہ کے ساتھ نکاح سے پہلے اُن کی کم سنی کے اُسی زمانے
میں دیکھا تھا اور اُسی زمانے میں بیان کیا تھا جب سیدہ عائشہ کی عُمر ابھی
6 برس سے بھی کُچھ کم ہی تھی ، امام بخاری نے سیدہ عائشہ کے مُحوّلہ بالا
اظہارِ خیال اور سیدنا محمد علیہ السلام کے مُحوّلہ بالاخواب کے بعد جو نیا
باب رَقم کیا ھے اُس باب کا عُنوان " تزویج الصغار من الکبار" ھے اور اُس
کا معنٰی ایک بچی کو ایک بُوڑھے کے نکاح میں دینا ھے اور امام بخاری اِس
عُنوان کے زیرِ عُنوان یہ حدیث لاۓ ہیں کہ { ان النبی خطب عائشة الٰی ابی
بکر فقال له ابو بکر : انما انا اخوک ، فقال : انت اخی فی دین اللہ و
کتابهٖ وھی لی حلال } یعنی آنحضرت نے ابو بکر کو عائشہ کے لیۓ پیغام دیا تو
ابو بکر نے کہا میں تو آپ کا بھائی ہوں جس پر آپ نے فرمایا کہ تُم اللہ کے
جس دین اور جس کتاب کے رشتے سے میرے بھائی ہو اُس دین اور اُس کتاب کے رشتے
سے عائشہ میرے لیۓ حلال ھے ، اِس حدیث کا نفسِ مضمون نکاح کا پیغام ھے لیکن
امام بخاری نے نکاح کے اِس پیغام کو "بچی" اور "بُوڑھے" کا عُنوان دے کر یہ
یاد دلایا ھے کہ بُوڑھے نے کسی بچولیۓ کے بغیر ہی بچی کے باپ سے براہِ راست
اپنے لیۓ اُس بچی کا رشتہ مانگا ھے اور بچی کے باپ نے دَبے لفظوں میں انکار
کے بعد بُوڑھے کے دباؤ میں آکر اُس بُوڑھے کو رشتہ دینا قبول کر لیا ھے ،
امام بخاری اِن تین تَمہیدی مقدمات کے بعد ایک مضمون ، ایک مفہوم اور ایک
ہی طرح کے الفاظ پر مُشتمل وہ تین احادیث لاۓ ہیں جن میں سے ایک حدیث کا
عُنوان { انکاح الرجل ولدہ الصغار } ھے جس کا معنٰی یہ ھے کہ آدمی اپنی
نابالغ بیٹی کا نکاح کر سکتا ھے اور دُوسری حدیث کا عُنوان { تزویج الاب
ابنته من الامام } ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ آدمی حاکم کے حُکم پر اپنی بیٹی
اُس کے نکاح میں دے سکتا ھے اور اِس موضوع کی مرکزی حدیث بخاری کی کتاب
النکاح کی حدیث 1560 ھے جس میں کہا گیا ھے کہ { عن عائشة قالت : تزوجنی
النبی فاتتنی امی فادخلتنی الدار فلم یرعنی الّا رسول اللہ ضحی } یعنی سیدہ
عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت نے مُجھ سے نکاح کیا تو میری والدہ میرے پاس
آئیں اور وہ دن کے وقت مُجھے آپ کے گھر لے گئیں ، مُجھے کوئی اپنی والدہ کے
اِس اقدام پر کوئی خوف محسوس نہیں ہوا سواۓ اِس کے کہ چاشت کے وقت جب
اَچانک ہی آنحضرت میرے پاس آۓ اور اُنہوں نے مُجھ سے صحبت کی ، امام بخاری
نے اِس حدیث میں سیدہ عائشہ کے نکاح و رُخصتی کو اِس طرح جمع کردیا ھے کہ
اِدھر نکاح ہوا اور اُدھر فورا رُخصتی ہو گئی ، تقریب نکاح کب ہوئی یا کہاں
ہوئی ؟ اِن باتوں کا تو اِس حدیث میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا لیکن اِس بات
کو عُنوانِ حدیث ضرور بنایا گیا ھے کہ دُلہن کے گھر والوں نے تقریبِ نکاح
کی علامت کے طور بھی کسی روشنی کا انتظام نہیں کیا اور دُلہا بھی اپنے
اَحباب کے ہمراہ سواری پر سوار ہو کر دُلہن کو رُخصت کرکے لے جانے کے لیۓ
دُلہن کے گھر نہیں آیا بلکہ دُلہن کی ماں نے خود ہی اپنے داماد کے گھر
پُہنچا دیا ھے ، عُلماۓ روایت نے اِس سُورت کی شانِ نزُول کے حوالے سے جو
تین باتیں مشہُور کی ہوئی ہیں اُن میں سے تیسری بات کا یہ وہ ابتدائی پس
منظر ھے جس کا انتہائی پس منظر اِس کے بعد آنا ھے !!
|