#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالنُور ، 1
}}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
سورة
انزلنٰہا و
فرضنٰہا و
انزلنا فیھا
اٰیٰت بینٰت
لعلکم تذکرون 1
ھم نے اپنے تمام جہان کو اپنے تمام اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُورانی جاۓ پناہ
بنادیا ھے اور ھم نے اپنے تمام جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُورانی قانُون
بنا کر اُس قانُون کو اپنے جُملہ جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک ایسا قانُونِ
راہ بنادیا ھے جو ھمارا ایک مُفصل بیانیہ ھے اور ھم نے اپنے اِس بیانیۓ کا
یہ اہتمام اِس لیۓ کیا ھے کہ شاید تُم اِس قدیم قوم کے اِس قدیم اور فطری
قانُونِ جہان کو اپنے فکر و خیال میں لا سکو اور شاید تُم اِس قدیم اور
فطری قانُونِ جہان سے اپنے موجُودہ زمان و مکان میں ایک مُتمدن انسانی
معاشرہ بنا سکو !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
اِس سے قبل اِس عُنوان کے زیرِ عُنوان ھم نے عُلماۓ روایت کی جو روایات
امام بخاری کی کتابِ بخاری کے حوالوں سے نقل کی ہیں اُن روایات میں اِن
عُلماۓ روایت نے پہلے سیدہ عائشہ صدیقہ کو ایک کم عُمر بچی کے طور پر
مُتعارف کرایا گیا ھے ، اِس کے بعد اِس کم عُمر بچی کی زبان سے اِس کم عُمر
بچی کو ایک ہَرے بَھرے درخت کے مُشابہ بنا کر اس کم عُمر بچی سے اپنا اظہارِ
ذات کرایا گیا ھے ، پھر سیدنا محمد علیہ السلام سے ایک خواب کے ذریعے اس کم
عُمر بچی کا انتخابِ زوجیت کرایا گیا ھے ، پھر اِس بچی کے والد ابو بکر
صدیق کے ذریعے اِس کم سن بچی کا سیدنا محمد علیہ السلام کے ساتھ بادلِ
نخواستہ رشتہِ زوجیت طے کرایا گیا ھے اور پھر اِس کم عُمر بچی کی والدہ کے
ذریعے اِس بچی کو انتہائی خاموشی کے ساتھ سیدنا محمد علیہ السلام کے گھر
پُہنچایا گیا ھے ، اِن واہیات اہلِ روایات نے اپنی اِن واہیات روایات کے
ذریعے پہلے تو یہ بات ثابت کرنے کوشش کی ھے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ کی عُمر
چونکہ بہت کم اور سیدنا محمد علیہ السلام کی عُمر چونکہ بہت زیادہ تھی اِس
لیۓ یہ رشتہ ایک بے جوڑ رشتہ تھا اور پھر اِن اہلِ روایت نے اپنی اِن
بیہُودہ روایات سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ھے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ کے
والد ابو بکر صدیق نے یہ بے جوڑ رشتہ اپنے جابر حاکم کے ایک جبری حُکم کے
تحت پر قبول کیا تھا لیکن اِس اُمت کے یہ سارے چھوٹے بڑے امام جو اِس بات
کے مُدعی ہیں کہ وہ اپنے اِن قصوں اور کہانیوں کی ایک ایک روایتِ حدیث کو
جمع کرنے کے لیۓ گدھوں ، گھوڑوں ، اونٹوں اور خَچروں پر بیٹھ کر قریہ قریہ
، بستی بستی اور شہر شہر گھومتے رھے ہیں مگر حیرت ھے کہ اِن کے جمعِ حدیث
کے اِن سارے اَسفار میں اِن میں سے کسی ایک راوی کو بھی ایک لَمحے کے لیۓ
بھی کبھی یہ خیال نہیں آیا ھے کہ اُن کے پاس اُن کے اِن قصوں کو جمع کرنے
کا کوئی خُدائی حُکم بھی موجُود نہیں ھے اور اُن کے پاس اِن بے سروپا
کہانیوں کو جمع کرنے کا کوئی عقلی جواز بھی موجُود نہیں ھے لیکن اگر اِن سب
باتوں کے باوجُود بھی اُنہوں نے جمعِ حدیث کا یہ عزم کر ہی لیا تھا تو اِن
کو اپنی زندگی کے کسی موڑ پر قُرآن کی یہ اٰیت کیوں نہیں نظر آئی جس میں
اللہ تعالٰی نے یہ ارشاد فرمایا ھے کہ { النبی اولٰی بالمؤمنین من انفسھم
وازواجه امھٰتھم } یعنی نبی علیہ السلام کی ذاتِ گرامی تمام اہلِ ایمان کے
لیۓ اِن کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز تر ذات ھے اور اِس نبی کی قابلِ احترام
بیویاں اِن کی رُوحانی مائیں ہیں ، کیا اللہ تعالٰی کی اِس زمین پر اِس بد
بخت قوم سے پہلے بھی کبھی کوئی ایسی بدنصیب قوم گزری ھے جس قوم نے پہلے
اپنے نبی کی اور نبی کے بعد اپنی اِن رُوحانی ماؤں کی سیرت و کردار کی کوئی
ایسی شرمناک تصویر بنائی ہو جیسی اِس اُمت کے اِن اماموں نے اپنے عظیم نبی
کی اور پھر اپنی اِن ماؤں سے افضل تر ماؤں کے کردار و عمل کی یہ شرمناک
تصویر بنائی ھے اور پھر نمائشِ عام کے لیۓ یہ شرمناک تصویر کوچہ و بازار
میں بھی لگائی ھے ؟ مگر اِس اُمت کی اِس بدنصیبی کی انتہا تو یہ ھے کہ اِس
اُمت کو کسی نہ کسی ذریعے سے یہ بات تو ہمیشہ ہی معلوم ہوتی رہی ھے کہ
یہُود و نصارٰی دینِ اسلام کے دُشمن ہیں لیکن اِس اُمت کو یہ بات کبھی بھی
معلُوم نہیں ہو سکی اور نہیں ہونے دی کہ دینِ اسلام کے اَصل دُشمن اہلِ
اسلام کے درمیان اہلِ اسلام کے ھادی و رہنما بن کر بیٹھے ہوۓ ہیں اور اِن
ابن الیہُود و ابن النصارٰی نے اپنی اِن ذہنی فکری و خرافات کو دینِ اسلام
کے نام سے موسُوم کر کے یہُود و نصارٰی سے بڑھ کر دینِ اسلام کو نقصان
پُہنچایا ھے ، دینِ اسلام کے اِن دوست نما دُشمنوں کا پہلا کاری وار تو
اپنے نبی و زوجہِ نبی کے خلاف کیا گیا وہ کاری وار تھا جس کی ایک جَھلک اِن
کی پہلی روایات میں نظر آئی ھے اور دینِ اسلام کے خلاف دینِ اسلام کے اِن
دوست نما دُشمنوں کا دُوسرا کاری وار بخاری کی کتاب المغازی کی حدیث 4141
سے شروع ہوا ھے اور اِس کاری وار کا نقطہِ آغاز یہ حدیث ھے کہ { قالوا قالت
عائشة : کان رسول اللہ اذا اراد سفرا اقرع بین ازواجهٖ فایتھن خرج سھمھا
خرج بھا رسول اللہ معهٗ ، قالت عائشة فاقرع بیننا فی غزوة غزاھا فخرج فیھا
سہمی ، فخرجت مع رسول اللہ بعد ماانزل الحجاب فکنت احمل فی ھودجی وانزل فیه
} یعنی بہت سے لوگوں نے بیان کیا ھے کہ سیدہ عائشة نے اُن کو بتایا ھے کہ
نبی علیہ السلام کا طریقہ تھا کہ جب آپ کا کسی سفر پر جانے کا ارادہ ہوتا
تھا تو آپ اپنی بیبیوں کے نام کا قُرعہ ڈالتے تھے اور قرعہ اندازی میں جس
بی بی کا نام نکل آتا تھا اُس کو آپ سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور
قرعہ اندازی کے اِس طریقے کی بنا پر ایک بار ایسا ہوا کہ ایک جنگی سفر میں
جانے سے پہلے آپ نے ھم پر قرعہ ڈالا اور اِس روز یہ قرعہِ فال میرا نام پر
نکل آیا اور میں آپ کے سفر میں آپ کے ساتھ نکلی ، اِس سفر کی خاص بات یہ
تھی کہ اِس سفر پر جانے سے پہلے حجاب کا حُکم نازل ہو چکا تھا اِس لیۓ
مُجھے ایک ڈھکے ہوۓ "ھودج" میں بٹھا کر اونٹ پر چڑھایا اور اُتارا جاتا تھا
، اہلِ روایت نے اِس مجہُول روایتِ حدیث میں کسی ایک راوی کا نام نہیں لیا
بلکہ اِس میں بہت سے نامعلوم راویوں کا اِس طرح سے ذکر کیا ھے کہ گویا سیدہ
عائشة صدیقہ نے کسی بڑے جلسہِ عام سے کوئی خطاب کیا تھا اور اُس خطاب میں
یہ اعلان کیا تھا کہ نبی اکرم جب سفر پر جاتے تھے تو جوتشیوں کے رَمل نجُوم
فال کے طریقے پر اپنی بیبیوں کے لیۓ قرعہ اندازی کیا کرتے تھے اور اِس قرعہ
اندازی میں جس بی بی کا نام نکل آتا تھا اُس کو آپ سفر میں اپنے ساتھ لے
جایا کرتے تھے اور ایسے ہی ایک جنگی سفر کے موقعے پر اِس قرعہ اندازی میں
میرا نام نکلا تھا اور آپ اِس سفر پر مُجھے اپنے ساتھ لے گۓ تھے ، اِس حدیث
میں قرعہ اندازی کا جو طریقہ بیان کیا گیا ھے وہ قُرآنِ کریم کے حُکم { وان
تستقسموا بالازلام } کے خلاف ھے کیونکہ اِس اٰیت کے سلسلہِ کلام میں اللہ
تعالٰی نے جن گیارہ چیزوں کو حرام قرار دیا ھے اُن میں جس گیارھویں چیز کی
حُرمت بیان کی گئی ھے وہ یہی قرعہ اَندازی اور فال گیری ھے جس کو اِس حدیث
شریف میں نبی اکرم کے ایک مُستقل طریقے کے طور پر بیان کیا گیا ھے جس کا
مطلب یہ ھے کہ بخاری کی کتاب النکاح کے بعد بخاری کی کتاب المغازی میں جن
لغویات کا آغاز ہوا ھے اُن میں پہلی لغویت اہل روایت کا پہلا بُہتان یہی
بُہتان ھے جس بُہتان سے اہلِ روایت نے توہین رسول و توہینِ زوجہِ رسول کا
آغاز کیا ھے اور اِس آغاز کے بعد اِس باب میں سیدہ عائشة صدیقہ پر جو جنسی
بُہتان لگایا گیا ھے اُس بُہتان کی وہ تفصلیلات اِس کے بعد آرہی ہیں جو اِس
موضوع کی مُتعلقہ تفصیلات ہیں !!
|