ہر سال عید قربان کے موقع پرکچھ مخصوص لوگ جانور کی
قربانی کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے فرضی من گھڑت قصے کہانیاں گھڑتے ہیں نظر
آتے ہیں کہ اتنی مہنگی مہنگی قربانی کرنے سے بہتر ہے کہ انسان کسی غریب
بیوہ یتیم مسکین یا بیمار کا علاج کروادے تاکہ عمر بھر کے لئے وہ دعائیں دے
گا / گی جس مسکین کی مالی مدد کی جائے گئی۔ دلیل کے طور پر فرماتے ہیں کہ
گوشت پوست توہم انسانوں نے کھانا ہے ویسے بھی اﷲ تعالیٰ نے گوشت نہیں کھانا
ہاں تقویٰ اور نیت کی بات ہے تو دکھی انسانیت کی خدمت بھی تقویٰ ہے۔
اگر ہم صرف پانچ دس سال پیچھے جائیں تو عیدِ قربان کے موقع پر
’’کانگووائریس ‘‘ پھیلیتا ہے احتیاط کریں وغیرہ الیکٹرانک ، پرنٹ ، اور
سوشل میڈیا پر ایسے ہوتا تھا جیسے برسات کے موسم میں گندے پانی میں مینڈک !
دوسری طرف غوروغوض کریں پچھلے سال کی طرح اب ’’کانگووائریس ‘‘ کا کام عید
قربان کے موقع پر ’ کوروناوائریس ‘‘ نے سنبھالا ہوا ہے۔
دین ِاسلام میں ہر رُکن اسلام کی اپنی اپنی اہمیت ہیں ۔مثلاً کلمہ پڑھ کر
بندہ مسلمان ہو جاتا ہے۔ اور اس کا بہت اجرو ثواب ہے۔ لیکن جس پر نماز فرض
ہے ۔وہ فرض نماز اگر ادا نہیں کرتا جتنا مرضی ذکروازکار کرتا رہے نماز
چھوڑنے کا گناہ اپنی جگہ ہے۔ اسی طرح اگر شرعی طور پر بندے پر رمضان
المبارک کے روزے فرض ہو چکیں تو وہ جتنے صدقے نیک کام کرتا رہے مگر رمضان
المبارک کے روزوں کا متبادل نہیں پا سکتا ۔
اسی طرح زکواۃکا بھی کوئی نعم البدل نہیں اور رہا مسئلہ ’’ قربانی کے جانور
‘‘ کا تو عرض ہے قربان ہونے والے جانور عام جانور نہیں بلکہ انکی نسبت دیکھ
کر کہا جاتا ہے کہ ’’ عید قربان ‘‘ پر قربانی بھی اس جانور کی ہوتیں جو
اپنی اپنی نسلوں میں خوش قسمت ہوتے ہیں ۔
جب باپ بیٹادونوں رضائے الٰہی پرراضی ہوگئے توباپ نے بیٹے کوزمین پرجبین کے
بل لٹایاقرآن مجیدمیں ارشادباری تعالیٰ ہے۔فَلَمَّآ اَسْلَمَآوَتَلَّہُ
لِلْجَبِیْن(پارہ ۲۳)جب وہ دونوں تیارہوگئے توباپ نے بیٹے کوپیشانی کے بل
لٹادیا’’چھری چلانے سے پہلے بیٹے نے کہااباجان میری کچھ وصیتیں ہیں قبول
فرمائیں وہ وصیتیں یہ تھیں۔اباجان پہلی وصیت تویہ ہے کہ میرے ہاتھ پاؤں رسی
سے باندھ دیں تاکہ اگر میں تڑپوں توآپکے لباس پرخون کاچھینٹانہ پڑے ذبح
کرنے سے پہلے چھری کوتیزکرلیناتاکہ یہ فریضہ اداکرنے میں تاخیرنہ
ہوجائے۔اپنی آنکھوں پرپٹی باندھ لیناکہیں محبت پدری کی وجہ سے آپ علیہ
السلام اس فریضہ سے رہ نہ جائیں۔اورمیراخون آلودہ کُرتامیری والدہ کے پاس
پہنچادیجیے تاکہ وہ اس کُرتے کودیکھ کر اپنے دل کوتسلی دے لیاکریں۔حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے حکم خداوندی کوپوراکرتے ہوئے حضرت اسماعیل علیہ
السلام کے نازک حلق پرچھری رکھی توچھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے
پرکندہوگئی ہے باربارچھری چلائی مگرایساہی ہواحضرت ابراہیم علیہ السلام نے
چھری کوایک پتھرپردے ماراپتھرکوچھری نے دوٹکڑے کردیے حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے چھری سے مخاطب ہوکرفرمایاکیاوجہ ہے کہ اتنے نرم ونازک گلے کوبھی
نہیں کاٹتی چھری پکاراٹھی اے اﷲ تعالیٰ کے خلیل علیہ السلام جسوقت آپ علیہ
السلام کوآگ میں ڈال دیا گیاتھاتوآگ نے آپ علیہ السلام کوکیوں نہ
جلایا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایاکہ آگ کواﷲ پاک نے حکم دیاتھاکہ
وہ نہ جلائے چھری نے عرض کیااے حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ کوتوایک دفعہ
حکم ہواکہ نہ جلانامجھے توسترمرتبہ حکم مل چکاہے کہ اسماعیل علیہ السلام کے
حلقوم کونہ کاٹناحضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام
کے حلقوم پرچھری چلائی گلے پر چھری چلنے سے پہلے حضرت جبرائیل امین علیہ
السلام جنت سے ایک مینڈھالے آئے اسکونیچے رکھ دیااورحضرت اسماعیل علیہ
السلام کواٹھالیامینڈھا ذبح ہوگیاتواﷲ تعالیٰ کی طرف سے آوازآئی۔ترجمہ’’بے
شک ہم نے پکارااے ابراہیم تونے خواب سچ کردکھایاہم نیکوں کویونہی جزادیتے
ہیں بے شک یہ صاف آزمائش ہے ہم نے اسکافدیہ ذبح عظیم کے ساتھ کردیااوراسے
بعدوالوں میں باقی رکھا‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اﷲ تعالیٰ نے
قبول فرمالی اور اسے یادگارکے طورپرقیامت تک باقی رکھااب ہرسال اسکی
یادکوتازہ کیاجاتاہے ۔
یااﷲ نبی خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے وسیلے جن لوگوں تیری رضا کے لئے عید
قربان پر ’’ قربانی دینے کا اہتمام کیا ہیں۔ سب مسلمانوں کی قربانی قبول
فرما اور جو لوگوں کو سنتِ ابراہیمی ؑ ( قربانی) سے دور کرنے کی کوشش کر
رہے ہیں انہیں ہدایت عطاء فرما۔ یااﷲ شیطان اور اس کے چیلوں سے مسلمانوں
اور مومنوں کو بچا آمین
|