اولمپکس 2020 کا اختتام پاکستان کی ایک بہت بڑی جیت سے
ہوا جہاں امریکہ نے 113، چائنہ نے 88 اور جاپان نے 58 تمغے جیتے تو وہاں ہم
نے تمغہ تو ایک نہ جیتا، ہاں مگر ہم نے اپنی قوم کے دل ضرور جیت لیے۔ اور
میرے خیال میں دل جیت لینا ہی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔
سمر اولمپکس2020, 23 جولائی 2021 سے 8 اگست 2021 تک جاپان کے شہر ٹوکیو میں
کھیلی گئی جس میں مختلف ممالک کے 11090 کھلاڑیوں نے 33 مختلف کھیلوں میں
اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ اولمپکس کے اختتام پر 340 سونے ، 338 چاندی
اور 402 کانسی کے تمغے جیتے گئے جن کی مجموعی تعداد 1080 بنتی ہے ان 1080
تمغات سے 65 ممالک نے کم از کم ایک سونے کا تمغہ حاصل کیا بدقسمتی سے
پاکستان ان ممالک میں شامل نہ ہو سکا۔ 1080 مجموعی تمغات سے 77 ممالک نے کم
از کم ایک چاندی کا تمغہ حاصل کیا بدقسمتی سے پاکستان ان میں بھی شامل نہیں
ہو سکا مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ 93 ممالک نے کم از کم ایک کانسی کا
تمغہ حاصل کیا اور پاکستان ان ممالک کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہے ان تمام
فاتح ممالک میں ایسے ممالک بھی شامل ہیں جن کی آبادی، وسائل اور جی ڈی پی
ہم سے کہیں کم ہے مگر اِن ممالک نے اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوۓ
اور اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کر کے کوئی نہ کوئی تمغہ ضرور
حاصل کیا۔ پاکستان کی اس صورتحال کو بدقسمتی تو نہیں، ہاں مگر بد حالی،
بدانتظامی اور بدعملی ضرور کہوں گا۔
یہ تو حال تھا اولمپکس 2020 کا چلیے تھوڑا جائزہ گزشتہ سالوں کا بھی لیتے
ہیں۔ 2020 اولمپکس سے پہلے 2018 میں ونٹر اولمپکس ساؤتھ کوریا میں منعقد
ہوئے جس میں ہم نے 0 سونا، 0 چاندی اور 0 کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔2018سے
پہلے سمر اولمپکس2016 میں برازیل میں منعقد ہوئے جس میں ہم نے0 سونا، 0
چاندی اور 0 کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ مختصراً 2014 ونٹر اولمپکس روس، 2012
سمر اولمپکس برطانیہ، 2010 ونٹر اولمپکس کینیڈا، 2008 سمر اولمپکس چائنہ،
2004 سمر اولمپکس یونان، 2000 سمر اولمپکس آسٹریلیا اور 1996 سمر اولمپکس
جیورجیا امریکہ میں پاکستان نے مجموعی طور پر 0 سونا، 0 چاندی اور 0 کانسی
کا تمغہ حاصل کیا۔آخری مرتبہ ہم نے اولمپکس 1992 میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
یوں گزشتہ 29 سال میں ہمیں ایک تمغہ بھی نصیب نہ ہوا۔
مجھ سمیت لاکھوں لوگ کل تک یہ نہیں جانتے تھے کہ ارشد ندیم جس گیم میں حصہ
لے رہا ہے اُسے جیولین تھرو کہا جاتا ہے۔ لاکھوں افراد نے اولمپکس 2020 کا
ایک کلپ تک نہیں دیکھا ہو گا مگر جب اپنا ملک اپنا ایتھلیٹ کامیابی کی جانب
بڑھتا نظر آیا تو ساری قوم اس کے لیے جس طرح کھڑی ہوئی، جس طرح دعائیں کی
گئیں، یہ سب قابل رشک اور قابل داد تھا۔ بہت سے پاکستانی جنہیں دُور دُور
تک کھیلوں سے ذرا برابر بھی لگاؤ نہیں تھا لیکن پھر بھی موبائل تھام کر
مُستقل اس میچ کی اپڈیٹ لیتے رہے۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ اس قوم کی سبز پرچم سے
محبت کی انوکھی مثال ہے۔ یہ وطن ہماری رگوں میں لہو بن کر دوڑتا ہے اس کی
کامیابی ہماری اولین خواہش ہے۔ ندیم ارشد پاکستان کو کامیابی سے تو ہمکنار
نہ کروا سکا لیکن اُس نے اپنی محنت کے بل بوتے پر پاکستان کو فائنل میں
پہنچا دیا ۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ارشد ندیم 84.62 میٹر پر نیزہ پھینک سکتا
ہے وہ اُسے تین میٹر آگے بھی پھینک کر گولڈ میڈل جیت سکتا تھا۔ بس تھوڑی سی
توجہ اور انویسٹمنٹ کی ضرورت تھی ۔لیفٹیننٹ جنرل سید عارف حسن صاحب مارچ
2004 سے آج تک پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ اِن صاحب کے دور
اقتدار میں ہم نے عوام کے لیے اولمپکس میں صرف دل ہی جیتے ہیں۔
جناب وزیراعظم صاحب آپ تو خود بھی کھلاڑی ہیں آپ کے دور اقتدار میں کھیلوں
کے فروغ کے حوالے سے آپ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ وزیراعظم صاحب یہ وہ
ملک ہے جس کی ہاکی ٹیم کبھی دنیا کی بہترین ٹیموں کو تِگنی کا ناچ نچایا
کرتی تھی۔ کبھی ہماری ہاکی ٹیم کی اولمپکس میں دھُوم ہوا کرتی تھی لیکن آج
ہماری حالت زار یہ ہے کہ اولمپکس میں تمغہ جیتنا تو دُور کی بات ہماری ہاکی
ٹیم اولمپکس کے لیے کوالیفائی بھی نہیں کر سکی۔ یہی حال ہماری دوسری کھیلوں
کا بھی ہے۔ وزیراعظم صاحب اپنی تھوڑی توجہ اپنے کئیے ہوۓ وعدوں پہ بھی کریں
اور خصوصاً کھیلوں کے فروغ کے لئیے اقدمات کریں تاکہ ہمارا کھویا ہوا مقام
ہمیں دوبارہ مل سکے۔ اب ہماری بھی خواہش ہے کہ ہم تمغہ جیتیں کیونکہ ہم دل
جیت جیت کے تھک چکے ہیں۔ سچ کہوں تو کبھی کبھی میرا جلتا ہوا نشیمن مجھ سے
سوال کرتا ہے کہ آخر ہم کب تک صرف دل ہی جیتیں گے؟
(بقلم.... فرخ توصیف)
|