گذشتہ دنوں ایک خبر نے انتہائی دل گرفتہ کردیا ۔ اطلاعات
کے مطابق ایک طرف اولمپکس اور انٹر نیشنل سپورٹس میں میڈل جیتنے کا خواب تو
دوسری جانب کھلاڑیوں کی مشکلات میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، ایک ادارے نے
نے اتھلیٹس اور کھلاڑیوں کو فیلڈ ورک پر بھجوادیا۔اتھیٹک کی موجودہ قومی
چیمپئن، جونیئرر اور سینئر قومی ریکارڈ ہولڈر غزالہ رمضان کو فیلڈ ڈیوٹی پر
بھیج دیا گیا، غزالہ رمضان سومیٹر ہرڈلز ریس میں موجودہ قومی چیمپئن اور
قومی ریکارڈ ہولڈر ہیں، ان کے ساتھ ساتھ کبڈی کے موجودہ عالمی چیمپین شفیق
چشتی، اتھلیٹ محمد عمران، ٹینس سٹار اُشنا سہیل کو بِھی فیلڈ ورک پر بھیج
دیا گیا۔ذرائع کے مطابق غزالہ رمضان، صابر حسین، محمدعمران، اُشنا سہیل
روزانہ لاہور اور صوبے کے دیگر شہروں سے ساہیوال اور دیگر شہروں میں ڈیوٹی
پر جانے پر مجبور ہیں، فیلڈ ڈیوٹی اور دیگر امور کے باعث کھلاڑی کھیلوں سے
دور ہونے لگے۔ قومی ہیروز کے ساتھ اداروں کا یہ سلوک سمجھ سے بالاتر ہے کہ
جب انہیں اسپورٹس کوٹے میں بھرتی کیا اور انہوں نے کم وسائل و پیشہ ورانہ
ساز و سامان کے باوجود اپنے اپنے شعبوں میں ملک گیر و عالمی سطح پر نام
روشن کیا تو ان کے مستقبل کو تاریک کرنے کے ایسے نامناسب فیصلے کرکے کھیلوں
کے فروغ کی کون سی خدمت کی جا رہی ہے ۔
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے ، ایک وقت تھا کہ جب ہاکی میں پاکستان کا
لوہا دنیا بھر میں مانا جاتا تھا ، کوئی کپ ایسا نہیں تھا ، جو پاکستان نے
نہ جیتا ہو، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہاکی اس بدترین زبوں حالی کا شکار ہوا
کہ آج ہاکی کو وہ مقام حاصل نہیں جس پر پاکستان فخر کیا کرتا تھا ، بے شمار
مثالوں میں وسیم جونیئر ایک ایسا کھلاڑی بھی اپنے اداروں کی بے اعتنائی کا
باعث بنا ، جس کی وجہ سے انہیں بھی کھیل میں اپنے صلاحیتوں کو نکھارنے کے
فیلڈ ورک میں بھیج دیا گیا ، پاکستان کے لئے محدود وسائل کے ساتھ اپنے شوق
اور ملک کی خدمت کرنے والوں کے ساتھ ایسے سلوک کی بدترین مثال بہت کم ملتی
ہیں ، ادارے باصلاحیت کھلاڑیوں کو اسپورٹس کوٹے میں بھرتی کرلیتے ہیں ،
لیکن بعدازاں ان سے ناروا سلوک اور جبری طور پر ان کی مجبوریوں کا فائدہ
اٹھانے کی کوشش میں قابل کھلاڑیوں کو کھیلوں اور اپنے ذوق و شوق سے دور
کردیا جاتا ہے ، قیمتی وقت کو ضائع کرکے انہیں عضو معطل بنا کر انہیں اتنا
مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ پروفیشنل ازم کو چھوڑ کر دوسرے شعبے کو اپنا لیں
تاکہ اقربا پروری کی وجہ سے ارباب اختیار کو اپنی من مانی کرنے کا موقع ملے
،جو کھیلوں کے شعبے سمیت ہر شعبہ ہائے حیات کو متاثر کررہا ہے۔ قومی کھیل
کا زوال 1994 سے شروع ہوا کیونکہ اس کے بعد کوئی بھی اعزاز پاکستان کو نہ
ملا۔ اس شعبے سے وابستہ صنعت بھی مالی بحران کا شکار ہے۔ہاکی سے وابستہ
افراد اس زوال کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ جن میں سے پانچ بڑی وجوہات درج
ذیل ہیں۔حکومتی فنڈز نہ ملنے پر ہاکی فیڈریشن کی مالی مشکلات۔حکومتی
سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے کھلاڑیوں کو کنٹریکٹ دینے میں عدم دلچسپی۔بڑے
تعلیمی اداروں میں سپورٹس کی بنیاد پر داخلوں کی بندش۔سرکاری ونجی محکموں
میں کھلاڑیوں کی کھیلوں کی بنیاد پر بھرتی میں عدم دلچسپی۔نئے کھلاڑیوں کو
تیار کرنے کے لیے مقامی میدانوں میں آسٹروٹرف کا نہ ہونا۔
کبڈی پنجاب کا ایک ایسا روایتی کھیل ہے جو ثقافتی طور پر ایک کلچر کی حیثیت
رکھتا ہے ، کبڈی کے کھیل ورلڈ کپ ( سرکل سٹائل) کا آغاز 2010 میں ہوا تھا ،
کبڈی کے چھ ایڈیشن میں بھارت کامیاب رہا اور خواتین کے کبڈی ورلڈ کپ میں
بھی چار مرتبہ کامیب ہوا۔ ساتویں ورلڈ کپ میں پاکستان نے بھارت کی اجارہ
داری ختم کی ، چمپئن بننے سے پہلے پاکستان چار مرتبہ فائنل میں پہنچ چکا
تھا لیکن رنر اپ رہا ، 2011کے ورلڈ کپ میں کینڈا رنر اپ رہا جب کہ پاکستان
کی تیسری پوزیشن تھی ، 2016میں بھارت نے ویزے جاری نہ کرنے وجہ سے یونٹ میں
یکطرفہ کامیابی حاصل کی ۔ کبڈی ورلڈ کپ کی سب سے اہم خبر یہ بنی کہ بھارت
کی پہلی پوزیشن کا پاکستان نے خاتمہ کیا اور بھارت سے باہر پاکستان میں
ورلڈ کپ ہوا ، حکومت نے اُس وقت کبڈی ایونٹ میں مکمل سپورٹ کیا تھا م، جس
کی وجہ سے پاکستان کو اہم کامیابی ملی تھی لیکن حیرت انگیز طور پر کبڈی کے
عالمی کپ کے کھلاڑی کو فیلڈ ورک میں بھیجنے سے جہاں دیگر کھلاڑیوں میں
بددلی پھیل رہی ہے تو دوسری جانب موجودہ عالمی چیمپین شفیق چشتی،کی
صلاحیتوں جو زنگ لگ رہا ہے ، جس سے کبڈی ایونٹ میں پاکستانی کھلاڑیوں کے
مورال میں فرق پڑنے کا خدشہ ہے۔
حکومتی اداروں کی عدم توجہ کے باعث ایسے واقعات بھی المیہ بن جاتے ہیں کہ
سر شرم سے جھک جاتے ہیں ، ا ن میں ایک مثال پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے
تعلق رکھنے والے فرحان ایوب کا کہنا ہے کہ انہوں نے 21 ایسے ورلڈ ریکارڈ
توڑ ڈالے ہیں جو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درج تھے۔میں انہوں نے بتایا
کہ وہ اب تک بھارت، امریکہ اور جاپان سمیت سات ممالک کے 21 ریکارڈز توڑ چکے
ہیں جن میں مارشل آرٹس اور بریک ڈانس کے سٹیپس کے ریکارڈ شامل ہیں۔ انہوں
نے اس کے ساتھ ساتھ چینلجنگ کیٹیگری کے ورلڈ ریکارڈ بھی بریک کیے ہیں۔لیکن
افسوس کہ عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے والا یہ ٹیلینٹڈ نوجوان
اپنی غربت سے مجبور ہوکر صرف 300 روپے میں اپنی قومی شرٹس بیچنے پر مجبور
ہوا کیونکہ میرٹ پر ہونے کے باوجود اس کے پاس کوئی روزگار نہیں۔ فرحان کئی
بار حکومتی شخصیات سے مل چکے ہیں لیکن کسی نے بھی ان کی داد رسی نہ کی۔
100 میٹر رکاوٹوں میں واپڈا کی غزالہ رمضان نے 14.66 سیکنڈ کے ساتھ ریکارڈ
قائم کیا۔ اس نے آرمی کی نوشی پروین کا 14.88 سیکنڈ کا ریکارڈ توڑ دیا جو
اس نے 2010 کی قومی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں بنایا تھا۔ غزالہ رمضان ایک
ریکارڈ ہولڈر کھلاڑی ہیں لیکن انہیں بھی فیلڈ ورک پر بھیجا گیا ٹینس
اسٹار،اُشنا سہیل نے شرم الشیخ منعقدہ انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن ٹورنامنٹ میں
اپنی بھارتی پارٹنر رشمی چکرورتی کے ہمراہ ڈبلز کا سیمی فائنل کھیل کر سب
کو حیران کردیا تھا۔ وہ کسی بھی بین الاقوامی ٹینس ٹورنامنٹ کا سیمی فائنل
کھیلنے اور ڈبلیو ٹی اے کی عالمی رینکنگ کا حصہ بننے والی پہلی پاکستانی
خاتون کھلاڑی ہیں۔ دور دراز شہروں سے آنے کی وجہ سے ان کی پیشہ وارنہ
صلاحیتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے تو دوسری جانب جونیئر اور سینئر ریکارڈ
ہولڈرز کے ساتھ ایسا سلوک مایوس کن ہے جس سے خواتین کو ترقی و اپنی
صلاحیتوں کو نکھارنے اور منوانے کے کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا
ہے۔
افسوس ناک رویہ یہ بھی دیکھنے کو آیا ہے کہ بعض عناصر کی جانب سے قومی
ہیروز کو تضحیک و طنز کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، جس سے ان کی عزت نفس کو
مزید ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ قومی ہیروز کی جانب وفاقی و ژصوبائی حکومتوں کو
توجہ کی ضرورت ہے ۔ اگر حکومتی ادارے کھلاڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے رہیں
گے تو نیا ٹیلنٹ ناپید ہوجائے گا ، پاکستان ٹیلنٹ کا حوالے سے زرخیز ملک ہے
لیکن عدم توجہ کے باعث مسائل کا شکار ہے ، ان مسائل کو حکومتی توجہ سے حل
کیا جاسکتا ہے ، لیکن کھلاڑیوں کے ساتھ محکموں کے ناروا سلوک پر دنیا میں
مملکت کا مثبت امیج سامنے نہیں جاتا اور اس کا مذاق اڑتا ہے۔
|