چین میں "منی اولمپکس" کا شاندار آغاز

دنیا بھر میں وبائی صورتحال کے باعث اقتصادی سماجی شعبہ سنگین طور پر متاثر ہوا ہے اور لوگوں کا آپس میں گھلنا ملنا اور اجتماعی سرگرمیوں کا انعقاد انتہائی دشوار ہو چکا ہے۔دنیا کے مختلف خطوں بشمول پاکستان میں بھی وبا کی مختلف لہروں کے باعث صورتحال قدرے پیچیدہ ہے۔ تعلیمی اداروں میں تسلسل سے تدریسی سرگرمیوں کا انعقاد نہیں ہو رہا ہے، لوگوں کو روزگار سے متعلق مسائل درپیش ہیں اور آمد ورفت میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ وبا کے باعث متاثرہ شعبہ جات کی مزید بات کریں تو کھیل بھی انہی میں شامل ہے۔ابھی حال ہی میں دنیا نے دیکھا کہ جاپان میں اولمپک گیمز تماشائیوں کے بغیر منعقد ہوئیں ،کرکٹ اور فٹبال میچز بھی شائقین کے بغیر پھیکے لگتے ہیں اور سب کی یہی خواہش ہے کہ کب وبا سے جان چھوٹے اور حالات زندگی معمول کی جانب لوٹ سکیں۔

دوسری جانب چین میں انسداد وبا کی بہتر صورتحال سے جہاں اقتصادی پہیہ تیزی سے رواں ہو چکا ہے وہاں سماجی سرگرمیاں بھی تیزی سے بحال ہو رہی ہیں۔اس کی ایک تازہ ترین مثال ملک کی اہم ترین کھیلوں کی سرگرمی 14ویں قومی گیمز کا انعقاد ہے جو بدھ کے روز صوبہ شان شی کے شہر شی آن میں شروع ہوئی ہیں۔ چینیصدر شی جن پھنگ نے قومی کھیلوں کا افتتاح کیا جسے چین کی "منی اولمپکس" بھی کہا جاتا ہے۔چین میں اس وقت کھیلوں کی سرگرمیاں عروج پر ہیں ، قومی گیمز سے قبل چین نے جولائی سے اگست تک ٹوکیو میں منعقدہ اولمپکس میں 38 طلائی ، 32 چاندی اور 18 کانسی کے تمغے جیتے ۔ ٹوکیو پیرالمپک گیمز میں بھی 207 تمغوں (96 طلائی ، 60 چاندی اور 51 کانسی) کے اعتبار سے چین سرفہرست ہے جو اس ماہ کے آغاز میں اختتام پزیر ہوئے ہیں۔

مزید یہ کہ بیجنگ اگلے سال فروری میں سرمائی اولمپک کھیلوں کی میزبانی کرے گا ، یوں بیجنگ کو گرمائی اور سرمائی دونوں اولمپکس کی میزبانی کرنے والے پہلے شہر کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔چین میں قومی گیمز کا آغاز 1959 میں کیا گیا تھا جس کے بعد سے اسے چین میں سب سے بڑی کھیلوں کی سرگرمی شمار کیا جاتا ہے۔14 ویں قومی کھیلوں میں مجموعی طور پر 54 کھیل اور 595 ایونٹس شامل ہیں۔چین کے صوبوں ، بلدیات ، خود اختیار علاقوں ، ہانگ کانگ اور مکاؤ خصوصی انتظامی علاقوں اور مخصوص سپورٹنگ ایسوسی ایشنز کی نمائندگی کرنے والے 12000 سے زائد کھلاڑی 27 ستمبر تک مختلف کھیلوں میں حصہ لیں گے۔2013 میں صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ تیسرا موقع ہے جب صدر شی جن پھنگ نے گیمز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی ہے۔وہ خود بھی مختلف کھیلوں کے شوقین ہیں ۔ 2014میں انہوں نے سوچی سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے دوران روسی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہیں تیراکی ، ہائیکنگ ، والی بال ، باسکٹ بال ، ٹینس ، مارشل آرٹ اور دیگر کھیل پسند ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کھیل جسم اور قوت ارادی کو مضبوط بناتے ہیں اور دماغ کو مزید ترو تازہ کرتے ہیں۔

اگست 2016 میں شی جن پھنگ نے بیجنگ کے عظیم عوامی ہال میں ریو اولمپک گیمز سے واپس آنے والے چینی وفد سے ملاقات کے موقع پر ایک پرجوش خطاب کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیاکہ کھیلوں کی ترقی نہ صرف چینی خواب کی تعبیر کا ایک اہم حصہ ہے ، بلکہ چینی قوم کی عظیم نشاۃ ثانیہ کے لیے ایک طاقتور روحانی قوت بھی فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے اندرون ملک اور بیرون ملک اپنی سرگرمیوں کے دوران کھیلوں کو اپنے ایجنڈے میں ہمیشہ نمایاں رکھا ہے۔ بیجنگ 2022 سرمائی اولمپکس کی تیاریوں میں زاتی دلچسپی لیتے ہوئے انہوں نے کئی مقامات کے خود دورے کیے ، چینی خواتین والی بال ٹیم کے نمائندوں سے ملاقات کی ، سوچی 2014 سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی ، اور جرمنی میں یوتھ فٹ بال میچ بھی دیکھا۔صدر شی جن پھنگ نے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کے صدر سمیت دیگر دنیا کے اعلیٰ کھیلوں کے عہدیداروں سے بھی وقتاً فوقتاً بات چیت کی ہے۔ صدر شی نے کئی مواقع پر کھیلوں کے بارے میں اپنی تفہیم کی وضاحت کی ہے اور ملک کو کھیلوں کے پاور ہاؤس میں تبدیل کرنے کی کوششوں کی خود قیادت کی ہے ، جسے انہوں نے قومی نشاتہ الثانیہ کے چینی خواب کا حصہ قرار دیا ہے۔اُن کے خیال میں کھیل سماجی ترقی اور انسانی ترقی کے اہم اشاریے ہیں اور مجموعی قومی طاقت اور سماجی تہذیب کا اہم مظہر ہیں۔

یہ بات قابل زکر ہے کہ 1984 میں اپنا پہلا اولمپک طلائی تمغہ جیتنے کے بعد سے ، چین نے کھیلوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔اس کے علاوہ بیجنگ 1990 ایشین گیمز ، بیجنگ 2008 اولمپک گیمز اور 2015 ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ جیسے کھیلوں کے بڑے بین الاقوامی کھیلوں کی میزبانی نے چینی عوام میں کھیلوں کے لیے جوش و خروش کو مزید بڑھایا ہے۔کھیل چین کی خوشحالی اور لوگوں کی صحت مند اور خوشگوار زندگی دونوں کا ایک اہم حصہ ہیں یہی وجہ ہے کہ چین اہم کھیلوں میں خود کو ایک مثالی قوم بنا رہا ہے۔14ویںنیشنل گیمز اور آنے والے سرمائی اولمپکس چین کے ایک جامع عالمی کھیلوں کے پاور ہاؤس کی جانب سفر میں نئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 411164 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More