افغان فٹ بالر خواتین کی آمد ، قوانین کی پاسداری کیوںنہیں کی گئی ، تحقیقات شروع


مسرت اللہ جان

سیکورٹی اداروں نے افغانستان سے طالبان کے ڈر سے بھاگ کر آنیوالے افغان ٹیموں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں اور اس بارے میں تحقیقات کی جارہی ہیں کہ افغانستان سے آنیوالی ٹیم میں کتنی خواتین کھلاڑی ہیں اور کتنے ایسے افراد ہیں جنہیں کھلاڑی تو ظاہر کیا گیا مگر وہ کھلاڑی نہیں اور یہ سب کچھ ایک بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے کے تعاون سے کیا گیا ہے . جس کیلئے بنیادی پروسیجر بھی مکمل نہیں کیا گیا.اور انہیں براہ راست لاہور پہنچادیا گیا ، جس پر دنیا بھر میں پڑوسی ملک افغانستان کی نئی آنیوالی حکومت کی بڑی سبکی ہوئی ہیں کیونکہ بڑے بڑے بین الاقوامی میڈیا کے اداروں نے اپنی شہ سرخیوں میں اسے شائع کیا کہ ان خواتین کی جان کو خطر ہے تاہم اس میں حقیقت کتنی ہے اس بارے میں شکوک و شبہات پائی جاتی ہیں.
چند روز قبل طورخم کے ذریعے پاکستان آنیوالی خواتین کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ انہیں رات ڈیڑھ بجے کے قریب طورخم پر امیگریشن کے پراسیس مکمل کرکے چھوڑ دیا گیا تھا اور اس عمل میں ایک بڑی غیر ملکی غیر سرکاری تنظیم اور ان کے اہلکار ملوث بتائے جاتے ہیںجن کی کاوشوں سے یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے . افغانستان میں طالبان حکومت کی آنے کے بعد بیشتر علاقوں میں امن قائم ہوا ہے جبکہ نجی یونیورسٹیوں کیساتھ مختلف ادارے بھی کھل گئے ہیں جہاں پر خواتین کو اسلامی شعائر کے مطابق کام کرنے کی اجازت ہے. تاہم افغانستان سے آنیوالی افغان فٹ بالر کے بارے میں کہاجارہا ہے کہ انکی جانوں کو خطرہ ہے اس لئے وہ اپنے گھر والوں کیساتھ بھاگ کر آئی ہیں.جبکہ مزید افغان فٹ بالرز کی آمد بھی متوقع ہے.
تاہم بعض سیکورٹی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان آنیوالے ان افغان فٹ بالرز خواتین کیساتھ قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے کیونکہ انہیں قرنطینہ سنٹر میں رکھا جانا تھا اور قرنطینہ سنٹر میں رکھنے کے بعد انکی منتقلی ہو جانی تھی تاہم انتظامیہ نے چودہ دن قرنطینہ میں انہیں رکھنے کا قانونی پروسیجر بھی پورا نہیں کیا ، اسی طرح طورخم باڈر کراس کرنے کے بعد ان کے بارے میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت فٹ بال کی ایسوسی ایشنز اور اقوام متحدہ کے اداروں کیساتھ رجسٹریشن کرنا بھی لازمی تھا تاہم نامعلوم وجوہات کی بناءپر یہ سب کچھ نہیں کرایا گیا ، ابتداءمیں یہ ظاہر کیا گیا کہ افغانستان سے آنیوالی خواتین فٹ بالر کی ٹیم انڈر 15 اور انڈر 18 پر مشتمل ہے اور یہاں پر کھیلنے کیلئے آرہی ہیں تاہم اس بارے میں خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا ، جس کی تصدیق ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبرپختونخواہ اسفندیار خان خٹک نے بھی ہے کہ انہیں اس بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا. جبکہ یہ وزارت بھی صوبائی وزیر اعلی خیبر پختونخواہ محمود خان کے انڈر ہیں ، اسی طرح صوبائی وزیراعلی کے معاون کامران بنگش نے بھی اس معاملے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے کہ انہیں خواتین فٹ بالر ٹیم کی آمد کے بارے میں کچھ معلومات ہی نہیں.نہ ہی فٹ بال ایسوسی ایشن سے وابستہ افراد اور ان کے عہدیداروں کو اس بارے میں کوئی معلومات تھی جس کی وجہ سے کنفیوژن بھی پیدا ہوگئی تھی کیونکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ایک اعلی عہدیدار نے زبانی کلامی فٹ بال ایسوسی ایشن کے اہلکاروں کو ترجمان مقرر کیا تھا تاہم اس بارے میں معلومات سیکورٹی اداروں کو بھی مکمل فراہم نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے.
افغانستان سے آنیوالے بیشتر افغانیوں کی رجسٹریشن اس وقت اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایچ سی آر کے پاس کی جارہی ہیں او ر پشاور میں واقع سنٹر میں بھی افغانستان سے آنیوالے افرا د کی رجسٹریشن کی جاتی ہیں تاہم افغان فٹ بالر خواتین کی آمد کے بعد ان کی رجسٹریشن یو این ایچ سی آر کے پاس بھی نہیں کرائی گئی .اور یہ عمل سب سے زیادہ مشکوک ہے جس کی وجہ سے سیکورٹی اداروں نے ا س حوالے سے تحقیقات شروع کی ہیں کہ افغانستان سے آنیوالے خواتین فٹ بال ٹیم میں کتنے فٹ بال کے کھلاڑی ہیں اور کتنے جعلی افراد ہیں ، جبکہ انہیں قرنطینہ سے براہ راست نکالنے اور ساتھ میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت سیکورٹی اداروں کو لاعلم رکھنے کا بھی مسئلہ پیدا ہوا ہے کیونکہ اگر ان افراد کوسیکورٹی تھریٹ تھی تو پھر انہیں مقامی طور پر کیوں نہیں رکھا گیا.
ذرائع کے مطابق طورخم سے آنیوالے افغان فٹ بالر خواتین اور ان کے گھر والوں کی آمد کو اتنا خفیہ رکھا گیا کہ اس بارے میں معلوما ت لینے والوں کو کہا جاتا رہا کہ فٹ بالر خواتین اسلام آباد چلی گئی ہیں جبکہ انہیں براہ راست لاہور پہنچا یا گیا اور پھر دوسرے دن پریس کانفرنس بھی کرانے کا انتظام کیا گیا تھا تاہم نامعلوم وجوہات کے بناءپر پریس کانفرنس منسوخ کردی گئی.
سیکورٹی ذرائع کے مطابق افغانستان کی نئی آنیوالے حکمران طالبان نے بھی افغان فٹ بالر کی پاکستان آمد اور افغانستان حکومت کے بارے میں غلط پیغام میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلانے کا بھی نوٹس لیا ہے اور اس بارے میں سیاسی اور سفارتی رابطے بھی شروع کئے گئے ہیں کہ افغان حکومت کو بدنام کرنے میں کن کاہاتھ ہے اور اس بارے میں افغانستان میں بھی تحقیقات کی جارہی ہیں کہ کس طرح افغان فٹ بالر سب کچھ بیچ باچ کر پاکستان پہنچ گئی ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے.


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420134 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More