۱۹ ستمبر ۲۰۲۱ بروز اتوار
تحریر: انجینئر حافظ عبداللہ
اسلام آباد
دو آپشنز
دنیا میں انسان کے پاس دو ہی آپشنز ہیں نمبر ایک یا وہ پہلے دنیا کمائے نام
بنائے پھر حق بات کہے یا پھر شروع سے ہی حق بات کی تلقین کرے اور اس پر عمل
کرے۔ ہم آج جس دور میں رہ رہے ہیں اور جس سسٹم کا حصہ ہیں اس کو انگریزی
زبان میں کیپیٹلزم کہتے ہیں یعنی جس کے پاس جتنی دولت ہوگی وہ دنیا کی نظر
میں اتنا ہی با اثر اتنا ہی باعزت ہوگا لوگ اس کی ہر بات کو سچ سمجھیں گے
اور معاشرے میں اس کا اثر و رسوخ باقی لوگوں کی نسبت زیادہ ہو گا دوسری
جانب جو سسٹم آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اس میں یہ فضیلت تقوی والے
کو حاصل ہے کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ واسلم نے فرمایا ' کسی عربی کو
عجمی پر عجمی کو عربی پر کالے کو گورے پر گورے کو کالے پر فوقیت نہیں مگر
صرف تقوی کے' غور کیا جائے تو یہ دو بلکل متضاد باتیں ہیں اور اسی سسٹم کا
نام اسلام ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں سپہ سالار
صرف اس بنیاد پر لگایا کہ انہوں نے اس کو بہت زیادہ قرآن پڑھتا پایا۔
ہم یہ بات دراصل سمجھنے سے اس لیے قاصر ہیں کیونکہ ہماری تربیت میں وہ چیز
ہی نہیں ڈالی جاتی ہمیں سمجھایا ہی نہیں جاتا کہ ہم اس دنیا میں مال و
اولاد، جائیدادیں بنانے نہیں بلکہ اللہ کو راضی کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ
واسلم کے لائے ہوئے دین کو آگے پہنچانے کے لیے آئے ہیں۔ آج تک اس دنیا میں
کتنے ہی لوگ آئے جو ہم سے زیادہ مال، اولاد، طاقت والے تھے لیکن آج ان کا
نام و نشان تک نہیں، کیا وہ کامیاب تھے اس کو جانچنے کا معیار صرف اور صرف
قرآن و سنت کی تعلیمات سے ممکن ہے دراصل اسلام شروع ہی موت کے بعد والی
زندگی سے ہوتا ہے اور یہی اس کی بنیاد اور خوبصورتی ہے۔ معاشرے میں بگاڑ کی
سب سے بڑی وجہ نااہلی سے زیادہ غیر ذمہ داری ہے اور اس کے ذمہ دار والدین
ہیں آپ چونک گئے ہوں گے کہ شاید میں خود بھی نافرمان ہوں اپنے والدین کا
ایسی بات نہیں ہے دراصل والدین کے پاس میں اور آپ اللہ کی دی ہوئی امانت
ہوتے ہیں جن کا خیال کرنا والدین کی پہلی ذمہ داری ہوتی ہے آج ہر شخص مال
بنا بنا کر گھر لا رہا ہے لیکن بچوں کی پرورش اس نہج پر نہیں کرتا جس نہج
پر آپ صلی اللہ وسلم ہم سے چاہتے ہیں۔ ہر دور پچھلے دور سے مختلف ہوتا ہے
سب سے بڑی کوتاہی جو والدین سے ہوتی ہے وہ اپنے بچوں کا ورلڈ ویو کلیئر
نہیں کرتے ان کو یہ نہیں بتاتے کہ اس دنیا میں آپ کے آنے کا مقصد کیا ہے
کیوں آپ صلی اللہ علیہ واسلم نے فرمایا کہ دنیا میں مسافر بن کے زندگی
گزارنی ہے اس کو استمعال کن مقاصد کے لیے کرنا ہے اس کو دل میں جگہ کیوں
نہیں دینی بچے جو چیزیں اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ اسی کے
لیے ساری زندگی جدوجہد کرتے ہیں مثلا مال اولاد شہرت وغیرہ اور آج موبائل
نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ جب آپ کے والدین ان کی عزت زیادہ کریں جن
کا معاشرے میں نام بڑا ہے جو مال والے ہیں عہدے والے ہیں تو بچہ بھی یہی
سمجھتا ہے کہ کامیابی کا معیار بھی یہی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم
اجمعین کی زندگیوں پر اگر غور کیا جائے تو انہوں نے آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم
کے لائے ہوئے دین پر لبیک کہہ کر اپنی پوری زندگیاں اس کی خاطر لگا دیں کیا
انہیں غیر مسلموں سے نوبل پرائزز چاہیَیں تھے جس کے لیے آج میں اور آپ
کوشاں ہیں یا وہ اللہ کی رضا چاہتے تھے۔ میں جس زمین کے حصہ پر بیٹھ کر یہ
تحریر بلکہ یہ کہنا چاہئے مسلمانوں کی تدبیر لکھ رہا ہوں کیا آپ نے کبھی
سوچا کہ یہاں پر آپ سے پہلے بھی لوگ رہ کر گئے ہیں اور آپ نے بھی ایک دن
یہاں سے آگے کی طرف جانا ہے کیا آپ کے پاس آگے جانے کے لیے جو سامان چاہئے
ہوگا وہ موجود ہے کیا آپ اس کی تیاری کر بھی رہے ہیں یا نہیں؟ میرے والد
صاحب جن کو اللہ نے بہت بڑا سرکاری عہدہ دیا ہے جس کے لیے آج میں اور آپ
کوششوں میں لگے ہیں جس کو پانے کے لیے ہم اپنی صلاحیتیں صرف کرتے ہیں سیاست
کھیلتے ہیں لیکن انہوں نے اس عہدہ کو محض اللہ کے ساتھ اپنے مضبوط رابطے
اور اپنی محنت سے پایا اور اس کے ہوتے ہوئےبھی دنیا کو آج تک اسی نظر سے
دیکھا ہے جو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ ولسلم فرما گئے ہیں اور اللہ نے فرمایا
کہ ہم نے یہ دنیا تمہیں آزمانے کے لیے بنائی ہے۔ اس کی حیثیت اگر مچھر کے
پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ اپنے نہ ماننے والوں کو ایک گھونٹ پانی کا نہ
دیتا۔ آپ نے اگر کسی کو جانچنا ہے جس کو اللہ نے کسی بڑے عہدے پر یا مال و
اولاد کے اعتبار سے نوازا ہے تو دیکھیں اس میں تقوی کتنا ہے اس میں اللہ کا
خوف اور ڈر ہے بھی یا نہیں اگر تو ہے تو سمجھ لیں کہ وہ آپ کا اور آپ کی
قوم کا محسن ہے اگر نہیں تو تیار ہوجائیں آپ کا اپنا گھر خطرے میں ہے۔ جب
تک بڑے عہدوں والے فیکٹریوں والے مال والے شہرت والے نہ صرف اپنے بچوں کو
بلکہ اپنی رعایا کو یہ بات نہیں کہیں گے کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے یہ میری
کامیابی کی ضمانت نہیں ہے یہ میرا امتحان ہے اور تمہارے سے بھی اللہ نے
امتحان لینا ہے آج جو کچھ بھی ہے میرے پاس یہ سب میرے سے پہلے والوں کو بھی
ملا تھا لیکن آج تم ان کے نام تک نہیں جانتے نام صرف انہیں کے باقی ہیں جو
اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے تب تک ہم کیپیٹلزم سسٹم سے
نہیں نکل سکتے جس کی آج نہ صرف ہمارا ملک پاکستان بلکہ پوری دنیا شکار ہے
کیونکہ یہ انسان کا بنایا ہوا سسٹم ہے خالق کائنات کا نہیں اگر آپ کو ابھی
بھی شک ہے تو کرونا سے پہلے اور بعد کی زندگی کو دیکھ لیں سب کچھ بدل گیا
لیکن افسوس ہمارے حکام، اعلی افسران، فیکڑی مالکان نہیں بدلے وہ ابھی بھی
اسی ریس میں لگے ہیں جس کا اختتام قبر کی مٹی پر ہی ہوگا۔
طالب دعا
|