کبڈی کا کھیل


اگر ہم پنجاب یا سندھ کے کسی دیہات سے گزرتے ہیں تو وہاں ایک چھوٹے سے میدان کےعین وسط میں چونے یا رسی سے ایک لائن سی کھنچی نظر آتی ہے جس کے دونوں طرف چھ، چھ نوجوان بدن پر لنگوٹ باندھے یا ہاف پینٹ پہنے ایک دل چسپ کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں، جو کئی کھیلوں کا ملغوبہ دکھائی دیتا ہے، اس میں ایک نوجوان’’ بل فائٹنگ ‘‘کے انداز میں درمیان میں بنی ’’سرحد‘‘ عبور کرکے دوسرے پالے میں کھڑے دفاعی کھلاڑیوں پر کسی سانڈ کے انداز میں ہی حملہ کرتا ہے اور اس کی زبان سے مسلسل ’’کبڈی ، کبڈی‘‘ کے لفظ کی گردان جاری رہتی ہے ، اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی سانس نہ ٹوٹنے پائے اور وہ کسی کھلاڑی کو ہاتھ مار کر اپنی حدود میں واپس چلا جائے جب کہ حریف ٹیم کے نوجوان چوکنا انداز میں اس پر نظریں جمائے رہتے ہیں اور چاروں طرف سے ریسلنگ کے انداز میں اسے گھیرنےکی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بھی کسی ماہر ایتھلیٹ کے انداز میں چھلانگیں لگاتے ہوئے ان کی دسست رس سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن دفاعی ٹیم کا کوئی کھلاڑی اسے فری اسٹائل کشتی کی طرح ڈائیو لگا کر زمین پر گرا لیتا ہے اور جوڈو کاز کے انداز میں ہینڈ یا لیگ لاک لگا کر اسے بے بس کردیتا ہے، مذکورہ کھلاڑی، گھسٹتا ہوا، اپنے پالے کی بارڈر لائن چھونے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے لیکن باقی کھلاڑی اسے جکڑ کر، اس کوشش ناکام بنا دیتے ہیں یہاں تک کہ اس کی سانس ٹوٹ جاتی ہے اور ’’کبڈی کبڈی‘‘ کے لفظ کی ادائیگی اس کے لبوں سے ادا ہونا بند ہوجاتی ہے،وہ ’’ مردہ ‘‘ یا ناکارہ ہوجاتا ہے ۔ لیکن اگر وہ ایتھلیٹک کا اچھا کھلاڑی ہو اورتیز دوڑنے میں بھی مہارت رکھتا ہو تو بغیر سانس توڑے ،دفاعی ٹیم کے کسی کھلاڑی کو ہاتھ مار کر مردہ کردیتا ہے اور چھلانگیں لگاتا ہوا اپنے پالے میں پہنچ جاتا ہے۔

یہ ذکر ہے برصغیر کے مقبول کھیل ’’کبڈی‘‘ کا جو بنیادی طور سے دیہی علاقوں کا کھیل ہے اور دیگر کھیلوں کی بہ نسبت غریب طبقے کے افراد اس سے زیادہ محظوظ ہوتے ہیں۔یہ ایک قدیم کھیل ہے جس کا آغاز 4ہزار سال قبل بھارت کی جنوبی یاست تامل ناڈو سے ہوا۔ ابتداء میں اس کھیل کے ذریعے سپاہیوں کو ذاتی دفاع کی تربیت دی جاتی تھی بعد یہ برصغیر کے دیگر خطوں میں مقبول ہوگیا۔ 19ویں صدی میں یہ برصغیر کے علاوہ ایشیاء کےدیگر ملکو ں میں بھی کھیلا جانے لگا۔ آج یہ ایشیاء کے علاوہ یورپ، امریکا، کینیڈااور آسٹریلیا کا بھی مقبول کھیل ہے ۔دنیا بھر میں ملکی سطح پر اس کا انعقاد ہوتا ہے، جب کہ ایشین چیمپئن شپ اور عالمی چیمپئنز ٹرافی کے مقابوں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ کھیل آج تک اولمپک گیمز کا حصہ نہیں بن سکا حالاں کہ 1938ء میں برلن اولمپک کے دوران اس کھیل کو نمائشی طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا لیکن بعد میں اسے اس صف سے نکال دیا گیا۔ اولمپکس مقابلوں میں کسی بھی کھیل کی شمولیت کے لیے چاروں براعظوں کے 75 ممالک کی اولمپک تنظیموںپر مشتمل اولمپک ایسو سی ایشن ضروری ہے، جب کہ اب تک یہ کھیل صرف 26ممالک میں فروغ پا سکا، جن کی 31تنظیمیں کبڈی کی عالمی فیڈریشن کا حصہ ہیں۔2014ء میں ورلڈ کبڈی لیگ کا قیام عمل میں آیا جس میں چار ممالک کی آٹھ ٹیموں نے شمولیت اختیار کی۔ ان ممالک میں پاکستان، کینیڈا، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں، اس لیگ کا افتتاحی میچ 2004میں کھیلا گیا جس میں برطانیہ کی یونائٹڈ سنگھ نے فتح حاصل کی۔ کبڈی کی تاریخ کے پہلے عالمی کپ کا انعقاد ہیملٹن میں ہوا جس میں بھارت، پاکستان، برطانیہ، کینیڈا اور امریکا کی ٹیموں نے حصہ لیا۔ اس میچ کو تقریباً 14000تماشائیوں نے دیکھا۔

’’کبڈی ‘‘ کا لفظ تامل زبان کے لفظ ’’کائی پیڈی‘‘ کی بگڑی ہوئی ہیئت ہے، جس کے معنی ’’ہاتھوں کو پکڑنا‘‘ ہے، لیکن اسے برصغیر کےمختلف ممالک میں دیگر ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ تامل ناڈو اور تلنگانا میں ’’چاڈوکوڈو‘‘ یا ’’کپڈی‘‘، کرناٹک اور پاکستان میں ’’کبڈی‘‘، پنجاب میں ’’کاؤڈی ‘‘ آندھرا پردیش میں ’’چیدو گوڈو‘‘ ، بنگلہ دیش میں ’’ہادودو‘‘ مالدیپ میں ’’بھاواٹک‘‘کے نام سے معروف ہے۔بنگلہ دیش کا یہ قومی کھیل ہے،1979ء کبڈی کے قوانین میں متعدد مرتبہ تبدیلیاں کی جا چکی ہیں لیکن مذکورہ کھیل اسی طریقہ کار کے مطابق کھیلا جاتا ہے جو اس کی ابتدا میں وضع کیا گیا تھا۔اس کھیل کی اصل روح، حملہ آور کھلاڑی کا مخالف ٹیم کے پالے میں آکر ایک مخصوص لفظ کی بغیر رکے،ادائیگی کرتے ہوئےحریف کھلاڑیوں پر حملہ اور دفاعی ٹیم کا مذکورہ کھلاڑی کوقابو کرنا، ہوتی ہے۔ پہلے یہ کھیل ، کھلے میدانوں میں کھیلا جاتا تھا لیکن برصغیر سے نکل کر ایشیاء یورپ اور امریکا میں مقبولیت کے بعد اب اس کھیل کے لیے بھی اسٹیدیم اور ہالز مخصوص کیے جاتے ہیں جن میں کبڈی کورٹ بنائی جاتی ہیں۔ اس کا کورٹ ڈاج بال کھیل جتنا وسیع و عریض ہوتا ہے، جس کا مجموعی رقبہ 13 میٹر بائی 10 میٹر ہوتا ہے۔ کورٹ کے درمیان میں ایک لائن کھینچی ہوتی ہے جو اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔پورے میچ کی نگرانی سات افراد کرتے ہیں ، جن میں ایک ریفری، دو امپائر، دو لاسمین، ایک ٹائم کیپر اور ایک پوائنٹ لکھنے والااسکورر ہوتا ہے۔یہ کھیل عام طور پر 20-20 منٹ کے دو ہاف میں کھیلا جاتا ہے۔ تاہم آرگنائزر اس کے ایک حصے کی مدت 10 یا 15 منٹ کی بھی کر سکتے ہیں۔ ہر ٹیم میں 5-6 اسٹاپر (دفاعی کھلاڑی جو ریڈر کو پکڑنے میں مہارت رکھتے ہوں) اور 4-5 ریڈر (چھو کے فرار ہونے میں ماہر) ہوتے ہیں۔ ایک بار میں صرف چار اسٹاپرز کو ہی پالے میں اترنے کی اجازت ہوتی ہے۔ جب بھی اسٹاپر زکسی ریڈر کو حملہ کرکے کسی کھلاڑی کو ہاتھ مار کر اپنے پالے میں جانے سے روکتے ہیں۔ اس کے لیے ریڈر کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی اسناپر کو چھو کراپنے پالے میں واپس چلا جائے، جب کہ اسناپر ز کی کوشش اسے کے مقصد میں ناکام بنانے کی ہوتی ہے۔ اگر وہ اس پر قابو پالیں تو ان کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے ہاتھ درمیانی لائن کو نہ چھو سکیں کیوں کہ اگر اس کا پنجہ اس لائن کو چھونے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ ہاتھ لگنے والے اسناپر کو مردہ یا ناکارہ بناکر اپنی ٹیم کو ایک پوائنٹ جتوا دیتا ہے، لیکن اس دوران اس کے لبوں سے ’’کبڈی ، کبڈی‘‘ کی گردان مسلسل جاری رہتی ہے، اگر سانس ٹوٹی اور اس لفظ کی ادائیگی میں تعطل ہوا تو ریڈر مردہ قرار پاتا ہے اور اسناپرز کی ٹیم کو ایک پوائنٹ کی سبقت ہوجاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں مرنے والے کو کبڈی کورٹ سے باہر جانا پڑتا ہے۔ ریڈر کے مرنے یا اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر واپس جانے کی صورت میں اسناپرز کی ٹیم کا کھلاڑی، ریڈر کی صورت میں مخالف ٹیم کے پالے پر حملہ آور ہوتا ہے اور وہاں بھی اسی قسم کی صورت حال دیکھنے میں آتی ہے۔کھیل کے قوہاعد کے مطابق ،ریڈر کے علاوہ اسناپرز کا کوئی بھی کھلاڑی درمیانی حدبندی عبور کرے دوسے پالے میں نہیں جاسکتا، جب کہ ریڈر پر پالے کی’’ باؤنڈری وال ‘‘کے پار باہر جانے کی پابندی ہوتی ہے۔ بھارت میں 1950میں اسے قومی کھیل کی حیثیت حاصل ہوئی اور 1950ء میں آل انڈیا کبڈی فیڈریشن (AKIF) کا قیام عمل میں آیا جس کے تحت اس کے ٹورنامنٹس کے لیے قواعد و ضوابط مرتب کیے گئے۔ 1972ء میں اسے امیچر کبڈی فیڈریشن انڈیا (AKFI)میں تبدیل کردیا گیا اور نئی تنظیم کے زیر اہتمام چنائے (مدراس) میں مردوں کے پہلے کبڈی ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا۔ 1979میں اس کھیل کی ترویج کے لیے ایشین امیچر کبڈی فیڈریشن کی جانب سے اقدامات کیے گئے اوربھارتی کھلاڑی ، سندر رام کو دو ماہ کے دورے پر جاپان بھیجا گیا ، جنہوں نے وہاں اس کھیل کو فروغ دیا اور جاپانی نوجوانوں کو اس کی تربیت دی گئی۔

کبڈی سرکاری طور پوربنگلہ دیش کا قومی کھیل ہے ، جو ’’ہادودو‘‘ کے نام سے کھیلا جاتا ہے۔ وہاں کبڈی کے کھیل کا آغاز 1973ء سے ہوا اور بنگلہ دیش ایمیچر کبڈی فیڈریشن تشکیل دی گئی۔ 1979ء میں بنگلہ دیش میںبھارت اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کے درمیان کبڈی میچوں کا انعقاد ہوا، یہ پہلا ٹورنامنٹ تھا جس کا انعقاد بھارت سے باہر ہواتھا۔ 1980ء میں پہلی ایشین کبڈی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا ،اس وقت سے آج تک بنگلہ دیش کی ٹیم نےکبڈی کی ایشین چیمپئن شپ کے تمام مقابلوں میں حصہ لیا جن میں اس نے تین مرتبہ چاندی اور دو مرتبہ کانسی کے تمغے حاصل کیے۔ 2016ء کے عالمی کپ میں اگرچہ اس نے شکست کھائی تھی مگر آسٹریلیا کو بڑے مارجن سے ہرا کر اس نے عالمی ریکارڈ بنایا،کبڈی کی عالمی درجہ بندی میں اس کا پانچواں نمبر ہے۔ایران کا بھی یہ مقبول عام کھیل ہے، ایشین چیمپئن شپ میں ایران نے دو مرتبہ چاندی کا تمغہ حاصل کیا جب کہ عالمی کپ میں ایرانی ٹیم تین مرتبہ رنر اپ رہی۔ کبڈی کی عالمی درجہ بندی میں اس کا دوسرا نمبر ہے۔امریکا میں یہ کھیل انڈور گیمز کی حیثیت سے کھیلا جاتا ہے۔ امریکی ٹیم نے عالمی کپ کے تقریباً تمام مقابلوں میں شرکت کی لیکن ابتدائی مراحل میں ہی وہ مقابلوں سے باہر ہوگئی، عالمی درجہ بندی پر وہ نویں نمبر پر ہے۔ برطانیہ میں بھی یہ کھیل 90کی دہائی میں روشناس ہوا اور وہاں مقامی سطح کی آٹھ ٹیمیں تشکیل دی گئیں جن پر مشتمل1992ء میں انگلینڈ نیشنل کبڈی ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا، جس کا الحاق انٹرنیشنل کبڈی ایسوسی ایشن ہے۔ 2004میں کبڈی کے افتتاحی عالمی میں انگلینڈ کی ٹیم نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا اور ملائیشیاء اور کوریا کو شکست دے کوارٹر فائنل کے مرحلے تک پہنچی، لیکن جاپان کے ہاتھوں شکست کھا کر مقابلے سے باہر ہوگئ۔ برطانوی کبڈی ٹیم نے 2007,210,2011, 2012, اور 2016کے عالمی ٹورنامنٹس میں شرکت کی لیکن ہر بار ابتداء میں ہی مقابلے سے باہر ہوگئی۔

1990ء میں اس کھیل کو پہلی مرتبہ چین کے شہر بیجنگ میں منعقد ہونے والے ایشیائی کھیلوں میں متعارف کرایا گیا۔ اس ٹورنامنٹ میںمختلف ممالک سے کبڈی کی سات ٹیموں نے شرکت کی۔ بھارتی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں سات طلائی تمغے حاصل کیے جب کہ بنگلہ دیش کی ٹیم رنر اپ رہی۔ دوسری ایشین کبڈی چیمپئن شپ ایران میں منعقد ہوئی، تیسری ایشین چیمپئن شپ کا انعقاد لاہور میں ہوا۔ یکم سے پانچ نومبر تک ہونے والے ان مقابلوں کا فائنل راؤنڈ پاکستان اوربھارت کے مابین کھیلا گیا ۔انتہائی سخت مقابلے کے بعد تیکنیکی بنیادوں پر پاکستان نے یہ اعزاز جیت لیا۔ 2014ء کی ایشین چیمپئن شپ بھارت نے جیتی۔ اپریل2016ء میں ایشین کبڈی چیمپئن شپ کا انعقادپاکستان آرڈننس اسپورٹس کمپلیکس، واہ کینٹ میں ہوا۔ فائنل راؤنڈ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا جس میں پاکستان نےطلائی تمغہ حاصل کیا، جب کہ بھارتی ٹیم رنر اپ رہی۔ تیسری اور چوتھی پوزیشن افغانستان اور ایران کی ٹیموں نے حاصل کی۔ کبڈی کے پہلے عالمی کپ کا انعقاد ء2007ء میں ہوا جس میں بھارت فاتح رہا، 2010ء 2011ء 2012ء اور 2016ء کی عالمی چیمپئن شپ کے تمام مقابلوںمیں بھارت ناقابل شکست رہا۔عالمی کپ کےانعقاد سے چند ماہ قبل ایشین چیمپئن ٹرافی میں بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اس لیےاکتوبر2016ء میں ہونے والے چھٹے ورلڈ کپ میں جس کا انعقاد احمد آباد میں ہوا،جس میں بارہ ممالک کی کبڈی ٹیموں نے شرکت کی جب کہ پاکستان کی ٹیم کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے انٹرنیشنل کبڈی فیڈریشن کے صدر دیوراج چھاٹ اورویدی نے اس کا سبب سکیورٹی وجوہات بتایا۔

پاکستان میں ایشیائی طرز کی کبڈی مقبول ہے ، جو علاقائی سطح پر ملک بھر کے دیہاتوں میں کھیلی جاتی ہے۔ 1964ء میں اسے قومی کھیلوں میں شامل کیا گیا اور اسی سال پاکستان کبڈی فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا، چوہدری محمد صدیق وٹو اس کے پہلے صدر مقرر کیے گئے۔ 1966ء میں قومی سطح پر پہلی مرتبہ کبڈی ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان اب تک کبڈی کے تمام بین لاقوامی ٹورنامنٹس میں شرکت کرچکا ہے۔ 1984سے 2016ء تک ایک درجن سے زائد جنوبی ایشین گیمز کا انعقاد ہوا، جن میں سے 1984ء اور 1991ء کے گیمز میں پاکستان شرکت سے محروم رہا جب کہ دیگر مقابلوں میں ایک طلائی ،پانچ چاندی اورتین کانسی کے تمغے حاصل کیے۔ 1990ء سے 2014ء تک ہونے والے ایشین گیمز کے کبڈی کے تمام مقابلوں کی چیمپئن شپ بھارت نے ہی جیتی جب کہ پاکستان نے اس میں ایک طلائی ، دو چاندی اور پانچ کانسی کے تمغے حاصل کیے۔ کبڈی کے کھیل میں خواتین نے بھی نمایاں مقام بنایا ہے لیکن اس میں بھی بھارت کو سبقت حاصل ہے۔ 2012ء میں کبڈی کےپہلے خواتین عالمی کپ کا انعقاد پٹنہ میں ہوا جس میں بھارت نے ایران کو شکست دے کر مذکورہ چیمپئن شپ جیت لی۔ 2013ء کے ویمن عالمی کپ میں نیوزی لینڈ کو سخت مقابلے میں ہرا کر طلائی تمغہ حاصل کیا۔

 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223236 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.