کراٹے کا کھیل

موت کا کھیل، جو صنف نازک میں بھی مقبول ہے
کئی پاکستانی کھلاڑیوں نے اس میں متعدد ریکارڈ قائم کیے جن میں حجاب لگا کر مقابلوں میں شرکت کرنے والی خاتون بھی شامل ہے

کراٹے کا کھیل
موت کا کھیل، جو صنف نازک میں بھی مقبول ہے
کئی پاکستانی کھلاڑیوں نے اس میں متعدد ریکارڈ قائم کیے جن میں حجاب لگا کر مقابلوں میں شرکت کرنے والی خاتون بھی شامل ہے

کراٹے، دو الفاظ کا مجموعہ ہے، کراٹے جس کے لغوی معنی خالی ہاتھ کے ہیں۔ یہ کھیل چینی مارشل آرٹ کی ایک قسم ہے جس میں کھلاڑی حملہ کرتے ہوئے کہنی، گھٹنے، مکے اور اوپن ہینڈ تکنیکس جیسے اسپیئر ہینڈ اور ہام ہیل اسٹرائیک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کھیل میں کئی قدیم اور جدید انداز استعمال ہوتے ہیں جن میں جوڑوں کا لاک لگانا، مخالف کھلاڑی کو پھینکنا اوراس کے جسم کے اہم حصوں پر ضربات لگانایا دباؤ ڈالنا سکھایا جاتا ہے۔ کراٹے کی تربیت حاصل کرنے والے کھلاڑی کو ’’کراٹیکاز‘‘ کہا جاتا ہے۔ 1924 میںاس فن کی تعلیم کے لیے ’’کیو یونیورسٹی‘‘ قائم کی گئی جس میں کراٹے کی تعلیم کا شعبہ بھی رکھا گیا اور وہاں پہلی مرتبہ کراٹے کلب کا قیام عمل میں آیا۔ 1932 تک جاپان کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میںاس طرز کے کلب بن گئے۔ اس کھیل میں کھلاڑیوں کو ان کی پوزیشن کے لحاظ سے مختلف رنگوں کی بیلٹ دی جاتی ہیں۔ کھیل کی تربیت کے وقت سفید بیلٹ اس کے بعد یلو، اورنج، گرین، بلیو، پرپل، برائون، ریڈ اور اس پر مکمل دست رس حاصل کرنے والے کھلاڑی کو بلیک بیلٹ دی جاتی ہے۔ اسے موت کا کھیل کہا جاتا ہے ، بعض اوقات جسم کے نازک حصوں پر ضربات لگنے کی وجہ سے کھلاڑیوں کی موت واقع ہوجاتی ہے یا ان کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ موجودہ د ور میں صنف نازک میںبھی یہ جنگجو یانہ کھیل خاصا معروف ہوچکا ہے، پاکستان سمیت دنیا کی کئی خاتون کراٹیکازنے اس میںعالمی سطح پرشہرت حاصل کی۔ انہی میں سے 2014میں عالمی چیمپئن بننے والی اٹلی کی کراٹیکاز، سارہ کاروین بھی شامل ہیں۔انہوں نے 14سال کی عمر سے کراٹے کے مقابلوں کا آغاز کیا اور اٹالین کراٹے چیمپئن شپ جیتی۔اپنے کیریئر کے دوران انہوں نے بے شمار ملکی و غیرملکی انعامات، اعزازات اور میڈلز حاصل کیے۔
پاکستان میں یہ کھیل 1960کی دہائی میں متعارف ہوا، اس زمانے میں لوگ اسے سیکھنے پر بہت کم توجہ دیتے تھے اور اس کی تربیت چند نجی کلبوں میں دی جاتی تھی۔ 1988میں اس کے فروغ کے لیے پاکستان کراٹے فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا، جس کے موجود صدر محمد جہانگیر ہیں۔ یہ ملکی سطح پر اس کھیل کی گورننگ باڈی ہے، جس کا الحاق پاکستان اسپورٹس بورڈ،پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن، ایشین کراٹے ڈو فیڈریشن اور عالمی کراٹے فیڈریشن شامل ہیں۔ یہ کھیل قومی گیمز کا حصہ ہے اور فیڈریشن باقاعدگی کے ساتھ محدود وسائل کے باوجود قومی کراٹے چیمپئن شپ کا انعقاد کراتی ہے جب کہ بہترین کراٹیکاز پر مشتمل ٹیم کو بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے ملک سے باہر بھی بھیجا جاتا ہے۔
اس کھیل میں پاکستان کے کئی کھلاڑیوں نے ملک و قوم کا نام روشن کیا، بے شمار تمغے اور اعزازات جیتے، ان میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں نذر قارئین ہے۔
محمد اشرف طائی
پاکستان میںکراٹے کے کھلاڑیوں میں پہلا نام محمد اشرف طائی کا ہے۔ وہ سابق برما( میانمار )کے علاقے اکیائب میں پیدا ہو ئے والے۔برما میںیہ کھیل عام تھا، انہوں نے 9 سال کی عمر میں برمی استاد لی فوشن سےکراٹے کی تربیت حاصل کی اور 16 سال کی عمر میں بلیک بیلٹ حاصل کرنے کے بعد میانمار میں مقامی ٹورنامنٹس میں حصہ لیتے رہے۔اشرف طائی کے مطابق میانمار میں مارشل آرٹ کے ایڈوانس لیول پرپہنچنے والوںکو بدھ ازم اختیار کرنا پڑتا ہے جو مجھ سمیت میرے خاندان کے افرادکو گوارہ نہیں تھا، اس لیےان کا خاندان 1970 میں وہاںسے ہجرت کرکےپاکستان آگیا تھا، گھر کے باقی افراد مشرقی پاکستان چلے گئے جب کہ وہ کراچی آگئے۔ یہاں کراٹے کے کھیل سےکوئی بھی واقف نہیں تھا، انہوں نےکراچی میں اس کھیل کو متعارف کرایا۔
کراچی میں کسی شناساکے نہ ہونے کی وجہ سے وہ میری ویدر ٹاور کی فٹ پاتھ پر شب بسری کرتے تھے جہاںان کے ساتھ ایک باڈی بلڈر بھی رات گزارتا تھا۔ اان کے ساتھی کو جب کراٹے کے کھیل میں ان کی مہارت کا علم ہوا تو اس نے انہیں اس کھیل کو ذریعہ معاش بنانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے اس پر عمل کرتے ہوئےکراٹے کےکھیل کو کراچی میں متعارف کراکے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنایا اور ہل پارک میں طلباء کو مارشل آرٹ کی تربیت دینا شروع کی، جس کی وجہ سے ان کی مالی اور سماجی ساکھ بہتر ہوتی گئی۔ جب انہوںنے پاکستان میں سکھانا شروع کیا تولوگ اسے محض لڑائی جھگڑے کا کھیل سمجھتے تھے۔انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ مارشل آرٹس مار دھاڑ کا کھیل نہیں بلکہ پرسکون زندگی گزارنے کا ذریعہ ہے، یہ لوگوں کی عادت و اطوار میں نظم و ضبط لاتا ہے۔پاکستان میں کراٹے کے بانی کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان کراٹے فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سے اس کا الحاق کرانے میں کامیاب رہے۔اشرف طائی کافی عرصے تک پاکستان کراٹے فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، اس کے ساتھ انہوں نے کراٹے کے کھلاڑی کی حیثیت سے پاکستان کی جانب سے بے شمار ملکی و بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا۔انہیں 1978اور 1979میں دو مرتبہ ایفرو ایشین مارشل آرٹ چیمپئن، 9مرتبہ پاکستان میں کراٹے کے قومی چیمپئن اور 10ڈان بلیک بیلٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 2000ء میں امریکا کی انٹرنیشنل گرینڈ ماسٹر کونسل نے انہیں انٹرنیشنل گرینڈ ماسٹر کے اعزاز سے نوازاجو کسی پاکستانی کا پہلا اعزاز ہے۔ انہیں دو مرتبہ پاکستان کے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا گیا۔ پہلی مرتبہ انہیں 2003ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نےیہ اعزاز دیا جب کہ دوسری مرتبہ انہیں 2012ء میں صدر آصف علی زرداری نے ملک میں کراٹے کے کھیل کے لیے خدمات پر مذکورہ اعزاز سے نوازا۔ ان کا 1971ء میں قائم کیا ہوا طائیز بانڈو کراٹے سینٹر اب تک ہزاروں مارشل آرٹس کے کھلاڑیوں کو تربیت فراہم کرچکا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ 1980ء میںانہوں نے مارشل آرٹ کی عالمی چیمپئن شپ میں شرکت کی اور ڈان ولسن سے ان کی آخری فائیٹ ٹوکیو میں منعقد ہوئی جس کے دوسرے رائونڈ میں وہ ہارگئے جس کے بعد انہوں نے اس کھیل سے ریٹائرمنٹ لے لی لیکن اس فائٹ نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔ 2017ء میں انہوں نےایک انٹرویو میں ڈان ولسن کے ساتھ فائٹ ہارنے کے لیے ’’میچ فکسنگ‘‘ کا اعتراف کیا۔
کلثوم ہزارہ
کراچی میں رہنے والی کلثوم ہزارہ، کا شمار پاکستان کی معروف کراٹیکاز میں ہوتا ہے، جو کئی مرتبہ قومی چیمپئن شپ جیت چکی ہیں۔ وہ کوئٹہ کی ہزارہ برادری میں پیدا ہوئیں، جب وہ اسکول میں گریڈ تھری کی طالبہ تھیں تو انہیں کراٹے سیکھنے کا شوق ہوا۔اس کھیل کے ماہر علی سرور سے ان کے گھرانے کے دیرینہ تعلقات تھے۔ انہوں نے اس بچی میں کراٹے کے کھیل میں دل چسپی دیکھتے ہوئے، اس شوق کو مزید مہمیز دی اور اسے پروان چڑھانے کے لیے کلثوم کی تربیت شروع کی۔استاد کے مشورے پر اپنے والدین سے اجازت لے انہوں نے اسلام آباد اور لاہور میں پاکستان اسپورٹس بورڈ کے کوچنگ سینٹرز میں تربیت حاصل کی۔سرور کی تمنا تھی کہ وہ کلثوم کو اس فن کی عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی کے روپ میں دیکھیں، انہوں نے اپنے استاد کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سخت محنت کی۔بلیک بیلٹ کے حصول کے بعد 2003میں قومی ویمن کراٹے چیمپئن شپ میں حصہ لیا اور پاکستان کی قومی چیمپئن بن گئیں۔ 2006میں کوئٹہ کی ایک شاہ راہ پران کے اس فن کے استاد علی سرور کوقتل کردیا گیا۔
انہوں نے بے شمار ملکی و غیرملکی مقابلوں میں حصہ لیا اور وہ ملک کی واحد خاتون کراٹیکاز ہیں جنہوں نے متواتر تین بین الاقوامی مقابلے جیت کر اپنے ملک کی جانب سےپہلی ہیٹ ٹرک کی۔2017میں نئی دہلی میں منعقد ہونے والی جنوبی ایشین کراٹے چیمپئن شپ میں انہوں نے سونے کے دو جب کہ لاہو کے قومی کھیلوں میں تین طلائی تمغے جیتے۔2005میں ایران میں منعقد ہونے والے پہلے اسلامی سالیڈریٹی گیمز میں حصہ لیا اور اس کھیل میں پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ 2006میں کولمبو میں منعقد ہونے والے ایشین گیمز میں پاکستان کراٹے ٹیم کے اسکواڈ کے ساتھ شرکت کی اور وہاں سے سرخرو ہوکر وطن واپس آئیں۔ 2006 میں کولمبو، 2010ء میں ڈھاکا اور 2011ء میں دہلی میں منعقد ہونے والے سائوتھ ایشین گیمز میں دو طلائی اور 4کانسی کے تمغے حاصل کئے۔ وہ گزشتہ 15سال سے کراٹے کی قومی چیمپئن اور دو بار نیشنل گیمز کراٹے چیمپئن رہ چکی ہیں۔
ان کی برادری میں لڑکیوں کے کھیلوں میں حصہ لینے کو معیوب تصور کیا جاتا ہے، اسی لیے جب انہوں نے اس کھیل سے وابستگی اختیار کی برادری کے افراد کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیالیکن جب وہ بیرون ملک سے انعامات و اعزازات جیت کروطن واپس آئیں تو انہی لوگوں نے کلثوم کا والہانہ خیر مقدم کیا۔ کوئٹہ میں امن امان کی ناگفتہ بہ صورت حال کی وجہ سے ان کے اہل خانہ نے نقل مکانی کرکے کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ کلثوم نے یہاں کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر فزیکل ایجوکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے کھیل کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ وہ حجاب پہن کر مارشل آرٹس کے مقابلوں میں شرکت کرتی ہیں۔ انہیں بلوچستان میں پاکستان آرمی کی جانب سے کھیل میں بہترین خدمات پر ’’نیشنل لیول ایکسی لینس ‘‘ ایوارڈ دیا گیا لیکن حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی توصیف و ستائش کے لیے اب تک کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اپنے ملک کے لیے کراٹے کی اولمپک چیمپئن شپ جیتنا ان کی دیرینہ خواہش ہے جس کی تیاریوں میں وہ مصروف ہیں۔
عبدالخالق
کراچی سے تعلق رکھنے والے عبدالخالق کا تعلق واپڈا سے ہے۔وہ اپریل 1991میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے، وہ بھی کلثوم ہزارہ کی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ چند سال قبل اپنے والدین کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے۔ کراچی یوینورسٹی سے کامرس میں گریجویشن کیا۔ انہوں نے انتہائی کم عمری میں کراٹے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا اور بے شمار تمغے اور اعزازات حاصل کئے۔ وہ کلثوم ہزار کے ساتھ ٹیم کے اس اسکواڈ کا حصہ تھے جس نے بھارتی سرزمین پر پہلی مرتبہ جنوبی ایشین کراٹےچیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 2005ء میں انہوں نے کراچی میں ہونے والی 15ویں قومی کراٹے چیمپئن شپ میں طلائی تمغہ، 2007ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی انٹر یونٹ کراٹے چیمپئن شپ میں طلائی تمغہ، 2006ء میں سرگودھا میں ہونے والی 21ویں قومی کراٹے چیمپئن شپ میں دو چاندی کے تمغے، 2008ء میں سیالکوٹ میں منعقد ہونے والی 17ویں قومی کراٹے چیمپئن شپ میں ایک چاندی اور ایک کانسی، 2004ء میں 14ویں قومی کراٹے چیمپئن شپ میں کانسی، 2005ء میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی قومی کراٹے چیمپئن شپ میں کانسی، 2009ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی انٹر یونٹ کراٹے چیمپئن شپ میں چاندی، 2011ء میں راولپنڈی (جی ایچ کیو) میں منعقد ہونے والی 21ویں قومی کراٹے چیمپئن شپ میں چاندی کے تمغے حاصل کئے۔ 2011ء میں دہلی میں منعقد ہونے والی پہلی سائوتھ ایشین کراٹے چیمپئن شپ کے مقابلوں میں چاندی کا تمغہ حاصل کرچکے ہیں۔ان کا اصل مقصد اولمپکس گیمز اور ورلڈ کراٹے چیمپئن شپ میں تمغوں کا حصول ہے۔
سعدی عباس
کراٹے کے معروف کھلاڑی سعدی عباس،1986میں کراچی کے علاقے، لیاری ٹاؤن کی ایک پسماندہ بستی میں پیدا ہوئےان کے علاقے کے نوجوانوں میں باکسنگ اور فٹ بال کے کھیل کا رجحان زیادہ پایا جاتاتھا لیکن انہوں نےسات برس کی عمر میں گھر کے قریب واقع کراٹے اکیڈمی میں داخلہ لیا،2001میں اس کھیل میں بلیک بیلٹ حاصل کی۔سعدی عباس نے اب تک کراٹے کے متعدد ملکی و بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا اور بے شمار تمغے و اعزازات حاصل کیے۔ وہ جنوبی ایشیا کے واحد مارشل آرٹ کھلاڑی ہیں جنہوں نے 2014میں پہلی مرتبہ ایشین کراٹے چیمپئن شپ میں طلائی تمغہ جیتا۔ 2009میں جوہانس برگ ، جنوبی افریقہ میں دولت مشترکہ چیمپئن شپ میں فتح حاصل کی۔ 2011میں چین کے شہر ’’کوانزہو‘‘ میں منعقد ہونے والی ایشین کراٹے چیمپئن شپ میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے سونے کا تمغہ جیتا۔ 2014میں امریکا کے شہر لاس ویگاس میں یو ایس اوپن کراٹے چیمپئن شپ کے مقابلوں میں شرکت کی اور وہاں سے طلائی تمغہ لے کر واپس آئے، یہ کسی پاکستانی کراٹیکاز کاپہلا اعزاز تھا۔ 2013میں مانٹریال میں منعقد ہونے والی کامن ویلتھ کراٹے چیمپئن شپ میںسونے کا تمغہ حاصل کیا۔اکتوبر 2016میں انہوں نے آسٹریا کے شہر ’’لنز‘‘ میں اپنے اخراجات پر عالمی کراٹے چیمپئن شپ میں 67کلوگرام کٹیگری کے مقابلوں میں حصہ لیا ، اس میں ان کے ساتھ نہ تو کوئی کوچ تھا اور نہ ہی ٹیم آفیشل،تیسرے راؤنڈ میں وہ شکست کھا کرمقابلے سے باہر ہوگئے۔2017میں استنبول میں انٹرنیشنل کراٹے چیمپئن شپ منعقد ہوئی جس میں پاکستان سے سعدی عباس نے شرکت کرکے چاندی کا تمغہ جیتا۔ اپنی مسلسل فتوحات کے بعد وہ عرصہ دراز تک پاکستانی حکومت کی جانب سے پذیرائی ملنے کے منتظر رہے لیکن جب ان کی خدمات کو سرکاری سطح پر یکسر نظر انداز کردیا گیا تو انہوں نے ملک چھوڑنے کا ارادہ کرلیا، جسے بعد میں ملتوی کردیا۔ 2017میں آذربائی جان کے شہر باکو میں اسلامک سالیڈریٹی گیمز کا انعقاد ہوا جس میں وہ رنر اپ رہے اور نقرئی تمغہ حاصل کیا۔ 2003ء میں سعدی نے پہلی مرتبہ کراٹے کی قومی چیمپئن شپ میں حصہ لیا اور طلائی تمغہ جیتا۔ وہ قومی گیمز میں سونے کا تمغہ جیتنے والے سندھ کے پہلے کراٹیکا زتھے۔ 2006ء میں انہوں نے جنوبی ایشین گیمز میں طلائی تمغہ جیتا اور سائوتھ ایشین چیمپئن بننے والے پہلے سب سے کم عمر پاکستانی کھلاڑی قرار پائے۔ 2007ء میں ملائشیا میں ہونے والی ایشین کراٹے چیمپئن شپ میں پاکستان کی نمائندگی کی لیکن تینوں کیٹگریز میں شکست کھا گئے۔ 2009ء میں انہوں نے ایشین مارشل آرٹس گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ 2010ء میں جنوبی افریقہ اور 2013ء میں مانٹریال میں منعقد ہونے والی کامن ویلتھ کراٹے چیمپئن شپ میں طلائی تمغے جیتے۔ چین میں منعقد ہونے والی 11ویں ایشین کراٹے چیمپئن شپ میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔اپریل 2017میں دوبئی میں ورلڈ کراٹے پریمئر لیگ کا انعقاد ہوا جس میں سعدی عباس کا مقابلہ چیکوسلواکیہ کے کراٹیکاز سے ہوا۔ ابتدائی تین راؤنڈ میں انہیں برتری حاصل رہی لیکن چوتھے راؤنڈ کے آغاز کے ساتھ ہی اچانک ان کے حریف نے ان پر حملہ کردیا جس کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔ ان کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ ٹیکنیکل ناک آؤٹ ہوکر مقابلے سے باہر ہوگئے۔ وہ اپنے ملک کی جانب سے سرکاری سطح پر اولمپکس مقالوں میں حصہ لینا چاہتے ہیں، اس کے لیے حکومت سے انہوں نے کئی مرتبہ تعاون کی درخواست کی لیکن اب تک انہیں مثبت جواب نہیں ملا۔
انعام اللہ خان
7ڈان بلیک بیلٹ،انعام اللہ خان، ملک میں مارشل آرٹ کے ابتدائی کھلاڑیوں میں سے تھے۔ انہوں نے یہ اعزاز جو ’’شیہان‘‘ کہلاتا ہے پیڈچانگ اور مسوتا تسواویاما سے تربیت حاصل کرکے جیتا۔ ان کا تعلق ضلع صوابی سے تھا، پرائمری تعلیم کے بعد وہ کراچی منتقل ہوگئے اور یہاں انہوں نے 1970ء میں گریجویشن کرنے کے ساتھ مارشل آرٹس کی تربیت حاصل کی اور جوڈو، کراٹے اور بانڈو کا کھیل سیکھا۔ 1977ء میں انہوں نے کوالالمپور میں منعقد ہونے والی عالمی کراٹے چیمپئن شپ کے مقابلوں میں دوسری پوزیشن جیتی اور ’’بہترین فائٹر‘‘ کا اعزاز حاصل کیا۔ 1978ء، 1979ء، 1983ء اور 1989ء میں قومی کراٹے چیمپئن شپ کا اعزاز جیتا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران 78مقابلے جیتے جب کہ 3میں شکست کھائی۔ وہ کراچی کراٹے ایسوسی ایشن کے صدر جب کہ سندھ کراٹے ایسوسی ایشن کے نائب صدر رہے ہیں، انہوں نے پاکستان، افغانستان، سعودی عرب، ازبکستان، بحرین اور ماریشیس میں کراٹے کے کیوکیشن طرز کو فروغ دیا۔ انہیں کراٹے میں پرائیڈ آف پرفامنس اور لائف اچیومنٹ کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔

 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.