#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 56
}}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان اللہ
وملٰئکته یصلون
علی النبی یایھاالذین
اٰمنو صلواعلیه وسلموا
تسلیما 56
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ اللہ اور اُس کے فرشتے نبی کے
کارِ نبوت کی تصدیق و تائید اور حوصلہ اَفزائی کرتے رہتے ہیں اِس لیۓ جو
لوگ اللہ کے اِس نبی پر ایمان لاچکے ہیں اُن کو بھی اِس اَمر کی تاکید کی
جاتی ھے وہ اللہ کے اِس نبی کے کارِ نبوت کی تائید و تصدیق اور حوصلہ
افزائی کرتے رہا کریں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس اٰیت میں اِس اٰیت کا جو پاچواں لفظ "یصلّون" ھے وہ جمع مذکر غائب فعل
مضارع کا وہ صیغہ ھے جس کا معنٰی کسی فرمان کار ہستی کی طرف سے اپنی کسی
فرمان بردار ہستی کے کارِ فرمان برداری کی تائید و توثیق اور حوصلہ افزائی
کرنا ہوتا ھے اور اِس اٰیت کا جو دسواں لفظ "صلوا" ھے وہ جمع مذکر حاضر فعل
اَمر معروف کا صیغہ ھے جس میں اہلِ ایمان کو یہ حُکم دیا گیا ھے کہ جس طرح
اللہ تعالٰی اور اُس کے فرشتے محمد علیہ السلام کے کارِ نبوت کی توثیق و
تصدیق اور حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں اسی طرح تُم بھی محمد علیہ السلام کے
کارِ نبوت کی تائید و تصدیق اور حوصلہ افزائی کرتے رہا کرو اور اِس اٰیت کے
بارہویں اور تیرہویں لفظ میں اِس تائید و تصدیق کا جو عملی طریقہ بتایا گیا
ھے وہ یہ ھے کہ محمد علیہ السلام تُم کو اللہ تعالٰی کے جو اَحکامِ نازلہ
سناتے ہیں تو تُم اُن اَحکامِ نازلہ کو اُسی طرح تسلیم کر لیا کرو جس طرح
اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کے ذریعے اُن اَحکام کو تسلیم کرنے کا تُم کو حُکم
دیا ہوا ھے اِس لیۓ اِس اٰیت سے یہ اَمر بھی مُتعین ہو گیا ھے کہ اِس اٰیت
کا معنٰی اللہ تعالٰی اور اُس کے فرشتوں کی طرف سے سیدنا محمد علیہ السلام
کے کارِ نبوت کی تصدیق و توثیق اور تائید و حوصلہ افزائی کرنے کے سوا اور
کُچھ بھی نہیں ھے اور اسی اٰیت میں اہلِ ایمان پر بھی یہ عمل لازم کر دیا
گیا ھے کہ جس طرح اللہ تعالٰی اور اُس کے فرشتے محمد علیہ السلام کے کارِ
نبوت میں اُن کی ہمہ وقت ہمت افزائی کرتے رہتے ہیں اسی طرح تُم بھی اُن کے
کارِ نبوت میں اُن کی ہمہ ووت ہمت افزائی کرتے رہا کرو اور اِس اٰیت کا یہی
ایک مفہوم ہونے اور اِس ایک مفہوم کے سوا کوئی اور مفہوم نہ ہونے کی دلیل
یہ ھے کہ اِس سے قبل اسی سُورت کی 43 میں اسی مصدر کے صیغے"یصلّی" کے ساتھ
جو مضمون گزرا ھے اور اُس مضمون میں اہلِ ایمان کو اللہ تعالٰی اور اُس کے
فرشتوں کی طرف سے اُن کی ہمت افزائی کی جو بشارت دی گئی ھے اُس بشارت کا
مطلب بھی ہر گز یہ نہیں ھے کہ اللہ تعالٰی اور اُس کے فرشتے تُمہارے لیۓ
کوئی نماز پڑھتے یا تُم پر کوئی دَرود شریف پڑھتے رہتے ہیں ، اُس اٰیت کے
اُس مفہوم کا مطلب بھی صرف یہ ھے کہ اللہ تعالٰی اور اُس کے فرشتے تُمہارے
ایمان و یقین کی تائید و تصدیق اور حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں تاکہ تُم
اپنے اسی عزمِ کامل کے ساتھ اپنے اس ایمان و یقین پر اسی طرح ثابت قدم رہو
جس طرح کہ اِس وقت تُم اُس پر ثابت قدم ہو اور اِس حُکم کا مقصد یہ بتایا
گیا ھے کہ جس طرح تُم اپنی بصیرت افروزی کے باعث جہالت کے اندھیرے سے نکل
کر ایمان کی روشنی میں آ چکے ہو اسی طرح سارے اہلِ زمین جہالت کی تاریکی سے
نکل کر ایمان و یقین کی روشنی میں آجائیں لیکن اہلِ روایت اِس مصدر سے صادر
ہونے والے اِن صیغوں سے کہیں پر اللہ تعالٰی کے لیۓ نماز پڑھنا مُراد لیتے
ہیں اور کہیں پر سیدنا محمد علیہ السلام کے لیۓ وہ دُرود پڑھنا مُراد لیتے
ہیں جس دَرُود میں کوئی دَرُود تاج ھے ، کوئی دَرُود قادری ھے ، کوئی
دَرُود لکھی ھے ، کوئی دَرُود ہزارہ ھے لیکن اِن میں سے جو دَرُود سب سے
زیادہ مشہور ہوا ھے وہ دَرودِ ابراہیمی ھے جو ہر نماز کے ہر قیامِ تشھد میں
اُس تحیہِ نماز کے بعد پڑھا جاتا ھے جس تحیہِ نماز میں اہلِ روایت رحمت و
برکت کی وہ دُعا پڑھتے ہیں جس دُعا میں وہ اللہ تعالٰی اور اُس کے رسُول
علیہ السلام کو کسی دُوسرے اللہ تعالٰی سے ایک دُوسرے کے لیۓ طُولِ حیات و
پاکیزہ رزقِ حیات کی کشادگی کی دُعا مانگتے ہوۓ دکھاتے ہیں اور جب تشھد میں
پڑھی جانے والی یہ دُعاۓ تحیہ مُکمل ہو جاتی ھے تو وہ تحیہِ نماز کی اُس
رحمت و برکت کو دَرُودِ ابراہیمی میں مُنتقل کر دیتے ہیں جس سے ایک تو وہ
ابراہیمی دَرُود وجُود میں آجاتا ھے جس دَرُود میں رحمت کی دُعا ہوتی ھے
اور دُوسرا وہ دَرُود ابراہیمی وجُود پا جاتا ھے جس دَرُود میں برکت کی ایک
دُوسری دُعا ہوتی ھے ، لطیفہ ملاحظہ فرمائیے کہ جس اٰیت ہٰذا میں نبی علیہ
السلام کی کارِ نبوت میں اُن کی ہمت افزائی کا حُکم دیا گیا ھے اُس حُکم سے
وہ جو دَرُود پڑھنا مُراد لیتے ہیں اُس دَرُود کو وہ بذاتِ خود کبھی بھی
پڑھنے کا تکلف نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ ہی اُس کو { الّٰھم صلِّ } شروع کر کے
اللہ تعالٰی سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ محمد علیہ السلام پر ھمارے بجاۓ تُو
خود ہی یہ دَرُود شریف پڑھ اور ھماری مرضی سے ھماری مرضی کا وہ دَرُود شریف
پڑھ جس میں پہلے ابراہیم علیہ السلام پر وہ دَرُود شریف پڑھا جاۓ ، پھر اُن
کی اٰل میں پیدا ہونے والے تمام یہود و نصارٰی پر بھی وہ دَرُود شریف پڑھا
جاۓ اور پھر اُن کے واسطے اور وسیلے سے ھمارے نبی و اٰلِ نبی کے لیۓ بھی
رحمت و برکت والا وہی دَرُود شریف پڑھا جاۓ اور یہ بات ظاہر ہی ھے کہ اگر
اللہ تعالٰی بھی اِن احمقوں کی مرضی سے اِن کا یہ دَرُود شریف پڑھے گا وہ
بھی کسی دُوسرے اللہ سے وہ رحمت و برکت مانگ رہا ہو گا جو رحمت و برکت اِس
دَرُود میں مانگی گئی ھے اور دَر حقیقت اہلِ روایت کا مقصد بھی یہی ھے کہ
وہ اہلِ ایمان کو ایک ایسی دُعا پر لگادیں جس دُعا پر لگنے کے بعد وہ اپنی
عمر کے ہر دن میں کئی کئی بار اِسی طرح اللہ تعالٰی کا انکار کرتے رہیں کہ
اُن کو اِس بات کا کبھی علم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کر رھے ہیں اور کیوں کر رھے
ہیں ، بہر کیف اِس دَرُود کی واحد دلیل امام بخاری کی وہ روایت ھے جس روایت
کو امام بخاری نے کعب بن عجرة کے حوالے سے بخاری کی کتاب التفسیر کی حدیث
4797 میں درج کیا ھے اور کعب بن عجرة کوفی متوفٰی 51 ہجری کے حوالے سے نقل
کیا ھے اور یہ حدیث امام بخاری کے راوی سے ابی لیلٰی 83 ہجری نے بیان کی ھے
جن کا نام یسار ابی لیلٰی ھے اور اِن کے بیٹے کا نام ابنِ ابی لیلٰی ھے جو
74 ہجری میں پیدا ہوۓ تھے اور 148 ہجری میں اُن کی وفات ہوئی تھی اور
محدثین اِس راوی کو جب بھی بلا تصریح ابن ابی لیلٰی کہتے ہیں تو اِس سے اُن
کی مُراد اُن کے بیٹے ابی لیلٰی ہوتے ہیں جن کی کعب بن عجرة سے ملاقات ہی
محلِ نظر ھے ، ھم لگے ہاتھوں یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ اللہ تعالٰی نے
اَنبیاۓ کرام اور اُن پر ایمان لانے والے اہلِ ایمان کے لیۓ جو دُعائیں
تجویز کی ہیں وہ سب کی سب دُعائیں قُرآنِ کریم میں موجُود ہیں ، مثال کے
طور پر ابراہیم علیہ السلام کی دُعا جو سُورَةُالبقرہ کی اٰیت 128 اور
سُورَہِ ابراھیم کی اٰیت 40 و 41 میں موجُود ھے ، زکریا علیہ السلام کی
دُعا سُورَہِ مریم کی اٰیت 4 میں مذکور ھے ، مُوسٰی علیہ السلام کی دُعا
سُورَہِ طٰہٰ کی اٰیت 25 میں درج ھے ، ایُوب علیہ السلام کی دُعا
سُورَةُالاَنبیاء کی اٰیت 83 میں اور یُونس علیہ السلام کی دُعا بھی اسی
سُورت کی اٰیت 87 میں درج ھے ، سیدنا محمد علیہ السلام کی دُعا
سُورَةُالاَسراء کی اٰیت 80 اور سُورَةُالکہف کی اٰیت 114 میں جلوہ افروز
ھے اور ایک عام انسان کے لیۓ تجویز کی گئی مُجوزہ دُعائیں سُورَةُ البقرة
کی اٰیت 201 اور اٰیت 286 کے علاوہ دیگر بہت سے مقامات پر بھی موجُود ہیں ،
اگر دَرُود ابراہیمی بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے تجویز کی ہوئی کوئی مُجوزہ
دُعا ہوتی تو وہ بھی لازما قُرآن کریم کے اندر ہی کہیں پر موجُود ہوتی
قُرآنِ کریم سے باہر ہر گز نہ ہوتی !!
|